قائد اعظم کی پاکستانیوں کے نام چٹھی


میرے پیارے پاکستانیو!

دنیا میں کافی قومیں پاگل پن کر رہی ہیں پر تم سب تو بالکل باؤلے ہو گئے ہو۔ میں خط لکھنے کا قائل نہیں کیوں کہ پڑھنا، لکھنا سوچنا یہ اس قوم سے کہیں دور چلا گیا ہے۔ اب کوئی سوشل میڈیا ٹائپ کی چیز ہے جو میرے پاکستانیوں کے لیے حرف آخر بن گئی ہے۔ اس پر جو ہوتا ہے اس پر ایمان یقین محکم سب کر لیتے ہیں۔

میں خط کیوں لکھ رہا ہوں؟

کافی عرصے سے میرے ہم وطنوں نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد اب یہاں سکون کرنے آیا تھا لیکن پاکستان میں سب میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ہر کام کے لیے کہتے ہیں قائد اعظم دکھاؤ، قائد اعظم دکھاؤ، پہلے میں بہت خوش ہوتا تھا اس قوم کو مجھ سے عقیدت ہے۔ بعد میں پتا چلا یہ قائد اعظم سے محبت نہیں، کام کروانے کی کنجی ہے۔ کام کام کام کا مطلب اس قوم نے کچھ اور لے لیا ہے۔

دوسرا جب پاکستان بنا تھا اس وقت بھی مجھے لوگوں میں اتنی خلیج نظر نہیں آتی جتنی اب ایک ہی خاندان میں۔ ایک کسی انصاف جماعت کا ہے تو باقی سب کو چور ڈاکو سمجھ کر ان سے ہاتھ ملنے اور بات کرنے کو بھی توہین سمجھتا ہے۔

اداروں نے مجھے الگ پریشان کر رکھا ہے، ہر ادارے میں میری تصویریں لگی ہیں، کہیں عدالتوں میں میری تصویر کے نیچے انصاف کے ترازو میں نا انصافی ہو رہی ہے۔ کہیں میری تصویروں کو سلیوٹ کر کے مجھے انگور کی بیل پر چڑھا رکھا ہے، لیکن ملک وہیں کا وہیں ہے، ادارے آپس میں لڑائیوں میں لگے ہیں، ملک کی پرواہ کسی کو نہیں۔

میں نے پہلے سوچا میرے خط لکھنے سے اس قوم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا پھر بھی میں نے سوچا اپنی قوم سے درخواست کروں کہ ہر ایرے غیرے کو قائد اعظم ثانی بنا دیتے ہیں۔ مجھے خود حیرانی اور پریشانی ہوتی ہے قوم میں اتنے قائد اعظم ہیں تو یہ قوم ترقی یافتہ قوموں سے آگے کیوں نہیں نکل گئی؟ یا اتنے لوگ قائد اعظم ہیں تو باقی پیچھے اس قوم میں کوئی بچتا بھی ہے یا نہیں؟

میرے پیارے پاکستانیو! ویسے تو میں جب سے آیا ہوں تم لوگ روز میرا کچھ نہ کچھ جلاتے رہتے ہو کبھی میرا دل کبھی میرے اصول پر اس دفعہ تم لوگوں نے حد ہی کردی، تم لوگوں نے میرا لاہور میں گھر جلا دیا۔ اللہ معاف کرے تم لوگوں نے مجھے ہی نشانے پر لگا رکھا ہے کسی نے زیارت ریزیڈنسی اڑائی تو کبھی جناح ہاؤس لاہور۔ میں تو تم لوگوں کے کرتوت دیکھ دیکھ کر پریشان ہوں۔ کہیں کسی روز مزار قائد سے ہی مجھے چلتا نہ کر دو۔ کچھ عقل کے ناخن لو، کچھ ہوش سے کام لو، جلانا ہی ہے تو ملک میں پھیلی جہالت جلاؤ، ایک دوسرے کے خلاف جو نفرتیں پالی ہیں، انہیں آگ لگاؤ۔

میرے پیارے لوگوں میری حسرت ہے کہ کوئی دن ایسا بھی آئے کہ دنیا مثال دے کہ قائد اعظم کوئی اچھا کام کر کے گئے تھے۔ یہاں تو روز یہی ٹینشن ہے کہ اب کون سا ایسا کام ہونے والا ہے جس کی وجہ سے شرمندگی میرے حصے میں آئے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ لاہور میں ہی 1947 کو میں نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی مگر مجھے اب لگتا ہے یہ کام ہم خود کر لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments