کیا ہم ایک بھلکڑ قوم ہیں؟


جب بھی یونی ورسٹی اور کالج کے دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے تو ایک سلسلہ چل نکلتا ہے ایک دوسرے کو اپنی صبح و شام کی مصروفیات سے آگاہ کرنے کا، جس کا ایک مستقل حصہ ہوتا ہے یوٹیوب اور فیس بک سے اپنی من پسند موسیقی، شاعری، اور تخلیق سنانے کا۔ کسی دوست نے کوئی نظم لکھی ہو، کوئی تحریر چھپوائی ہو، یا کسی نئے سیاسی سماجی موضوع بارے کچھ نیا جانا ہو تو وہ سنانا شروع کر دیتا ہے اور ہم سب سر دھننے لگ جاتے ہیں۔

کل رات ایسی ہی ایک محفل میں کچھ ایسا ہی شغل ہو رہا تھا کہ ایک دوست نے تاریخ کے ہم سے سوال پوچھنے کے بارے میں اجمل خٹک کی کچھ اردو شاعری سنائی۔ اجمل خٹک کی پشتو شاعری کا میں مداح رہا ہوں۔ جب اردو شاعری اور تاریخ کا ذکر سنا تو احمد فراز یاد آ گئے۔ احمد فراز نے جنرل ضیاء الحق کو ایسے للکارا تھا، ”اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے“۔ اپنی نظم ’محاصرہ‘ پڑھ کر جنرل سے جلاوطنی کے حکم نامے پر دستخط کروانے والے احمد فراز کے الفاظ میں رات دیر گئے تک دہراتا رہا اور قومی یادداشت کی کمزوری پر افسوس کرتا رہا۔

یہ بات کہتے ہوئے مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو رہی کہ برصغیر برائے نام آزاد ہوا ہے اور اپنی آزادی کے ڈھونگ کو چھپانے کے لیے ہی اپنی تاریخ سے سیکھنے سے انکاری ہے۔ جارج سنتایانا کی آہ اس کو لگ سی گئی ہے کہ اگر تم اپنی تاریخ کو یاد نہیں رکھو گے تو تمہیں اسے دہرانے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ ہماری سیاست، ہمارے سماجی رویے، ہماری تعلیمی پسماندگی، اور ہمارا بیمار معاشرہ اس بات کا ثبوت ہیں۔

ہم بھول چکے ہیں کہ اس بر صغیر میں کبھی بھیم راؤ امبیدکر، ابو الکلام آزاد، اور عبد الغفار خان بھی تھے اور انہوں نے جن بیماریوں کی تشخیص کی تھی، وہ بیماریاں آج بھی ہمارے معاشرے کا روگ ہیں۔ بابا امبیدکر شودروں کی رہنمائی کرتے تھے اور میری نظر میں تحریک آزادی کے سب سے مخلص اور انسان دوست رہنما تھے۔ انہوں نے ایک تقریر لکھی تھی ’The Annihilation of Caste‘ یعنی ذات پات کا خاتمہ، جسے انہوں نے جات پات توڑک منڈل کے ایک اجلاس میں پڑھنا تھا لیکن شدت پسند ہندو عناصر کے خوف سے یہ تقریر ہی نہیں بلکہ پورا اجلاس ہی منسوخ کر دیا گیا۔ بعد ازاں موہن داس کرم چند گاندھی نے اس تقریر کے مندرجات کی مخالفت میں مضامین بھی لکھے تھے۔

تقسیم برپا ہوئی، وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جس کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 14 اور 15 اگست کو جس ولولے سے منایا جاتا ہے، اتنی ہی شدت سے تقسیم اور فسادات کی یاد آتی ہے اور دل افسردہ سا رہتا ہے۔ بابا صاحب کی تقریر کو سنا نہیں گیا اور آج تک انڈیا پاکستان بنگلہ دیش اپنے اندر ذات پات کے عجیب سے نظام اور ساخت سے جڑے تشدد (structural violence) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم سماجی طور پر تقسیم در تقسیم کے شکار معاشرے ہیں اور اس تقسیم کی پرتیں اتنی ہیں کہ ہم سب مکڑی ہوجائیں تب بھی اسے بن نا پائیں اور بے بسی سے انسانوں کو اس سب کے بوجھ تلے پستا دیکھتے رہیں۔

ابوالکلام آزاد بارہا اس حقیقت کی طرف توجہ دلا چکے تھے کہ برصغیر کا مسئلہ کمیونل یعنی ہندو مسلم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ معاشی ہے اور پاکستان کا قیام اور تقسیم ہند نہ صرف اور قوموں کے لیے بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہو گا۔ اب کیا کوئی اس بات کا انکار کر سکتا ہے کہ برصغیر صدیوں سے اگر کسی عذاب کو جھیل رہا ہے تو وہ غربت، سماجی تفریق، اور سماجی مساوات کا سرے سے ناپید ہونا ہے۔ جس معاشرے کو اپنے من میں ڈوب کر عرفان ذات حاصل کر کے سراغ زندگی کو کھوجنا تھا، وہ کبھی اس کے لیے تیار ہی نہیں ہوا۔

ہمارا وہی پرانا مسئلہ کہ مشرقی روایات، ہمارے اقدار، اور مغرب کی نفرت کے ترانے سن لو ہم سے لیکن کبھی سکون سے بیٹھ کر اپنے سماجی مسائل کا صحیح ادراک نہیں حاصل کریں گے اور کوئی بھی آ کر کسی نئی بتی کے پیچھے لگا جائے گا ہمیں اور ہم سر تن سے جدا کرنے کو تو تیار ہوں گے لیکن بیماری کی تشخیص کر کے انسانوں کی طرح اپنا علاج نہیں کروائیں گے۔

باچا خان اس امر کی طرف توجہ دلاتے رہے کہ ہمارے یہاں مذہب کی پیروی کرنے کی بجائے مذہب کا اپنے مقاصد کے لیے استعمال زیادہ عام ہے اور مفاد پرستوں تفریق پسندوں کے لیے تقسیم ہند اور برطانوی سامراج سے آزادی ہی وہ موقع تھا کہ وہ اپنے اپ کو نجات دہندہ ثابت کریں اور ایک غلامی سے نکلنے کے بعد ایک زیادہ گہری غلامی میں لوگوں کو دھکیل دیں۔ باچا خان کی یہ بات آج تک ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ یہاں مذہب کے نام پر ہر مداری تماشے دکھاتا ہے، پیسے، داد، اور توجہ بٹورتا ہے، اور کل نئی زبان، نئی مسالے دار کہانی، اور نیا انداز لیے حاضر ہو جاتا ہے اور ہمیں ہماری بے وقوفی کا طعنہ ہم سے ہی دلوا کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔

باچا خان پشتون معاشرے کی ایک صدیوں پرانی بیماری سے بھی خوب آشنا تھے اور انہوں نے اپنی طرف سے بھر پور کوشش بھی کی کہ اس کا سدباب کیا جائے۔ ہمارے یہاں تشدد کو ایک قومی فخر سمجھا جاتا ہے اور غیرت پشتو کے نام پر مرنے کٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے تو یہاں تک کیا کہ جب سانحہ پشاور کے وقت انگریز تشدد پر اتر آئے، انہوں نے خدائی خدمت گاروں کو متشدد ہونے سے روکا، اور قوم کو یہ بتاتے رہے کہ اگر ہمارا کوئی مستقبل ہے تو وہ عدم تشدد کے فلسفے سے جڑا ہوا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جہاں گاندھی جیسے پورے عالم میں مشہور عدم تشدد کے تبلیغی نے جنگ کی حمایت کی کہ اس سے ہندوستان کی آزادی کا عمل تیز ہو گا، باچا خان نے جنگ اور تشدد کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

حیرت کی بات ہے، جشن آزادی جس کو ہمیں یاد دلانا چاہیے تھا کہ ہم نے حق خود ارادیت واپس حاصل کیا تھا سامراج سے اور ہم نے اپنے وسائل خود کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم ایک ہندؤوں سے نفرت کرنے والی قوم ہیں اور انڈیا میں یہی کچھ نام بدل کے ہوتا ہے۔ معروف فلم pk کے انداز میں کہوں تو دونوں ملکوں کا فوکسوا focusva خراب ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ نئی نسل کو کیا سیکھنے کا موقع دینا ہے اور کن کن جھوٹوں سے دور رکھنا ہے۔ سامراج کے ایجنڈے سے جان چھوٹی یا نہیں لیکن ہم نے بہت سارے نئے سامراجی ایجنڈے خود اپنے اندر پنپنے دیے اور وہ ہماری سماج اور سیاست میں ایسے رچ بس گئے کہ اب ہم ان کو سوچتے تک نہیں، ان کے ہونے پر سوال تک نہیں اٹھاتے، بلکہ بارہا ان کا جشن مناتے ہیں اور سلامیاں دیتے ہیں۔

ہماری جہالت اور تاریخ سے نہ سیکھنے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ وہی پشتون معاشرہ آج بھی کلاشنکوف کلچر سے خود کو چھڑا نہیں پا رہا اور طالبان مذہب کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں۔ مذہب کا استعمال عام ہے۔ تشدد پر مبنی سماج کا تصور طالبان نے پشتون معاشرے سے ادھار لیا ہوا ہے۔ جب تک ہماری ہاتھی کے کان میں سو کر تاریخ کو نظر انداز کرنے والی عادت نہیں جائے گی، ہم اور ہماری آنے والی نسلیں انہی پرانی بیماریوں کے شکار ہوتے رہیں گے، ہم تماشا بنتے رہیں گے، اور دور سے دیکھنے والے ہماری طرف دیکھ کر کہیں گے، ”تمہیں خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments