منٹگمری (3)


ڈپٹی کمشنر کی عدالت کا بڑا سا کمرہ خاص برطانوی طرز تعمیر۔ اونچی چھت اور موٹی لکڑی کے بالے کی اونچی چھت اور اوپر کوئی 14 فٹ اونچائی پر رسے سے کھلنے اور بند ہونے والا ہوادار روشن دان کورٹ روم میں بھانت بھانت کے لوگ اور ان کے مسائل و مقدمات۔ غرض یہ کہ ایک عدالت کا روایتی منظر۔ فلاور مین ابھی عدالت میں آیا نہ تھا۔ عدالت میں آج ایک مقدمہ زیر بحث تھا۔ جس میں ایک لڑکی نکل گئی تھی اور اس کے لواحقین نے کیس دائر کیا تھا۔ فلاور مین اپنے دفتر کے بغلی دروازہ جو کہ عدالت میں کھلتا تھا۔ میں آیا اور اس نے عدالت میں آتے ہی کرسی سنبھالی اور سامنے پڑی لسٹ کو دیکھا اور اس میں اول نمبر مقدمہ کے لئے سر ہلا کر اجازت دی۔ عدالت میں آئے مقدمے کے وکیل نے ملزم پر جرح کرنی تھی۔ ملزم مہابت بھٹو نے اپنا بیان شروع کیا۔ جناب جج صاحب! جیسا کہ آپ جانتے ہی ہوں گے ۔ ہمارے جملہ جانگلیان ( جانگلی کی جمع) کا دنیا میں آنے کا ایک ہی مقصد ہے وہ ہے کہ خود ذلیل ہونا اور جو سامنے آئے اس کو ذلیل کرنا۔ اس لئے الزام علیہان یارو میراثی سے میرا صرف ایک سوال ہے۔

کہ کیا یہ اس لڑکی کو باعزت بیاہ کے نہیں لے جا سکتا تھا؟ جواباً یارو بولا جج صاحب اب میں وٹو صاحب کو اس کے سوا کیا جواب دوں کہ ابا بہشتی نے اماں بہشتی کو بھی اودھا (بھگا کر لے جانا ) لیا تھا۔ صاحب بہادر بڑی بڑی پولیس پڑی اور ابا بہشتی کو پولیس نے مارا بھی بہت۔ لیکن مجال ہے کہ ابا نے ان کو واپسی اماں کی چھوں بھی دی ہو۔ تو صاحب یہ ٹھیک ہے کہ میں پکڑا گیا۔ لیکن نہ مجھے کیے کا کوئی ارمان نہ مجھے مجھے رن واپس کرنے میں دلچسپی۔ تو جو آپ کا دل کرے وہ کرو۔

فلاور مین نے حیرت سے یہ سب سنا اور سوچا کہ یہ کسی سے پلا پڑا ہے۔ اس نے تاحکم ثانی حوالات قید لکھ کر فائل پر اگلی پیشی کی تاریخ ڈال دی اور اگلے مقدمہ کی سماعت شروع کرنے کا کہا۔ لوئر بار کینال میں پائی مکمل آ چکا تھا۔ تمام کینال کالونیز میں آباد کاری زوروں پر تھی۔ ”واں خیر دی“ ایک مالکی گاؤں تھا۔ جس میں چند گھر ہی تھے لیکن انگریزوں نے اس چک کو برقرار رہنے دیا۔ اور بالکل بھی نہ چھیڑا۔

اس چک میں سب سے تگڑا بندہ سجان سنگھ تھا۔ آج سجان سنگھ اپنے بازار میں بنے چھپر کے نیچے بیٹھا اپنے چک کے لوگوں سے بات کر رہا تھا۔ نہر تاں نہ ہوئی مصیبت ہوئی۔ چراگاہ ختم۔ مفت دا پانی ختم۔ میلہ کا میدان ختم۔ اور لگان شروع۔ یار یہ انگریز اور اس کی نہر تو جنگلی جیون کو دیمک کی طرح لگ گئے۔ سجان سنگھ کی بات سن کر اس کا دوست بولا ساڈا صرف چراگاہ۔ پانی میدان تک بات نئین)
بلکہ ساڈا چرخہ۔ گڑ۔ قاعدہ سب ہی گیا سردار جی۔ نہرجنگلی جیون نوں کھا گئی۔ یہ سن کئی آنکھوں میں چھپر نیچے آنسو آئے۔

ان میں ایک ملنگ بھی بیٹھا تھا۔ وہ بولا: شالا یہ نہر لال بہے۔ جیسے ہمارے دل لہو لال ہوئے۔ ایسے ہی یہ نہر بھی لال ہوئے۔ فریدی نانکی اداسی فقیر بولا وہاں موجود ایک بندہ بولا نہ ملنگ نہ! اس طرح پالوتا (بددعا) نہ دے۔ لگ گئی تے باراں اجڑ جانگیاں۔ اسی وی نال نہیں بچنا۔ دعا کر چنا۔ روای۔ نیلی۔ ویا وگدے رہیں۔ پتن پاک روے۔ بوٹے تے پھل تے درختا ں دی چھا قائم روے۔ کیونکہ چھا وی پھل ای ہوندا۔ سب کہو اللہ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید حق فرید سچ فرید حق فریدن سچ فریدن۔ حق فریدن سچ فریدن حق فریدن سچ فریدن۔

میر ثانی نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں فون کر کے ان کے سٹاف افسر کو اپنا نام اور ملاقات کی وجہ لکھوائی تھی۔ آج صبح کی اس کو تصدیق کی گئی کہ صاحب آج اس سے ملاقات کرے گا۔ وہ باقاعدہ درباری لباس پہن کر دفتر گیا۔ انتظار کے کمرے میں بے حد رش تھا۔ مقامی محکمۂ مال کے افسر کلف لگے پگڑیاں اور کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ سکھ ملاقاتی پگڑ، مسلمان روایتی پگڑی اور ہندو اپنی مخصوص ٹوپی میں ملبوس ہوشیار باش دفتر میں بیٹھے تھے۔

ثانی اس طرح کے روایتی ماحول اور لوگوں کو کچھ خاص پسند نہ کرتا تھا۔ لیکن اب ان کے درمیان موجود تھا۔ وہ راج کے آنے اور نہر کے بنانے کے سارے عملے اور اثرات پر غور کرنے میں گم تھا کہ وہ اردلی کی آواز سے چونکا اور جو اس کو کہ رہا تھا کہ وہ صاحب کے دفتر میں چلا جائے۔ وہ اندر گیا تو فلاور مین صاحب آئینے میں اپنے آپ کو تنقیدی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور کمرے میں بالکل اکیلا تھا۔ اور نہایت توجہ سے آئینے میں کچھ دیکھ رہا تھا۔

میر ثانی کی آمد پر وہ ذرا سا چونکا اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا اور سامنے سے کارڈ یا پرچی دیکھنے لگا۔ اس کو ثانی کے نام والی پرچی مل گئی۔ اس نے اس کو آنکھ کے اشارے سے بیٹھنے کے لئے کہا۔ پھر بولا: ویل ثانی! تم کیسے ہو؟ ثانی نے جواباً کہا جی! آپ کی ذرہ نوازی سے ٹھیک۔ فلاور مین بولا۔ ویل! تمہارے باپ کی راج کی خدمات بہت متاثر کن ہیں۔ ہم نے تم کو راوی کلب کا ممبر اور نائب تحصیل داری کا عہدہ دینے کا سوچا ہے۔

ثانی بولا:۔ یہ تو آپ کی اور راج کی مہربانی ہے جو آپ کو ہمارے جیسوں کا بھی خیال رہتا ہے۔ میں آپ کا ممنون ہوں۔ فلاور مین اس کو دیکھ کر مسکرایا اور زمینی گھنٹی پر پاؤں مارا اور اردلی کو اگلے ملاقاتی کو اندر بھیجنے کا کہا۔ گھوڑ سواروں کا ایک جتھا جب اچانک واں خیر دی، میں داخل ہوا تو واں خیر دی کے اندر موجود چند لوگوں نے اپنے دیسی ہتھیاروں کے ساتھ اپنی جگہوں پر چوکس ہوئے۔ لیکن یہ تو کوئی وردیوں میں ملبوس لوگ تھے۔

انہوں نے سجان سنگھ کا پوچھا اور پھر اس کے چھپر تک گئے اور پھر ان میں ایک نے۔ اپنا تعارف مقامی تھانیدار کے طور پر کروایا۔ اور اسے سرکار کو مطلوب لوگوں کے بارے میں اطلاع کی اور ساتھ یہ بھی کہ ان میں سے کسی کو پناہ دینا اب نئی چک بندی کے بعد جرم ہو گا۔ ملنگ نے جب یہ دیکھا تو نا معلوم اس کو کیا ہوا۔ اس نے اپنے ڈنڈے کو تھانیدار کے سر پر دے مارا تھانیدار کے سپاہیوں نے ملنگ کے سر پر جواباً ضرب لگائی۔ جس کے نتیجہ میں ملنگ گرا اور اس نے کہا:۔ شالا آگ لگے نہر نوں، نہر میں لہو بہے، شالا آگ لگے نہر نوں، نہر میں لہو بہے۔ یہ کہتا جاتا اور خون مسلسل نکلتا رہا اور پھر بے ہوش ہو گیا (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments