سیاسی عدم برداشت اور پرتشدد رجحانات


قومی سطح پر سیاسی تقسیم کا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ سیاسی تقسیم قومی سلامتی، سیکورٹی، ریاستی اور حکمرانی کے بحران کے طور پر غالب نظر آئے گی تو اس کا نتیجہ معاشرے میں ایک بڑے سیاسی انتشار اور انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ جو حالیہ دنوں میں ہمیں قومی سیاست کے تناظر میں جو مناظر پر تشدد رجحانات، ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے اور سرکاری و غیر سرکاری املاک پر براہ راست سطح کے حملوں نے ہماری قومی تصویر کو دھندلا بنا کر پیش کیا ہے۔

بنیادی دکھ یہ ہے کہ ہم کس طرح کے معاشرے کی تشکیل کر رہے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی اظہار کے لیے ہر وہ منفی ہتھکنڈا اختیار کر رہے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایک پرامن اور سیاسی و جمہوری سمیت قانونی دائرہ کار میں اپنی مزاحمت کو پیش کرنا اور اظہار کرنا کیونکر ہمارے لیے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو بھی ہمارے ذاتی سیاسی مفادات یا خواہشات ہوتے ہیں ان میں ریاستی مفاد کیوں پیچھے رہ جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہم نے اپنی سیاسی تقسیم کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی بجائے اس کو منفی بنیادوں پر چلا رہے ہیں اور کیونکر ہم نے اپنے سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی کا رنگ دے دیا ہے۔ سیاسی تعصب، سیاسی نفرت، بغض اور سیاسی جنگ میں رواداری اور برداشت سمیت سیاسی سطح پر مخالفین کو قبول نہ کرنے کو کیونکر بالادستی حاصل ہو گئی ہے۔ سیاسی لغت، ڈکشنری اور سیاسی لفاظی میں ایسے الفاظ کی برتری جو تنقید کے مقابلے میں تضحیک کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے کو کیوں فوقیت یا اہمیت دی جا رہی ہے۔

رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے انفرادی افراد یا اجتماعی گروہ میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم رواداری، تحمل، تدبر، فہم و فراست اور مثبت سوچ و فکر سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ میڈیا یا سوشل میڈیا پر جاری جنگ میں ”ریٹنگ کی برتری“ نے مجموعی طور پر میڈیا کے کھیل کو ایک بڑے سیاسی بحران کو پیدا کرنے کی بقا سے جوڑ دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے بحران کو جائز و ناجائز پیدا کرنا ہمارے سیاسی کھیل کا حصہ بن گیا ہے۔

سیاسی قیادت چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو اس کے سامنے سیاسی اہداف بھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے مناظر اور وہ بڑے اہداف جو ہماری ریاستی ضرورت بنتے ہیں وہ سیاسی قیادت کی ترجیحات سے محروم ہیں۔ سیاست دانوں کی مجموعی تعداد کو دیکھیں تو وہ ایک طرف وہ جذباتیت اور لوگوں کے جذبات کی بنیاد پر اپنی سیاسی ترجیحات کو تعین کرنا اور دوسری طرف انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی بھی ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

سیاسی نظریات، سیاسی سوچ اور فکر پر مبنی خیالات میں ہم کیونکر ”احترامیت اور باہمی اہم آہنگی“ کے رشتہ کو قائم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ جو قومی سطح پر ردعمل کی سیاست یا مقابلہ بازی سمیت سیاسی دشمن کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو پیش کرنے کی روش خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام کی کمزوری اور سیاسی ترجیحات میں مثبت پہلووں کے فقدان نے مجموعی طور پر سیاسی و جمہوری نظام کو بھی کمزور کیا ہے اور سیاسی کارکنوں کو سیاسی بت پرستی یا سیاسی پوچا پاٹ تک محدود کر دیا ہے۔ ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت بھی غلط ہو سکتی ہے یا وہ شعوری یا لاشعوری طور پر غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سیاسی بادشاہت کے کلچر نے بھی ہماری سیاسی جماعتوں کو یرغمالی کے منظر میں پیش کیا ہے جہاں کوئی بھی قیادت کو جوابدہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔

سیاسی جماعتوں میں ایسے لوگ جو پرتشدد رجحانات رکھتے ہیں یا ان کو فروغ دیتے ہیں ان کا اول تو کوئی داخلی احتساب نہیں ہوتا بلکہ دوسری طرف ہماری قیادت ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہیں جو ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف و دشنام طرازی، تضحیک آمیز پر مبنی سطح کے بیانات، مخالفین کو غدار بنا کر پیش کرنا یا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مذہب کارڈ کو استعمال کرنا میں بطور ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ ہم اگر دیکھیں تو ہمارے سیاسی راہنما اپنے بیانات اور تقریروں میں ”ریڈ لائن کو کراس کرتے ہیں“ اور اس سے ان کو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں سیاسی قیادت کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر ہم مسائل کے حل میں خود کو پیش ہونے کی بجائے مسائل کے بگاڑ کی سیاست کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہاں مقصد سیاسی جماعتوں یا ان کی قیادت پر تنقید کرنا مقصود نہیں بلکہ اس بات کا احساس دلانا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا امتحان بہت بڑا ہے اور ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام ان سے بڑی توقعات رکھتا ہے۔

سیاست اور جمہوریت کی بنیاد پر لوگوں کو مضبوط بنانے سے جڑی ہوتی ہے۔ سیاست اور جمہوریت کا درس لوگوں کو رواداری پر لاتا ہے تاکہ ایک دوسرے کی اختلافات کے باوجود سیاسی قبولیت ممکن ہو سکے۔ سیاست اور جمہوریت کا مطلب لوگوں میں نفرتوں کی بنیاد پر سیاسی تقسیم کا کھیل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم اس ملک کو بطور ریاست آگے لے کر جانے کی بجائے پیچھے کی طرف ہی دھکیل رہے ہیں۔ اس ناکامی کے ذمہ دار صرف سیاست دان نہیں بلکہ تمام طاقت کے مراکز ہیں۔

ان سب ہی جاری غلطیوں کی سزا پوری قوم کل بھی بھگت رہی تھی اور آج بھی بھگت رہی ہے۔ اہل سیاست جب طاقت میں ہوتے ہیں تو انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور جب کوئی دوسرا اقتدار کے کھیل کا حصہ بنتا ہے تو سابقہ حکمرانوں کو بھی اسی مکافات عمل کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ ہمارا مجموعی سیاسی کلچر اپنے اندر ایک بڑی اصلاحات درکار چاہتا ہے اور اس کے لیے روایتی طریقہ کار نہیں بلکہ غیر معمولی اقدامات یا ایک بڑی سرجری درکا رہے۔

اگر ہم نے بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا مقصود ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام جن میں مدارس کا نظام بھی شامل ہے کو فوقیت دینی ہوگی اور اسی نظام کو انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کے خلاف استعمال کرنا ہو گا۔ کیونکہ بیانیہ کی جنگ میں ہمیں ایک ایسا متبادل بیانیہ درکا رہے جو پرامن بھی ہو اور لوگوں میں رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کی قبولیت کو پیدا کرے۔ اختلافات کو ایسی جگہ پر لے کر جانا جہاں راستے کھلنے کی بجائے بند ہوجائیں اور ہم بلاوجہ خود کو آگ میں دھکیلیں اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

ایک ایسا سیاسی نصاب جو سیاسی استحکام اور سیاسی و جمہوری روایت کو مضبوط کرے وہ ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ کام کسی ایک فریق پر ڈال کر ہم خود کو بری الزمہ نہیں کر سکتے بلکہ اس میں تمام فریقوں کو ذمہ داری کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اور کردار ڈالنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ پرتشدد اور انتہا پسندی پر مبنی پالیسی یا اس کو بنیاد بنا کر اپنی سیاسی حکمت عملی تیار کرنا یا اس سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی خطرناک عمل ہو گا۔

جو بھی انتہا پسندی اور تشدد پر مبنی پالیسی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں ان کے خلاف ریاستی پالیسی میں کسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر لچک یا فیصلے نہیں ہونے چاہیے۔ اس لیے اگر ہم نے واقعی عدم برداشت یا عدم رواداری یا انتہا پسندانہ رجحانات کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں آج کی اپنی سوچ، فکر، پالیسی اور اقدامات پر ازسر نو نہ صرف غور کرنا ہو گا بلکہ بہت کچھ تبدیل کرنا ہو گا۔ بالخصوص نئی نسل میں نوجوان طبقہ کی جو مایوسی یا غیر یقینی کی کیفیت ہے اور ان کے جو مسائل ہیں ان کا حل بھی تلاش کرنا ہو گا۔

کیونکہ نوجوان بڑی تیزی سے اپنی محرومی کی سیاست میں ریاستی اور حکومتی نظام سمیت طرز حکمرانی کو ہی چیلنج کر رہا ہے۔ اس میں جو غصہ ہے، بغاوت ہے، نفرت ہے اس کا علاج محض طاقت کی حکمت عملی سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے جہاں ریاستی سطح کی رٹ کی مضبوطی کا تعلق ہے وہیں لوگوں میں اور خاص طور پر نوجوانوں میں توازن کی سیاست کو بھی پیدا کرنا ہو گا۔ نوجوانوں کو ہم اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنائیں اور جو بھی ان کے مسائل ہیں اس پر ان کو انتہا پسند قرار دے کر آگے بڑھنے کی پالیسی بھی درست پالیسی نہیں ہوگی۔

اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم کچھ بڑا کریں اور ایسا کریں جو ہماری قومی ضرورت بنتا ہے۔ کیونکہ ہم نے خود کو داخلی اور خارجی محاذ پر امن، سلامتی، خوشحالی اور رواداری سمیت ایک مہذب معاشرے کے طور پر پیش کرنا ہے تو ہمیں اپنے موجودہ کردار اور پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ یہ ہی اس وقت ہمارا قومی ایجنڈا ہونا ہو گا جو ہماری عالمی دنیا میں بھی قبولیت کو یقینی بنائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments