کشور گپتا – بھارت میں رشوت سے بچنے کی ایک کہانی


کشور گپتا: ممبئی میں میرے میزبان کے والدین کی ایک دلچسپ کہانی۔ نیکی کا پھل تو میٹھا ہی ہوتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے بھی ایک سبق ہے

میں پاکستان میں کیمیکلز کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا۔ اس سلسلے میں، میں نے ممبئی میں واقع دیوی انڈسٹریز کے مالک کشور گپتا سے رابطہ کیا۔ مجھے ممبئی کے ویزے کے لیے ان کی طرف سے دعوتی خط درکار تھا جو انھوں نے بھجوا دیا۔ ان کے اس خط کی وجہ سے ہم تینوں کو ممبئی جانے کی اجازت مل گئی۔ یاد رہے ان دنوں صرف تین شہروں کا بھارتی ویزا دیا جاتا تھا۔ ہمارے پاس دلی کے علاوہ آگرہ، چنائی اور ممبئی کا ویزا تھا باقی ہم نے جو کچھ دیکھا وہ سفر کے دوران ہی دیکھا۔ میں نے کشور گپتا صاحب سے رابطہ قائم کیا اور ان سے رہنمائی لے کر ایک ٹیکسی پر ان کے ہاں چلا گیا۔ ان کا دفتر اور فیکٹری ممبئی کے ایک مشہور علاقے اندھیری میں واقع تھی۔

جب میں نے کشور گپتا سے فون پر بات کی تو مجھے یوں لگا جیسے وہ ایک بڑی عمر کے صاحب ہیں۔ ان کی گفتگو بہت ہی سلجھی ہوئی تھی اور وہ بڑے دھیمے لہجے میں بات کر رہے تھے لیکن جب میں ان سے ملا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ تیس سال کے نوجوان ہیں جنہوں نے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ انھوں نے بڑی محبت سے میرا استقبال کیا۔ یہ ان کا کسی بھی پاکستانی سے پہلا رابطہ تھا۔ میں نے اپنے اس احساس کا ذکر کیا تو انھوں نے خوب انجوائے کیا۔ ان کے والد صاحب ایک بڑی ٹیکسٹائل مل میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ وہ چار بہن بھائی تھے اور سب ہی اعلٰی تعلیم یافتہ تھے۔

کشور گپتا کی رنگت بہت صاف اور نین نقش انتہائی خوبصورت تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ مجھے لگتا ہے آپ جنوبی ہندوستان سے نہیں بلکہ بھارت کے شمال میں واقع کسی پہاڑی علاقے سے ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ آپ نے ٹھیک پہچانا۔ چند دہائیاں قبل میرے آبا و اجداد کشمیر سے آ کر ممبئی میں بس گئے تھے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوا؟

انھوں نے بتایا کہ اس کی ایک وجہ تو بہتر روزگار کی تلاش تھی اور دوسری وجہ شاید ہمارے خاندان کا مذہبی ہونا تھی۔ وہ کشمیر کے جس علاقے میں رہتے تھے وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی ایسے علاقے میں جا کر رہیں جہاں ہندو اکثریت میں ہوں تا کہ انھیں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں آسانی ہو۔ کشور گپتا جی کا کہنا تھا کہ یہ میرا اندازہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں مسلمانوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

اپنے کام کے سلسلے میں میں نے ان سے بات کی لیکن میرا اصل مقصد ان سے بہت کچھ جاننا تھا خاص طور پر میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ بھارتی معاشرہ کس رخ جا رہا ہے؟ اس سلسلے میں انھوں نے مجھے بہت ساری باتیں بتائیں لیکن ایک بہت ہی دلچسپ بات مجھے آج بھی یاد ہے اور شاید دیر تک یاد رہے۔

میں نے ان سے کرپشن کے بارے میں پوچھا تو جواب میں انھوں نے بتایا کہ مشتاق جی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ادارے کوئی بھی کام بغیر رشوت کے نہیں کرتے۔ لہذا اب یہ ایک عام سی بات ہے اور اب ہم اسے برا بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم کاروبار کرتے ہیں اور سرکاری محکموں سے پالا بھی پڑتا ہے اور انھیں خوش کیے بغیر ہمارے جائز کام بھی نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم کچھ غیر قانونی رعایتیں بھی طلب کرتے ہیں، جو وہ ہمیں دے دیتے ہیں۔

میں نے یہ بھی جاننا چاہا کہ عام آدمی کی زندگی میں کرپشن کہاں تک داخل ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عام آدمی ابھی اس لعنت سے بچا ہوا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مشتاق جی میں آپ کو ایک ذاتی واقعہ سناتا ہوں۔ میرے پتا ایک بڑی ٹیکسٹائل مل میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں۔ جہاں وہ تنخواہ کے علاوہ مختلف ڈائز اور کیمیکل کے سپلائرز سے بے شمار کمیشن لے سکتے تھے اور ایسا ہوتا بھی ہے لیکن میرے والد نے کبھی ایسا نہیں کیا۔

ایک دن ہم سب بہن بھائی اور والدہ بیٹھے ہوئے تھے تو ہم نے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ساری عمر تنخواہ میں گزارا کیا ہے۔ آپ نے کمیشن لیا ہوتا تو آج ہم بھی سیٹ ہوتے۔ کسی بڑے گھر میں رہ رہے ہوتے۔ آپ کے کئی ساتھی بہت امیر ہیں۔ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہمارا مقصد صرف مذاق ہی تھا لیکن والد صاحب نے اسے سنجیدہ لے لیا۔ جس کا ہمیں افسوس ہوا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر والدہ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے یہ سب آپ کی والدہ کی وجہ سے ہوا ہے۔

ہم نے والدہ کی طرف مڑ کر دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟

ہم سب بہن بھائی مذاق کے موڈ میں تھے لیکن والدہ نے بھی اسے بہت سنجیدگی سے لیا اور ان کی آنکھوں میں نمی بھی آ گئی۔ یہ دیکھ کر ہمیں بھی افسوس ہونے لگا کہ ہم نے ایسی بات کیوں کر دی۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد والدہ بولیں کہ شادی کے وقت میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور آپ کے پتا بھی امیر آدمی نہیں تھے۔ رخصتی کے وقت مجھے میرے والد نے یہ کہہ کر بھیجا تھا کہ مردوں کو ناجائز طریقے سے حرام کمانے پر ان کی بیویاں ہی مجبور کرتی ہیں۔ تمہاری ماں نے مجھے مجبور نہیں کیا تم بھی اپنے میاں کو مجبور نہ کرنا۔ یہ بات میں نے اپنے پلے باندھ لی۔

شادی کے چند روز بعد میں نے آپ کے پتا سے کہا کہ میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتی ہوں اور چاہتی ہو کہ آپ یہ بات دھیان سے سنیں۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے دو سفید سوتی ساڑھیاں لے دینا، میں زندگی بھر اور کپڑا نہیں مانگوں گی، میں کبھی کسی دوردراز مندر میں پوجا کے لیے بھی نہیں کہوں گی، آپ جو کچھ لا کر دیں گے وہ سب سے پہلے آپ کو اور آپ کے بچوں کو دوں گی اور جو بچ جائے گا اسے صبر شکر کر کے کھا لوں گی۔ میں کبھی آپ سے یہ نہیں کہوں گی مجھے کسی پارٹی میں جانا ہے یا مجھے کسی کی بہت اچھی دعوت کرنی ہے۔

جب میں نے کافی باتیں کر لیں تو آپ کے پتا نے پوچھا کہ آپ یہ سب کیوں کہہ رہی ہیں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں یہ سب اس لیے کہہ رہی ہوں تا کہ آپ کو میری کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے حرام نہ کمانا پڑے۔ آپ کو جو تنخواہ ملے گی، ہم اس میں خاموشی سے گزارا کر لیں گے۔ زیادہ ہو گا، زیادہ کھا لیں گے، کم ہو گا تو کم کھا لیں گے۔ بھگوان سے امید ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں کو حرام سے بچائے رکھا تو ہمارے بچے بھی حرامی نہیں ہوں گے ، نیک کام کریں گے، اور عمر بھر ہمیں کسی دقت کا سامنا نہیں ہو گا۔

یہ بول کر والدہ چپ ہو گئیں۔ اس کے بعد پتا جی نے صرف اتنا کہا کہ جب بھی زندگی میں کوئی حرام کمانے کا موقع آیا تو مجھے تمہاری والدہ کی باتیں یاد آ جاتیں اور بھگوان مجھے کرپشن سے بچا لیتا۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ سب لوگ بہترین زندگی گزار رہے ہیں، سب نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، سب شادی شدہ اور بر سر روزگار ہیں۔ ہم دونوں بھی خوش ہیں۔ آپ کی والدہ کی سب حسرتیں بھی پوری ہو گئیں ہیں۔ اب ان کے پاس بے شمار ساڑھیاں بھی ہیں اور سیر و سیاحت کے لیے پیسے بھی۔

یہ سب سننے کے بعد میں نے کشور گپتا سے کہا کہ میں آپ کے پتا جی سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ وہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں لیکن شام میں کچھ دیر کے لیے میرے دفتر آ جاتے ہیں۔ ابھی آنے ہی والے ہیں۔ وہ آتے ہیں تو آپ سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ میں نے ان سے ملنے کے لیے انتظار کرنا ہی مناسب سمجھا۔ اتنے میں شام ہو گئی اور مجھے کہیں جانا بھی تھا لیکن میں اس شخص سے ملے بغیر نہیں جانا چاہتا تھا جس نے کرپشن سے پاک زندگی گزاری اور کرپشن کرنے والوں سے بڑھ کر پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔

میں ان سے ملا تو کوئی بات نہ کی صرف سنتا رہا اور تکتا رہا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments