عمرانی جن اور ٹوٹی ہوئی بوتل


اس طرح کی نعرے بازی یا گھیراؤ جلاؤ کوئی پہلی بار تھوڑی ہوا ہے۔ انیس سو اڑسٹھ میں بھی تو یہی ہوا تھا جب دس سالہ سیاسی گھٹن کے مارے لوگوں کے سلگتےجذبات پر دس سالہ جشنِ ترقی نے نمک پاشی کا کام کیا اور ڈھاکہ تا پنڈی اور پنڈی تا کراچی پہلی بار بدتمیز مجمع نے ’ایوب کتا ہائے ہائے‘ کا نعرہ لگایا۔

فیلڈ مارشل نے الوداعی تقریر میں اس طرح کے توہین آمیز نعروں پر انتہائی صدمہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے لیے میری خدمات کا صلہ یہی ہے تو پھر میں تو چلا۔ پاکستان کا خدا حافظ۔ ٹھیک انچاس برس بعد اٹھارہ اگست دو ہزار آٹھ کو پرویز مشرف نے بھی انھی الفاظ پر اپنی آخری تقریر کا اختتام کیا۔ پاکستان کا خدا ہی حافظ۔

کوئی اہم گھر پہلی بار تھوڑی جلا ہے۔ بیس دسمبر انیس سو اکہتر کے نیو یارک ٹائمز میں خبر شائع ہوئی کہ لوگوں کو اس قدر غصہ تھا کہ پشاور میں یحییٰ خان کا گھر جلا دیا۔ کہا جاتا ہے یہ گھر سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے حضورِ والا کی نذر کیا تھا۔  (برادر بزرگ وسعت اللہ خان سے بصد احترام جزوی اختلاف کی گستاخی پر معذرت خواہ ہوں۔ پشاور میں یحییٰ خان کا گھر جلنے سے بچ گیا تھا۔ پشاور پولیس نے آزمودہ نسخہ استعمال کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا۔ جماعت اسلامی کے مقامی رہنماؤں نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے تقریریں کر کے مجمع کو بتایا کہ یحییٰ خان معصوم ہے۔ خرابی کی اصل جڑ یحییٰ خان میں شراب نوشی کی علت ہے۔ اس لئے یحییٰ خان کا گھر جلانے کی بجائے شراب کی دکانیں تباہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ مشتعل مجمع پشاور میں شراب کی دکانوں پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ بوتلیں توڑ دیں۔ کچھ موقع پر پی لیں اور باقی بغل میں دبا کر نکل لئے۔ پشاور میں سی آئی ڈی کے اس وقت کے سربراہ راؤ رشید روایت کرتے تھے کہ اس رات پشاور کے کتے بھی نشے میں دھت تھے۔ اس گھر کا محفوظ رہنا ازحد ضروری تھا کہ اس کے سوئمنگ پول میں نوخیز نسائی آئینوں جیسے قومی اور بین الاقوامی اثاثے صیقل ہو چکے تھے۔ و ـ مسعود)

برسرِ عام بدتمیزی کوئی پہلی بار تھوڑی ہوئی ہے۔

یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ایم آر ڈی کی تحریک پر سرکار نے کامیابی سے قابو پالیا ہے، مردِ حق ضیا الحق نے سکیورٹی ایڈوائس بالائے طاق رکھتے ہوئے دادو کا دورہ کیا۔ ہیلی پیڈ سے سرکٹ ہاؤس کی جانب رواں دواں موٹر کیڈ کو اچانک بریکیں لگانا پڑیں کیونکہ ایک درخت سے ایک نیم برہنہ پاگل نے بیچ سڑک پر کودتے ہی سامنے کا دامن اٹھاتے ہوئے کہا ’بھلی کری آیاں‘ (خوش آمدید)۔

انیس سو اسی کی دہائی میں پہلی بار لگا کہ صرف جالب، فراز اور خالد علیگ وغیرہ کی مزاحمتی شاعری سن کے لوگوں کی تسکین نہیں ہو پا رہی جب تک کہ ہر ہفتے ایک نیا لطیفہ کراچی تا خیبر نہ پھیل جائے۔ اور یہ لطائف برائے لطائف نہیں تھے بلکہ سنسر زدہ فضا میں مزاحمت کی تازہ صورت تھے۔تب تو انٹرنیٹ بھی نہیں تھا۔

عمران خان کو نہیں معلوم کہ بات نکلی ہے تو کتنی دور تلک جائے گی، اسی طرح الہ دین کو بھی نہیں معلوم کہ ان گائیڈڈ جن کو قابو کرنے کے لیے کتنی بڑی بوتل درکار ہے

کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں ضیا مخالف منھ پھٹ طلبا ایسے ایسے ناقابلِ اشاعت نعرے لگاتے تھے کہ ضیا نواز جمیعتِ کے لٹھیت مجبوراً ان منھ پھٹوں کو پیٹ پاٹ کے تمیز سکھانے کی کوشش کرتے۔

اب چونکہ معیشت کے تھپڑوں سے سوجھے عام آدمی اور اپنا روزگاری مستقبل تاریک دیکھنے والے لمڈوں کی قوتِ برداشت تمام سرخ لکیریں پار کر چکی ہے لہذا مزاحمتی شاعری اور لطائف کی جگہ ننگی ننگی گالیوں نے لے لی ہے۔

اور عدالتیں بھی پہلی بار تھوڑا خودسر ہوئی ہیں۔ پچاس برس پہلے جب کسی نے سو مو ٹو کا نام تک نہیں سنا تھا، تب کی سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی بنام ریاست کیس میں یحیی خان کو غاصب قرار دے کے پہلا پتھر اچھالا تھا۔

اس مقدمے کے پچاس برس بعد ایک ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل چھ کا مجرم قرار دیا۔ سزا پر عمل درآمد ہوا یا نہ ہوا، یہ بحث ہی بے معنی ہے۔

اصل کامیابی یہ ہے کہ پوتر ریڈ لائنز مسلسل ٹوٹ رہی ہیں اور جذبات کو لگام دینے کی ہر کوشش کی کامیابی کا دورانیہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے ۔رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ کب غداری حب الوطنی کے کپڑے پہن لے اور کب حب الوطنی غداری قرار پا جائے، کوئی نہیں جانتا۔

باقی تین صوبے تو کب کے غداری کا کوٹہ پورا کر چکے۔ اب پنجاب کی باری ہے۔ اٹھارہ سو ستاون کے بعد پہلی بار وہاں روایتی وفاداروں کی تعداد میں کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ اب تک تو پنجاب کی نظریں باقی صوبوں کے چال چلن پر گڑی رہتی تھیں۔ پہلی بار باقی صوبے ٹکٹکی باندھے پنجاب کو دیکھ رہے ہیں۔

اوکاڑہ میں کسانوں کی بغاوت پہلا پتھر تھا۔ پھر تحریکِ لبیک نے سٹیٹ رٹ کی چوکھٹ ہلا کے رکھ دی۔ اور اب وہ پولیٹیکل آؤٹ سائیڈر بھی پلٹ گیا ہے جسے پرانے پاکستان کی پھٹیچر سیاست سے نجات پانے کی خاطر نئے پاکستان کی گیدڑ سنگھی کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا۔

پہلی بار اتنی گہری سیاسی تقسیم نظر آ رہی ہے جیسے صفوں کے عین بیچ کسی نے سیدھی خندق کھینچ دی ہو۔ سات دہائیوں سے جمع ہونے والا مرکب غصہ اتنا منجمد ہو چکا ہے کہ اسے چھری سے کاٹنا بھی آسان نہیں رہا۔

اب تک تو لیبارٹری میں جو زہر تیار ہوتا تھا اس کا تریاق بھی ساتھ ہی تیار کرلیا جاتا تھا۔ مگر اس بار جو زہر تیار ہوا ہے نہ صرف ہڑدم میں اس کا بیکر ہاتھوں سے پھسل کے کرچی کرچی پھیل گیا ہے بلکہ اس کا تریاق بھی کسی اندر کے آدمی نے کہیں چھپا دیا ہے۔

بے لچک گورننس کا باکس ٹوٹ چکا ہے اور آؤٹ آف باکس حل کسی کے پاس نہیں۔ حتی کہ آئین نے بھی کان پکڑ لیے ہیں۔

جس طرح عمران خان کو نہیں معلوم کہ بات نکلی ہے تو کتنی دور تلک جائے گی اور کیا کیا گل کھلائے گی، اسی طرح الہ دین کو بھی نہیں معلوم کہ ان گائیڈڈ جن کو قابو کرنے کے لیے کتنی بڑی بوتل درکار ہے۔

ماضی میں ایسی صورتِ حال سے تین گنا کم سنگین حالات کو جواز بنا کے بساط الٹی جاتی رہی ہے۔ اس بار بھی اگر سرکاری خزانہ بالکل کھکھل نہ ہوتا اور بیرونی دوست اتنے مشکوک و بیزار نہ ہوتے اور بین الاقوامی تنہائی مزید بڑھ جانے کا اتنا ڈر نہ ہوتا تو جاری نظام کا قالین لپیٹ کر رقیبِ روسیاہ کو وہ کمبل مار پڑتی کہ دنیا دیکھتی۔ جسے میڈیا قوتِ برداشت کہہ رہا ہے دراصل وہ بے بسی کی مجبوری ہے۔

مگر یہ ادارہ جاتی بے بسی پی ڈی ایم حکومت کی لاچاری کے آگے کچھ بھی نہیں۔انھیں سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ وہ اس سمے گھر کے ہیں یا گھاٹ کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments