عمران خان کی ڈرامائی گرفتاری، رہائی اور حکمران اتحاد کا ردعمل


گزشتہ تین دنوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ اچانک جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوا وہ حیران کن ہے۔ سب سے بڑھ کر عمران خان کو نہایت ہی توہین آمیز انداز میں گرفتار کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سے مجرموں جیسا سلوک کیا گیا۔ اس سے بھی اشتعال پھیلا، گرفتاری ہوتے ہی ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں بدقسمتی سے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو نقصان پہنچایا گیا اس کے علاوہ انمول انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ جو کہ ہر حال میں قابل مذمت ہے۔ بظاہر انتشار پھیلانے کا سارا الزام پی ٹی آئی کے کارکنوں پر آ گیا۔

اب سیکورٹی اداروں نے پتہ لگانا ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کے کارکن ملوث ہیں۔ یا یہ ہمیشہ کی طرح تاک میں بیٹھے دیگر جرائم پیشہ عناصر کے منظم جتھے کی کارستانی ہے جو ایسے مواقع پر بیچ میں گھس کر اپنا کام کر جاتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی ملک گیر پیمانے پر سرکاری و نجی املاک کی اس سے بھی زیادہ تباہی دیکھنے کو ملی تھی۔

یقین ہی نہیں ہو رہا کہ ایک ملک گیر سیاسی جماعت کے کارکن ملکی املاک اور تنصیبات کی توڑ پھوڑ میں ملوث ہو کر شرپسندی کریں گے۔ ایسی خبریں بھی آئیں کہ ایمبولینس سے مریض اتار کر ایمبولینس کو آگ لگائی گئی۔ کور کمانڈر جیسے اعلی فوجی عہدیدار کی رہائش گاہ پر حملہ آوروں کے ہاتھوں اسے نذر آتش کرنے کی دلخراش فوٹیجز بھی دیکھنے کو ملیں۔ یہ نہایت افسوسناک تھا کہ پر امن احتجاج اور مظاہروں کی جگہ پر تشدد ہنگاموں نے لے لی۔

جس سے بلاوجہ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ملکی تاریخ کا طویل ترین انٹرنیٹ سروس شٹ ڈاؤن ہوا۔ اس سارے سیاسی انتشار سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس کا اندازہ تو بعد میں ہو گا۔ پہلے ہی ملک بدترین معاشی بحران سے لڑ رہا ہے۔ اوپر سے اس وقت سیاسی محاذ آرائی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جب عمران خان کو ناقابل قبول انداز گرفتار کیا گیا۔ ملکی سطح کے مقبول عوامی رہنما کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی بالکل توقع نہ تھی۔ اور ساتھ ہی سپریم کورٹ کا یہ غیر متوقع فیصلہ آنا کہ عمران خان غیر قانونی طور پر گرفتار ہوئے ہیں۔ لہذا انہیں فی الفور رہا کر کے پولیس لائنز کے ریسٹ ہاؤس میں رکھا جائے۔ اور عمران خان کو حکم دینا، کہ وہ اگلے دن ہائی کورٹ میں پیش ہوں۔

اس وقت عدالتی فیصلہ پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد عمران خان نے کہا کہ انتظامیہ نے ان سے بدسلوکی کی اور انہیں سر میں ڈنڈا مارا جیسے وہ دہشتگرد ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ عام لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو ان سے ہمدردی ہے۔ عمران خان کے حامیوں کو لگتا ہے کہ عمران کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے اور انہیں غلط طریقے سے اقتدار سے الگ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان جلد از جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے الیکشن کا مطالبہ ان کے اس اعتماد اور یقین کی عکاسی کرتا ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت ان کو ووٹ دے گی۔ اور بالآخر پچھلی دفعہ کے برعکس بھاری اکثریت سے بلا شرکت غیرے اقتدار میں آ جائیں گے۔

اس وقت ملکی سیاست کی گرما گرمی میں عمران خان ہی زیر بحث ہیں۔ باقی سیاست دان ان کے مقابلہ میں اس وقت سیاسی منظرنامہ میں حاشیہ پر ہیں۔ ان کے خلاف اقدامات ان کا سیاسی قد کاٹھ مزید بڑھا رہے ہیں اور وہ زیادہ مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک عمران خان اقتدار میں نہیں آ جاتے۔ کیونکہ اب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ان کے سیاسی مخالفین کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔

چاہے مخالفین کے کتنے طاقتور کیوں نہ ہوں، چاہے وہ ریاستی مشینری کا کتنا ہی استعمال کیوں نہ کریں، جو مرضی سچ اور جھوٹ ملا کر پروپیگنڈا کریں۔ عمران خان کے حامی ہجوم نے اس پر کان نہیں دھرنے۔ اب یہ اس بات پر منحصر ہے کہ عمران خان اقتدار میں آ کر اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں خود کیا کرتے ہیں۔ اگر اس دفعہ بھی عمران خان نے اقتدار میں آ کر لوگوں کو مایوس کیا۔ اور وہ کچھ نہ کر پائے۔ تو بلاشبہ وہ عوام کی نظروں میں غیر مقبول ہوجائیں گے۔

البتہ پی ٹی آئی کے سیاسی ورکرز اور کٹر کارکنوں کی نظروں میں وہ پھر بھی فرشتہ اور معصوم ہی رہیں گے۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ سیاسی کارکنوں کے لئے اپنی پارٹی ایک مذہب کی طرح ہوتی ہے۔ جس سے اختلاف کرنے کی جسارت انہیں سکھائی ہی نہیں جاتی۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی کلچر میں سیاسی رہبر کارکن کے لئے ایک مقدس ہستی ہی ہوتا ہے۔ اس سے اختلاف کرنے کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کا ایک تلخ پہلو ہے۔

یہاں سیاسی پارٹیوں میں خود احتسابی کا عمل نہیں پایا جاتا۔ پارٹیاں جمہوریت کے نعرے تو خوب لگاتی ہیں۔ مگر ان کے اندر لیڈرشپ کے انتخاب کا طریقہ کار بالکل جمہوری نہیں ہوتا۔ موروثی سیاست، غیر جمہوری انتخابی طریقہ کار اور پارٹی لیڈرشپ پر تنقید کا فقدان، وہ خصوصیات ہیں۔ جو چند ایک کو چھوڑ کر باقی ساری سیاسی پارٹیوں میں بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ البتہ پی ٹی آئی پر فی الحال موروثی سیاست کا ٹھپا نہیں لگا سکتے۔

بے شک عمران خان گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں جس کے وہ بانی بھی ہیں لیکن دیگر سیاست دانوں کے برعکس ان کی اپنی اولاد تاحال سیاست سے دور ہے۔ تاہم شخصیت پرستی میں پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ہی ہے۔ اس کے یہاں بھی لیڈرشپ کا کرشمہ پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ بہت کم کارکن ہیں، جو اختلاف کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ اور پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے پارٹیوں سے فارغ بھی کیے جاتے ہیں۔ تا حال پاکستانی سیاسی جماعتوں میں برداشت کا مادہ داخل نہیں ہوا ہے۔

دوسری جانب عمران خان سپریم کورٹ کے حکم پر رہا ہو گئے۔ اور سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرائے گئے۔ لگ رہا ہے کہ عمران خان کرپشن کے الزامات کا سامنا کریں گے۔ اور الیکشن کرانے کے اپنے موقف پر بھی قائم رہیں گے۔ کرپشن کے الزامات سے قطع نظر دیگر سیاسی جماعتیں الیکشن کرانے سے کترا رہی ہیں۔ ڈیڈلاک قائم ہے۔ اگرچہ اس بات کی اشد ضرورت ہے۔ کہ مخالفتوں کے باوجود سیاسی ڈائیلاگ جلد از جلد شروع ہو۔ کیونکہ سیاسی تشنج کی وجہ سے ملکی معیشت کا نقصان ہو رہا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اب بھی الزام تراشیوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ انٹرنیٹ سروس کی معطلی، تعلیمی اداروں کی بندش اور امتحانات میں رکاوٹ سے الگ نقصان ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات معمول پر لائے جائیں۔ اور حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مل بیٹھ کر سیاسی معاملات کے حل کے لئے ملک اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر مشروط سنجیدہ اور پر خلوص اقدامات کرے۔ کشیدگی کم کرے۔ نفرت کی سیاست کی حوصلہ شکنی کرے۔ اور تمام پارٹیاں اپنے کارکنوں کو سختی کے ساتھ ہدایات جاری کریں کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانات دینے سے گریز کریں۔ برداشت، رواداری اور جمہوری رویے کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ موجودہ حساس وقت میں محاذ آرائی اور سیاسی درجہ حرارت بڑھانے میں سب کا نقصان ہے۔ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ اس وقت معاشی ترقی کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر ملک سبقت لے جانے کے لئے بے تاب ہے۔ ہمیں بھی سیاسی محاذ آرائی کی کم و بیش ستر سالہ المناک صورتحال سے باہر آنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے بالکل صحیح کہا، ہم غریب ملک ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے حالات بہتر کرنے ہیں۔

دوسری جانب مریم نواز نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے چیف جسٹس عطاء بندیال پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ سیاست میں مداخلت کریں۔ مریم نواز نے موصوف کو مشورہ دیا کہ اگر سیاست کا شوق ہے تو چیف جسٹس کی کرسی چھوڑ کر سیاسی جماعت بنا لیں۔ در اصل مریم نواز کو عدالتی فیصلہ آنے پر غصہ ہے۔ ان کو توقع نہیں تھی کہ عمران خان کے ساتھ نرم گوشہ رکھا جائے گا۔

عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ ہو سکتا ہے عمران خان صادق و امین نہ رہیں اور نا اہل کیے جائیں۔ ممکن ہے عمران خان نااہلی کی صورت میں برطانیہ شفٹ ہو جائیں۔ امریکا تو وہ نہیں جا سکتے، کیونکہ ٹیریان وائٹ کے حوالے سے وہاں ان کے خلاف کیسز ہیں۔

صدر مملکت جناب عارف علوی نے موجود صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھا کہ عمران خان کی جان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب حکمران پی ڈی ایم کے سربراہ اور سیاسی جوڑ توڑ کے استاد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر شدید تنقید کی۔ اور کہا کہ عمران خان پر خصوصی مہربانیاں کی گئیں۔ چیف جسٹس ان کے سہولت کار بن گئے ہیں۔ مولانا نے فیصلے کو پہلے سے طے شدہ اور انجنیئرڈ قرار دیا اور بھرپور ردعمل دینے کا عندیہ دیا۔

مولانا فضل الرحمان نے اعلی عدالت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اس وقت ان کی توپوں کا رخ عدلیہ کی طرف ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مقننہ عدلیہ سے برتر ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی میں ان کے بقول عدلیہ کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ وہ کافی عرصہ سے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ در اصل وہ عمران خان کی مخالفت میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ ماضی میں عمران خان پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام انہوں نے لگایا، لیکن اس الزام کو الزام کی حد تک ہی رکھا، اور کبھی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔

ہمارے سیاست دانوں کے لئے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے کا اس سے بہترین وقت اور کوئی نہیں ہے۔ سیاسی افراتفری سے نکل آنا چاہیے۔ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بالآخر عظیم تر ملکی مفاد اور استحکام کی خاطر ذاتیات سے بالاتر ہو کر ایک پیج پر آنا ہو گا اسی میں ہی سب کی بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments