بنگالی بابے بنگال میں کیوں نہیں رہتے


ایک تو ان بنگالی بابوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جب دیکھو یہی کہتے ہیں آئیں کالے علم کی کاٹ کروائیں۔ اب اگر کسی نے لال علم کی کاٹ کروانی ہو تو وہ بھلا مانس کدھر جائے۔ کسی پر جادو ہوا ہے تو ضروری ہے کہ وہ کالا ہی ہو۔ اگر کالا جادو ہو سکتا ہے تو گورا کیوں نہیں۔ لیکن ان بابوں کو تو صرف کالے علم کی ہی کاٹ کرنی ہے۔

اکثر اخباروں اور دیواروں پہ اشتہار ہوتا ہے بنگال کے مشہور عامل بنگالی بابا کی کالے علم کی زبردست کاٹ۔ ایک ہی چلے میں محبوب آپ کے قدموں میں۔ امتحان میں کامیابی، رشتے میں بندش، ساس کی زبان بندی وغیرہ وغیرہ۔ اس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی دیواروں اور اخباروں میں لکھے ایسے اشتہاروں کو پڑھتے پڑھتے بڑھی ہوئی ہے۔ جو باقی اس سعادت سے محروم رہی اس کی وجہ تعلیم کی کمی تھی، ورنہ باقی آبادی بھی ساری آگاہی حاصل کر لیتی۔

ہمارے ہاں دیواریں شاید اسی لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ ان پر اشتہارات لکھے جا سکیں۔ جن دیواروں پہ ’وال چاکنگ منع ہے‘ لکھا ہو، انھی دیواروں پہ طرح طرح کے اشتہارات ہوتے ہیں۔ ان اشتہارات میں جو سب سے مقبول اشتہار ہیں وہ کالے جادو کا جوڑ توڑ کرنے والے بنگالی بابوں کے ہوتے ہیں۔ بابوں کے کامیاب کاروبار کی تشہیر کے لیے اس سے زیادہ مناسب پلیٹ فارم کوئی نہیں۔ کہ ہر بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی متوجہ ہوتا ہے۔ اور بالآخر اسی خاک پہ پہنچتا ہے جہاں کا خمیر ہوتا ہے۔ اشتہارات میں دعوے بھی ایسے جو کسی کمبخت کو سر پہ نہیں بٹھاتے۔ شاید ان بنگالی بابوں کا خیال ہے کہ محبوب اس قابل ہی نہیں کہ اسے سر آنکھوں پہ بٹھایا جائے۔ تبھی تو قدموں میں لانے کا سو فیصد دعویٰ کرتے ہیں۔

بابوں کی ایسی ہی باتوں کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا، لیکن بابے خود آج تک متحد ہیں۔ یکجہتی کا ایسا مظاہرہ دیکھا نہ سنا۔ اپنی بات پہ قائم رہتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کی روایت کو لے کر چلتے ہیں۔ ان کے کسی بزرگ نے فرمایا تھا محبوب کو قدموں میں رکھنا ہے تو آج تک اس بات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ حرام ہے جو کہیں محبوب کو قدموں میں نہیں دل میں رکھیں۔

بچپن میں ان اشتہاروں کی سمجھ کبھی نہیں آئی، لیکن یہ اشتہار متوجہ ضرور کرتے۔ کالج کے دنوں میں اشتہار ’محبوب آپ کے قدموں میں‘ پڑھ کر شدید خواہش ہوئی، کہ میرے پاس بھی قدموں میں رکھنے کے لیے ایک محبوب ہونا چاہیے۔ شکر ہے اس خواہش کا اظہار کبھی ابو سے نہیں کیا تھا، ورنہ وہ قدموں میں لانے والا بابا تو شاید کوئی ڈھونڈ ہی لیتے، لیکن قدموں میں رکھنے کے لیے محبوب کہاں سے لاتے، کہ شومئی قسمت کسی بھی قسم کے محبوب سے شدید محرومی رہی۔

لیکن پھر جوانی کے ساتھ ساتھ حیرانی ختم ہوئی اور عمر کی طرح سوچ بھی پختہ ہوئی تو جانا کہ محبوب کی جگہ تو دل میں ہونی چاہیے، پھر قدموں میں کیوں؟ قدموں میں رکھنے کے لیے کچھ بھی ہو سکتا لیکن محبوب نہیں۔ یہ میری ذاتی سوچ ہے، آپ کا اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ میری ایک دوست ہے وہ ایسے ہی ایک بنگالی بابا کے پاس جاتی تھیں وجہ وہی محبوب کا سیاپا۔ اس کو قدموں میں لانا تھا۔ اور پھر وہ محبوب اس کے قدموں میں ایسا بیٹھا کہ قدموں کے نیچے سے جب زمین کھینچ کر لے گیا تو اسے ہوش آیا کاش میں قدموں میں لانے کے جتن نہ کرتی۔

اکثر خواتین شوہر پر حاوی ہونے کے لیے بابوں کے پاس جاتی ہیں اور پھر ہوتا یوں ہے کہ بابے ان پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس بابوں کی بات ماننے کے سوا چارہ کوئی نہیں رہتا۔ ہماری خواتین اتنا شوہر کی بات کا یقین نہیں کرتیں جتنا انھیں بنگالی بابا کی باتوں پر ایمان ہوتا ہے۔ شوہر چھوڑ دیں گی بابا نہیں چھوڑیں گی۔ یہ بابے بڑے کراماتی ہوتے ہیں، عورتوں سے وہ سب کروا لیتے ہیں جو شوہر پیار اور غصہ دونوں طرح سے نہیں کروا سکتا۔ جیسا کے بابا جی کے لیے طرح طرح کے کھانے بنانا۔ سخت تکلیف میں مبتلا شوہر کا سر نہیں دبائیں گی لیکن بابوں کے ایک اشارے پہ ان کے پیر دابتی نظر آئیں گی۔

بیشتر گھروں میں جھگڑوں کی وجہ یہ بابے ہی ہوتے ہیں۔ جو اپنے پاس آنے والی خواتین کے دلوں میں مختلف اندیشے ڈال کر ان سے پیسے نکلواتے ہیں، اور پھر ان کی بیوقوفی پر ہنستے ہیں۔ بابا رے بابا تیری کون سی کل سیدھی۔ ان بابوں کو چین نہیں۔ چلتے ہیں تو دیوار چین تک چلے جاتے ہیں۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ بنگالی بابے بنگال میں کیوں نہیں رہتے، کیا بنگال والوں کو محبوب قدموں میں نہیں چاہیے، یا وہاں کی ساس قدرتی بے زبان ہوتی ہے۔ میرے اس سوال کا ایک دوست نے یہ جواب دیا کہ ان کا رزق یہاں بندھا ہے۔ لیکن شاید ان کے رزق سے زیادہ ہمارے ہاں کے لوگوں کا حد سے زیادہ دوسروں سے حسد، شک، بے اعتباری، لالچ، اور خدا سے زیادہ تعویذ گنڈوں پہ اندھے یقین نے انھیں یہاں باندھ رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments