اللہ پاک پاکستان کو سلامت رکھے


االلہ پاک اس ملک پر رحم فرمائے۔ ملکی حالات دن بہ دن مزید خرابی کی طرف گامزن ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے شرپسند حامیوں نے نجی اور سرکاری املاک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا یہ اربوں روپے کا نقصان تو کسی نہ کسی طور پورا ہو جائے گا۔ تاہم اس سارے دنگے فساد کے نتیجے میں ملک کا جو منفی تاثر دنیا کو گیا، اس نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ دنیا کی نظروں میں ہمارا تاثر پہلے ہی اچھا نہیں ہے۔

دنیا ہمیں انتہا پسند قوم سمجھتی ہے۔ پچھلے چند دن ٹیلی ویژن چینل جو مناظر دکھاتے رہے، اس سے یقیناً عالمی سطح پر ہمارے منفی تاثر کو تقویت ملی ہو گی۔ اب اگر ہمارا پاسپورٹ بدترین پاسپورٹس کی فہرست میں ہی شامل رہتا ہے۔ یا غیرملکی سفارت خانے ہمیں ویزے دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یا ہمارے روپے کی قدر مزید گر جاتی ہے۔ یا غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہوتے تو یقین جانیے یہ سب ہمارے اپنے رویوں کا قصور ہے۔

عمران خان کی رہائی کے فیصلے کے بعد سے ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس سیاسی معاملے نے اعلیٰ عدلیہ کے تاثر اور دھاک کو بھی متاثر کیا ہے۔ اگرچہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہماری عدالتوں کا قومی اور بین الاقوامی تاثر کوئی قابل فخر نہیں ہے۔ عالمی درجہ بندی میں ہمارا عدالتی نظام غالباً 130 ویں درجے پر کھڑا ہے۔ آج بھی ہماری عدالتوں میں کم وبیش اٹھارہ لاکھ کیس زیر التواء ہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ بھی قابل فخر نہیں ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے یہ عدالتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ہماری عدلیہ مارشل لاؤں اور فوجی آمروں کے حق میں فیصلے صادر کرتی رہی۔ بہت سے جج صاحبان پی۔ سی۔ او کے تحت حلف لیتے رہے۔ اس پس منظر کے باوجود جب بھی کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تو عوام اور خواص انصاف کے لئے عدالتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کے طریقہ کار پر بجا طور پر اعتراض اٹھایا۔ قانونی ماہرین بھی گرفتاری کے وقت اس جانب اشارہ کر رہے تھے۔

لیکن جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان نے عمران خان کو عدالت میں ویلکم کہا۔ انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ رخصت ہوتے وقت ان کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اس طرز عمل پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ قانونی ماہرین بتاتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا عدالتی ضابطہ اخلاق کسی جج کو اس طرح کے رویے کی اجازت نہیں دیتا۔ عمران خان کو ہائی کورٹ سے ملنے والے ریلیف پر بھی قانونی ماہرین انگشت بہ دنداں ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی عوام سیاسی تقسیم کا شکار ہیں۔

چیف جسٹس کے رویے نے ایک طرف وکلاء برادری اور سیاسی جماعتوں کو تنقید کا موقع فراہم کیا ہے۔ دوسری طرف عوامی سطح پر بھی چیف جسٹس کے امتیازی رویے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کے مابین اختلافات کی خبریں عام ہیں۔ رہی سہی کسر اس سیاسی معاملے نے پوری کر دی ہے۔ کاش قانون کا کوئی طالب علم یہ تحقیق کرے کہ اس ایک واقعے نے نے اعلیٰ عدلیہ کی عزت و تکریم کو کتنا متاثر کیا ہے۔

ہماری فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ بھارت جو ہم سے کئی گنا بڑی فوج اور زیادہ دفاعی بجٹ کا حامل ہے، وہ بھی افواج پاکستان کی وجہ سے ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے شر پسندوں نے جناح ہاؤس اور جی۔ ایچ۔ کیو پر دھاوا بول دیا۔ جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ عمارت کو جلا دیا گیا۔ کھلے عام لوٹ مار ہوئی۔ جس شر پسند کے ہاتھ جو چیز آئی، وہ اٹھا کر چلتا بنا۔

شرپسندوں نے ریفریجریٹر سے کھانے پینے کی اشیاء تک نکال لیں۔ سوال ہو رہا ہے کہ پولیس یا فوج نے ان شر پسندوں کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ فوجی تنصیبات کو یوں راکھ کا ڈھیر بنا دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دشمن نے وہ کام نہیں کیا جو تحریک انصاف کے حامیوں نے کر دکھایا۔ اس ساری صورتحال میں عام آدمی بھی سوال کر رہا ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے ان چند سو افراد کو روکنے سے کیوں قاصر رہے؟ انہیں کھلے عام یہ مجرمانہ حرکتیں کرنے کی چھوٹ کیوں دی گئی؟ اندازہ کیجئے کہ جب ایک عام پاکستانی شہری یہ بات سوچ رہا ہے تو دنیا اور خاص طور پر بھارت ہمارے عسکری اداروں کے بارے میں کیا سوچتا ہو گا؟ اسے جی۔ ایچ۔ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس میں ہونے والی توڑ پھوڑ دیکھ کر کیا پیغام ملا ہو گا؟

نہایت افسوس سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ اس سارے عرصے میں حکومت کی کوئی رٹ دکھائی نہیں دی۔ یہ کیا بات ہوئی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر فقط چند سو افراد کو قابو نہیں کر سکیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک حکمت عملی کے تحت حکومت، فوج اور پولیس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ سچ پوچھیے تو یہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ اب بعد از خرابی بسیار وفاقی اور صوبائی حکومتیں شرپسندوں کی پکڑ دھکڑ کے لئے متحرک ہوئی ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود یہ معاملہ چند دن بعد ٹھنڈا ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ حکومت اور اداروں کے لئے نہایت سبکی اور رسوائی کی بات ہوگی۔ دعا ہے کہ اللہ پاک پاکستان کو داخلی اور خارجی دشمنوں کے شر سے بچائے اور ہمارے ملک کو سلامت رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments