سلمیٰ حسن: ’ڈائریکٹر نے کہا تمہاری بہت بُرائیاں ہو رہی ہیں تو میں نے کہا یہ میری جیت ہے‘

شمائلہ خان - صحافی


سلمیٰ حسن
پاکستانی ڈرامہ سیریل ’مجھے پیار ہوا تھا‘ میں ماہیر کی والدہ کا کردار کرنے والی اداکارہ سلمیٰ حسن کہتی ہیں کہ وہ اس کردار کو مکمل طور پر منفی نہیں کرنا چاہتی تھیں، اسی لیے انھیں یہ کام مشکل لگا۔

واضح رہے کہ ڈرامے میں رابعہ اپنی بیٹی ماہیر کی امیر خاندان میں شادی کرانے کی خواہشمند ہیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اُن کی یہ منطق شائقین کی سمجھ سے بالاتر ہے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کرتے رہتے ہیں۔

بی بی سی اُردو کو دیے گئے انٹرویو میں اداکارہ سلمیٰ حسن نے بتایا کہ اُنھوں نے کافی محنت کے بعد رابعہ کے اِس غیر منطقی رویے کا جواز تلاش کیا کہ جو تکلیف زندگی میں اُسے اٹھانی پڑی، اُن کی بیٹی کو نہ اٹھانی پڑے۔

سلمیٰ حسن نے کہا کہ ’وہ (ماہیر کی والدہ رابعہ) محسوس کرتی ہے کہ مجھے پیسے کی قلت، ہر چیز کی کمی رہی، اُس کو رشتوں سے کوئی لگاؤ نہیں تو اُس کے دماغ میں یہ ہے کہ پیسہ ہونا، آسائش ہونا، یہ سب چیزیں زیادہ ضروری ہیں۔‘

رابعہ پر تنقید پر اُن کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ بدر بھائی (ڈائریکٹر) نے کہا کہ سلمیٰ تمہاری بہت بُرائیاں ہو رہی ہیں۔ تو میں نے کہا یہ میری جیت ہے۔ میں نے اتنے بھر پور انداز سے کردار ادا کر دیا ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کر رہے ہیں۔ میں خوش ہوں اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔‘

’وہاج ہمیشہ ہمارے کمرے میں ہوتا تھا کیونکہ وہاں کھانا ہوتا تھا‘

سلمیٰ حسن نے ڈرامہ سیریل’مجھے پیار ہوا تھا ‘ کے سیٹ سے کچھ یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کی ساتھی اداکارہ شاہین خان روزانہ سب کے لیے کھانا بنا کر لاتی تھیں۔

’ہمارا سیٹ، سیٹ کم اور فوڈ سٹریٹ زیادہ ہوتا تھا۔ ہم نے مردوں اور عورتوں کے بیٹھنے کی جگہیں الگ کر دی تھیں، لیکن وہاج ہمیشہ ہمارے کمرے میں ہوتا تھا کیونکہ وہاں کھانا ہوتا تھا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ کئی بار وہ اور شاہین سیٹ پر ایک جیسے رنگ کے کپڑے پہن کر آ جاتے تھے۔

سلمیٰ نے کہا کہ ’میرے خیال میں شادیوں میں ہم سب نے میچنگ کی ہوئی ہے۔ ہم بیچ میں بٹھانے کے لیے کسی کو ڈھونڈ رہے ہوتے تھے۔‘

سلمیٰ حسن نے حال ہی میں رمضان کے دوران نشر ہونے والے مقبول کامیڈی سیریل ’فیری ٹیل‘ میں بھی کام کیا تھا جس میں چند پرانے اداکاروں کے علاوہ باقی سب نئے اداکار شامل تھے۔

نئے اداکاروں کے ساتھ کام کے تجربے پر سلمیٰ نے بتایا کہ ’وہ آپ کو انرجی دے رہے ہوتے ہیں۔ مستقل میوزک چل رہا ہوتا ہے، اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔ اُن کا اپنا ہی ایک چھوٹا سا ببل ہوتا ہے، جس میں وہ رہتے ہیں۔‘

اس ڈرامے میں سلمیٰ حسن کے ساتھ اداکار سلیم شیخ اور تحسین وجاہت نے بھی کام کیا۔

سلمیٰ حسن نے بتایا کہ ’سلیم بھائی اور تحسین بیٹھے بیٹھے گانا گانا شروع کر دیتے تھے اور وہ ہر چیز کے اوپر گانا بنا رہے ہوتے تھے۔ میرے خیال میں ان دونوں کی وجہ سے بھی سیٹ پر بہت رونق رہی۔‘

یمنیٰ کے آئیڈیاز، ہانیہ کا دل اور سحر کا مساج

سلمیٰ حسن سات سال کے وقفے کے بعد 2010 میں میڈیا میں واپس آئیں تھیں تو اُنھیں سپورٹنگ کردار ملے۔ پچھلے دس بارہ سال میں وہ بے شمار نئے اور پرانے اداکاروں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔

حال میں انھوں نے یمنیٰ زیدی، ہانیہ عامر اور سحر خان وغیرہ کے ساتھ کام کیا، جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’خیال رکھنا اپنی جگہ لیکن یمنیٰ اپنے کردار اور کام کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہیں۔‘

’یمنی اگر سیٹ پر کھڑی بھی ہو گی تو اُس کا دماغ چل رہا ہوتا ہے اور پھر وہ ڈسکس کرتی ہے کہ سلمیٰ جی اگر میں اس پوائنٹ پر آ کر آپ کو گلے لگا لوں یا اس قسم کا کچھ کر لوں۔۔۔ اُس کے آئیڈیاز اچھے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کردار کو اپنا سو فیصد وقت دیتی ہے۔‘

اداکارہ ہانیہ عامر تواتر سے انسٹاگرام پر پوسٹنگ کرتی ہیں جن سے اُن کی شخصیت کا ایک رُخ دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ تفریح پسند شخصیت کی مالک ہیں لیکن انڈسٹری کے لوگوں سے بات کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک انتہائی حساس طبعیت رکھتی ہیں۔

سلمیٰ حسن کہتی ہیں کہ ’ہانیہ سے اچھا دل میں نے نہیں دیکھا۔ جتنا اُس کا مستی اور لااُبالی پن اور سب کچھ ہے، اُس کی وجہ سے آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ اس بچے کا دل سونے کا ہے۔‘

سلمیٰ حسن نے بتایا کہ ایک بار انھوں نے دیکھا کہ ہانیہ نے اپنا میک اپ روک کر ڈرامہ میں آیا کا کردار کرنے والی خاتون کے لیے جگہ خالی کر دی چونکہ اُن کا سین پہلے ریکارڈ ہونا تھا اور پھر میک اپ آرٹسٹ کو مشورے بھی دیتی رہیں کہ کیسے میک اپ کریں اور بال بنائیں کہ وہ اچھی لگیں۔

سلمیٰ حسن کے بقول ’سیٹ پر کوئی جونیئر بھی ہو، کوئی ایکسٹرا بھی ہو، ہانیہ اُس کو وہی عزت دیتی ہیں، جو ہمیں دیتی ہیں۔ وہ اپنا کام کرتی ہیں اور ساتھ میں وہ ایک نیچرل ایکٹر ہے۔‘

’فیری ٹیل‘ میں سحر خان نے اُن کے ساتھ کام کیا، جن کے بارے میں سلمی حسن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کردار کو بہتر سے بہتر بنانے کےلیے بہت پُرجوش رہتی ہیں جو سیٹ پر سب کو نظر آ رہا ہوتا ہے۔

’وہ سمجھوتہ نہیں کرتی۔ وہ سین روک دے گی اگر وہ اُس کے لیے تیار نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرا بلڈ پریشر آسمان کو چھو رہا تھا سیٹ پر، میرے سر میں درد ہو رہا تھا۔ اُس نے مجھے آدھے گھنٹے کا سر اور کندھوں کا مساج دیا۔‘

نیپو کِڈز: ’جو کرو اپنے بل پر کرو، خود کرو‘

انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک میں بہت سے مقبول اداکاروں کے بچوں نے انڈسٹری کو جوائن کیا جن پر اکثر تنقید رہتی ہے کہ انھیں اپنے والدین کی وجہ سے اچھے اور بڑے پراجیکٹس میں باآسانی کام مل جاتا ہے۔ ایسے ہی اداکاروں کے لیے ’نیپو کڈ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جس سے مراد وہ بچے ہیں جن کے والدین یا قریبی حلقوں کا شوبز میں کافی اثر و رسوخ ہے۔

سلمیٰ حسن ایسے کئی اداکاروں کے ساتھ کام کر چکی ہیں، جنھیں ’نیپو کڈز‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کے خیال میں اِن بچوں کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے لامحالہ بے حد محنت کرنی پڑتی ہے۔

واضح رہے کہ ’مجھے پیار ہوا تھا‘ میں کام کرنے والے زاویار جانے مانے اداکار نعمان اعجاز کے بیٹے ہیں جبکہ ’فیری ٹیل‘ میں نظر آنے والے اداکار حمزہ سہیل ٹی وی، سٹیج اور فلموں کے اداکار و ہدایت کار سہیل احمد کے صاحبزادے ہیں۔

اسی طرح ’فیری ٹیل‘ سے اپنے ٹی وی کیریئر کا آغاز کرنے والے اداکار عدنان رضا میر مقبول اداکار اور پروڈیوسر آصف رضا میر کے بیٹے اور اداکار احد رضا میر کے بھائی ہیں۔

سلمی حسن بتاتی ہیں کہ ’عدنان کے بارے میں تو کافی کہا گیا کہ جی اردو نہیں بول سکتا تو فلاں نہیں کر سکتا۔ ایک تو اُس کا کردار ہی ایسا تھا دوسرے میں نے اُس کی محنت دیکھی۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں زاویار کو بھی دیکھتی ہوں محنت کرتے ہوئے اور حمزہ کو تو میں کہتی ہوں کہ واقعی اُس کی محنت اُس کی اپنی ہے، اُس کے والد مدد کرنے کےلیے بالکل تیار نہیں کہ جو کرو اپنے بل پر کرو، خود کرو۔‘

سلمیٰ حسن کی بیٹی فاطمہ بھی انڈسٹری میں کام کرنے کی خواہشمند ہیں لیکن اس بارے میں اُن کے بہت سے تحفظات ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اِس پیشے میں ہونے کے لیے آپ کو بہت ہمت چاہیے۔ ایک تو آپ کو تھوڑا سا بے حس ہونا چاہیے تاکہ آپ لوگوں کی باتوں اور کامنٹس کو فلٹر کر کے اپنے کام پر فوکس کر سکیں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ فاطمہ دل پر چیزیں لیتی ہے۔ بہت حساس ہے۔ مجھے اس بات کا بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ اس کو ایکٹنگ اور ماڈلنگ کی آفرز آئیں لیکن میں نے نہیں کرنے دی۔‘

فاطمہ کی تعلیم بھی میڈیا سٹڈیز ہے اور سلمیٰ کے خیال میں وہ فاطمہ کو زیادہ دیر کام کرنے سے روک نہیں پائیں گی۔

’وہ گلے لگانا ایسا تھا جیسے کوئی اپنوں کو پیار کرتا ہے‘

سلمیٰ حسن نے اپنے کریئر کا آغاز 1998 میں پی ٹی وی سیریز ’دھوپ میں ساون‘ سے کیا تھا لیکن اُنھیں انڈس وژن پر چلنے والے سِٹ کام ’سب سیٹ ہے‘ سے بے پناہ مقبولیت ملی۔

اپنے کیریئر کی بلندی پر انھوں نے اداکار و ہدایتکار اظفر علی سے شادی کا فیصلہ کیا اور کام کے بجائِے اپنی ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دینے لگیں۔

2012 میں اظفر سے طلاق کے کچھ سال بعد انھوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اُن کی طلاق کے بعد کراچی کے ڈالمین مال میں ملنے والی اپنی ایک مداح ساری زندگی یاد رہیں گی، جنھوں نے گلے لگا کے اُنھیں خوب دُعائیں دیں۔

سلمیٰ حسن کے الفاظ میں ’مجھے آج تک یاد ہے کہ انھوں نے سفید رنگ کا عبایا پہنا ہوا تھا۔ زندگی میں ایسے مقام پر اور اُس موڑ پر آپ کو ویسے ہی لگ رہا ہوتا ہے کہ کوئی بھی آپ کو کہہ دے کہ اِٹس اوکے۔‘

’تو ایسے میں ایک بالکل اجنبی کہیں سے آ کر آپ کو پیار کر کے، گلے لگا کے رو رہی ہوں۔ اُس پر تو میں اُن کو دِلاسہ دے رہی تھی کہ کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں۔‘

سلمیٰ حسن کے خیال میں سنگل پیرنٹ کا سب سے بڑا چیلنج وقت کی تقسیم ہے کیونکہ ایک ہی شخص کو گھر، بچہ اور اپنا کام بھی دیکھنا ہوتا ہے اور جوائنٹ فیملی سسٹم کے خاتمے کی وجہ سے یہ کام مزید مشکل ہو گیا ہے۔

’بہت سارے ایسے والدین ہوتے ہیں جو طلاق کے بعد آپ سے ناخوش ہو جاتے ہیں۔ بھئی کسی کا قصور تو نہیں ہے نا، ناخوش ہو کر کیا کرنا۔ ہمیشہ اہم ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچے یا بچی کو جو بھی ہے سپورٹ کریں۔ بچہ بڑا کرنا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری طلاق کے بعد میری والدہ میرے ساتھ شفٹ ہو گئیں تھیں اور تین چار سال ساتھ رہیں۔‘

سلمیٰ حسن

’امیتابھ بننا تھوڑا مشکل ہے، سمیتا پاٹل پر توجہ دے لو تو شاید کر بھی لو‘

سلمیٰ حسن ایک زمانے میں نیویارک فلم اکیڈمی سے ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد اپنے والد کے ساتھ لندن گئیں تھیں جہاں ایک سکوائر پر اُن کی ملاقات بی بی سی کے ایک صحافی سے ہوئی۔

اُس صحافی نے سلمیٰ کی اسناد جاننے کے بعد بی بی سی میں جاب انٹرویو کے لیے مدعو کیا تھا لیکن والد کے اصرار کے باوجود وہ نہیں گئیں کیونکہ اُس وقت اُن کی شادی ہونے والی تھی۔

سات سال کی عمر میں وہ امیتابھ بچن بننے کے خواب دیکھا کرتی تھیں اور اِس جنون کی وجہ سے انھوں نے بہت نقصان بھی اٹھایا تھا۔

میں نے پوچھا کہ آپ ایک زمانے میں امیتابھ بچن بھی بننا چاہتی تھیں تو وہ قہقہہ مار کر بولیں کہ ’میرا خیال ہے میں ابھی بھی بننے کو تیار ہوں۔ کاش مجھے پتا ہوتا کہ میں لڑکی ہوں۔‘

’مجھے یاد ہے جب میں یہ کہا کرتی تھی تو ابو مجھ سے کہتے تھے کہ امیتابھ بننا تھوڑا مشکل ہے، سمیتا پاٹل پر توجہ دے لو تو شاید کربھی لو۔‘

سلمیٰ بتاتی ہیں کہ امیتابھ بننے کے جنون کی وجہ سے بچپن میں چوٹ لگنے کی وجہ سے ان کی سرجری بھی ہو چکی ہے، جس سے صحت یاب ہونے میں اُنھیں تین ماہ لگے۔

’بھئی میرا خیال تھا کہ وہ دنیا کے سب سے بہترین اداکار ہیں۔ میرا تو خیال تھا کہ اُن سے بڑا کوئی ہے ہی نہیں۔ میں امیتابھ کی نقل کرتے ہوئے رین کوٹ پہن کر اپنی چھت پر الٹا چل رہی تھی۔ میں سر کے بل گری اور سر پھٹ گیا۔‘

وہ ہنستے ہوئے بولیں کہ ’اُس کے بعد میں نے امیتابھ بننے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے سوچا سمیتا پاٹل ہی ٹھیک ہے، یہی کر لوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments