سفید چادر عزت کی علامت یا ”روحانی لگژری“ ؟


اسلامی جمہوریہ پاکستان برگزیدہ ہستیوں کی آماجگاہ ہے جہاں نارمل افراد یا گناہ گاران کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ روحانی مداری شعبدہ بازی کی بین بجا کر غربت اور بے بسی میں پھنسے سادہ لوح عوام کو شروع دن سے بیوقوف بناتے چلے آ رہے ہیں۔

عجب روحانیت کے چلن دیکھے جو تارک الدنیا کے داعی ہیں اور قدرت کی قربت کے دعویدار ہیں وہی سب سے بڑے دنیا دار، جاگیردار، ڈائمنڈ و گولڈ دار ہیں۔ اس کے علاوہ دنیاوی چمک دھمک کے نئے سے نئے ماڈل یا برانڈز انجوائے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آ خر عزت و عظمت، بزرگی و پاکدامنی کی روحانی چادر ہمیشہ سے ہی ایسے سروں پر کیوں تنی رہتی ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ طالب و حریص اور اول نمبر کے چال باز ہوتے ہیں؟

آڑی ترچھی لائنوں، مافوق السمجھ قسم کے خاکے اور روحانی زائچوں کے سہارے یہ معاشرتی ”راسپوتین“ ایک جونک کی مانند مدت سے معاشرے کی رگوں سے اپنے حصے کی حرارت کشید کر کے اپنی زندگیوں کو گل و گلزار بناتے چلے آ رہے ہیں اور رعایا کو تارک الدنیا اور دنیاوی آسائشوں سے بے رغبتی اور لاتعلق رہنے کا درس دیتے رہتے ہیں۔

سفید چادر کئی طرح کی ہوتی ہے۔
”ایک سفید چادر جسد خاکی ڈھانپنے کے کام آتی ہے“

” دوسری خواتین کی عصمت و پاکدامنی کنفرم کرنے کے لیے ہوتی ہے جسے شادی کی پہلی رات بستر عروسی پر اس وجہ سے بچھایا جاتا ہے تاکہ خون کے چھینٹوں سے اندازہ لگایا جا سکے کہ خاتون پاکدامن ہے یا چالو؟ بھلے مرد جیسا بھی ہو چلے گا“

”تیسری روحانی و نورانی چادر ہوتی ہے جو روحانیت کے علمبرداروں کے سیاہ کارناموں کو“ روحانائز ”کرنے یا چھپانے کے کام آتی ہے“

اور اسی مشہور و معروف چادر کا آج کل چرچا ہے۔

آج ہم اس چادر کا بالکل بھی تذکرہ نہیں کرتے اگر یہی چادر بلا تفریق سب کے سروں پر تنی ہوئی ہوتی یا رہتی۔

اس ملک میں ہم نے وہ سب نظارے دیکھ رکھے ہیں جس میں نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، تنویر جہاں، کلثوم نواز، مریم نواز حتی کہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب تاریخ کے سینے میں رقم ہو چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان خواتین کے سینے میں دل نہیں تھا جو سڑکوں پر مار کھاتی اور عدالتوں میں خوار ہوتی رہیں؟ کبھی دل بڑا کر کے وہ تصویر دیکھنے کی زحمت اٹھائیے گا جس میں بینظیر بھٹو اپنے والد سے ملاقات کے لیے جیل کی سلاخوں کے پاس زمین پر بیٹھی ہیں۔

ان خواتین نے تو کبھی بھی روحانی بھول بھلیوں کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش نہیں کی۔

ماڈرن روحانی جوڑا آج کل جس خاص گیٹ اپ یا کاسٹیوم میں اپنی پیشیاں بھگت رہا ہے وہ خیر سے ملکی تاریخ کا ایک انوکھا اور منفرد نظارہ ہو گا۔ جس میں قدرت کی قربت کا دعوی رکھنے والی دو ہستیاں کبھی سفید چادروں کے بیچ و بیچ اور کبھی سر پر بالٹی نما خول چڑھا کے پیش ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

قربت کا دعوی بھی اور اداؤں پر خوف کا پہرہ بھی، یہ تو کھلا تضاد ہے۔
جن کے ساتھ ہر وقت روحانیت کے غائبانہ لاؤ لشکر چلتے ہوں انہیں بھلا دنیاوی چھپن چھپائی سے کیا غرض؟
کیا روحانیت والے بھی مجبور محض ہوتے ہیں؟
وطن عزیز میں ایک نئی اصطلاح چل نکلی ہے
”گھریلو خاتون“
یہ سوال کرنا تو بنتا ہے نا!

کہ جو خواتین ان ڈور سرگرمیوں کے علاوہ آؤٹ ڈور سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں ان کے لیے پھر کون سی اصطلاح استعمال ہوگی؟

بدقسمتی سے یہاں سائنس و عقل و خرد کی بجائے روحانیت کو ایک ”متبادل“ کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، بھلا روحانیت کا عقل و خرد سے کیا سمبندھ؟

اسی خصوصی استحقاق کے ساتھ روحانیت اور قربت کا دعوی رکھنے والوں میں خود کفیل ہونے کے باوجود بھی حیرت ہے کہ

چمن کا دامن پھر بھی خالی کا خالی ہے۔

ہماری نظر میں تو روحانیت ایک لگژری ہے جسے استحصالی طبقہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور دولت کے انبار لگانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments