ای سگریٹ: ہم آدھی سائنس مانتے ہیں
المیہ یہ ہے کہ ہم آدھی سائنس مانتے ہیں اور آدھی نہیں مانتے، ہم وہ سائنس مانتے ہیں جو ہماری سوچ سے متصادم نہ ہو۔ جب بھی سائنس ہمارے تصور کی نفی کرتی ہے تو ہم اس (سائنس) کا انکار کر دیتے ہیں۔ چاہے رویت ہلال کا مسئلہ ہو یا پھر کورونا وائرس کا ، ہم مسلمہ سائنسی حقائق کو بالائے طاق رکھ کر مفروضوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگتے ہیں۔
اب سائنسی شواہد کی بنیاد پر ہی مغربی ممالک، سگریٹ نوشی کے خاتمے کے لئے کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں مگر ہم ان مصنوعات بارے غلط فہمیوں کا شکار ہیں حتیٰ کہ ہمارے ڈاکٹر صاحبان بھی ان کی حقیقت سے ناآشنا ہیں۔ اس کی وجہ سائنس بارے ہمارا غیر سائنسی رویہ ہے چنانچہ یہی رویہ کم نقصان دہ متبادل مصنوعات سے استفادہ کرنے اور تمباکو نوشی کا خاتمہ کرنے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ان کم نقصان دہ متبادل مصنوعات میں ای سگریٹ، سنوس اور ہیٹ ناٹ برن شامل ہیں۔ اب تک کی سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سگریٹ کے برعکس، ان متبادل مصنوعات میں ٹار اور کاربن مونو آکسائڈ سمیت وہ خطرناک کیمیائی مادے شامل نہیں ہوتے جو مضر صحت ہیں اور جن کی وجہ سے کینسر، دل اور سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان مصنوعات میں نکوٹین اور فلیور ہوتے ہیں جو نقصان دہ نہیں ہوتے یا صحت کے لئے بہت کم نقصان کا باعث ہوتے ہیں۔
ہیٹ ناٹ برن، ان متبادل مصنوعات کی وہ قسم ہے جس میں تمباکو کو گرم تو کیا جاتا ہے مگر اسے سلگایا نہیں جاتا اور یوں تمباکو اور اسے سلگانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مضر صحت مادے پیدا نہیں ہوتے۔ اس طرح ان مصنوعات کے استعمال سے انسان سگریٹ کے نقصانات سے عموماً محفوظ رہتا ہے۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کا کہنا ہے کہ ای سگریٹ، ریگولر سگریٹ کے مقابلے میں 95 فیصد کم نقصان دہ اور تمباکو نوشی ترک کرنے میں کارآمد ہیں۔ پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی یہ تحقیق سن 2015 میں ہوئی تھی اور وہ ہر سال اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آپ اندازہ لگائیں پاکستان میں اس وقت تقریباً تین کروڑ دس لاکھ تمباکو نوش ہیں جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ہر سال دو لاکھ دس ہزار افراد تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے نتیجے میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے مطابق تمباکو نوشی کے نتیجے میں اموات اور بیماریوں پر ایک سال میں 615 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد بنتا ہے، اس کے باوجود پاکستان میں ان متبادل مصنوعات سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں سست روی کا شکار ہے۔ جس کی ہمارے خیال میں درج ذیل وجوہات ہیں :
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس حوالے سے سنجیدگی نہیں پائی جاتی اور اس لیے اب تک ان مصنوعات کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی ہے۔ یہ مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں مہنگے داموں دستیاب ہیں۔ عوام میں ان مصنوعات بارے آگہی کا فقدان پایا جاتا ہے اور سرکاری سطح پر بھی اس بارے کوئی مثبت سوچ نہیں پائی جاتی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ صحت کا موضوع ہے، اس لیے ڈاکٹر صاحبان کو اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے مگر مقام حیرت ہے کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر صاحبان ان مصنوعات سے لاعلم ہیں۔ اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک آلٹرنیٹیو ریسرچ انیشیٹیو (اے آر آئی) کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد ڈاکٹر غلط طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ نکوٹین کینسر کی بنیادی وجہ ہے اور ان متبادل مصنوعات میں نکوٹین پایا جاتا ہے اس لیے یہ نقصان دہ ہیں۔ امریکہ میں نکوٹین کی حامل ویپنگ مصنوعات کے برعکس بلیک مارکیٹ میں دستیاب ٹی ایچ سی کی حامل ویپنگ مصنوعات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے بعد وہاں بھی متبادل مصنوعات بارے حکومت اور ڈاکٹروں کی رائے منفی تھی تاہم اب امریکہ کی بعض ریاستوں میں ان مصنوعات کے استعمال کی اجازت ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ تمباکو صنعت اور تمباکو کنٹرول کے ادارے بھی ان مصنوعات کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اس لیے غلط معلومات کی بھرمار بھی ای سگریٹ یا دوسری کم نقصان دہ مصنوعات بارے حقائق لوگوں تک پہنچانے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
چوتھی وجہ ذرائع ابلاغ کا غیر ذمہ دارانہ کردار ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تحقیق کیے بغیر خبریں شائع کرنے کی صورت میں ای سگریٹ بارے غلط معلومات پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ اخبارات میں اور ویب سائٹس پر ایسے مضامین شائع ہوتے ہیں جو تحقیق کی بجائے مفروضوں کی بنیاد پر لکھے جاتے ہیں۔ جس سے رائے عامہ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
پانچویں وجہ قانون سازوں کا غیرسنجیدہ کردار ہے۔ ملک میں قانون سازی منتخب ارکان کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر تمباکو نوشی کے خاتمے کے لئے ان متبادل مصنوعات بارے قانون سازی کے سلسلہ میں انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ حالانکہ ان مصنوعات کے لئے قانون سازی کی مدد سے تمباکو سے پاک پاکستان کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
یہ پانچوں وجوہات ہماری کوتاہی، نالائقی اور منزل کی جانب درست قدم اٹھانے کے ارادے کے فقدان کی مظہر ہیں گو کہ مغربی ممالک اس سلسلہ میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
ہمارے سامنے برطانیہ اور سویڈن سمیت کئی مغربی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو ان مصنوعات کی مدد سے تمباکو نوشی کی شرح میں کمی لانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ برطانیہ نے تمباکو سے پاک ملک بننے کا ہدف سن 2030 رکھا ہے۔ ہدف کے حصول کے لئے وہاں ان متبادل مصنوعات سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں برطانوی حکومت نے تمباکو نوشی کے خاتمے کے لئے دس لاکھ تمباکو نوشوں میں مفت ویپ تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تمباکو نوش ویپنگ کی مدد سے تمباکو نوشی ترک کر سکیں۔ برطانیہ میں تو یہاں تک پیش رفت ہو چکی ہے کہ اب ڈاکٹر ای سگریٹ میں نکوٹین کی مقدار تجویز کیا کریں گے۔
سویڈن میں بھی ان کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کی مدد سے تمباکو نوشی کی شرح 5.6 فیصد تک گر چکی ہے جس کی وجہ سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ سویڈن رواں برس ہی تمباکو سے پاک ملک بن جائے گا۔
امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ان مصنوعات کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان کے لئے مغربی ممالک کے تجربے سے سیکھنے کا سنہری موقع ہے اور پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت تمباکو نوشی کے خاتمے کی قومی پالیسی بنائے، ان کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کو اس پالیسی کا حصہ بنائے، اس سلسلہ میں ڈاکٹروں اور عوام کی آگہی کا انتظام کرے اور تمباکو نوشوں کی ہر ممکن مدد کرے۔
حکومت کو چاہیے کہ مزید تاخیر کیے بغیر قومی صحت پالیسی میں کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کو شامل کرے تاکہ سگریٹ نوشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج معالجے کا معیشت پر بوجھ کم ہو اور وہی بجٹ تعلیم پر خرچ ہو۔
- تمباکو سے پاک پاکستان - 09/09/2023
- ای سگریٹ: ہم آدھی سائنس مانتے ہیں - 20/05/2023
- سویڈن کا تمباکو سے چھٹکارا - 18/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).