حالی کی جیل یاترا


دو سال کی جیل یاترا نے تو حالی کی ہیئت ہی بدل دی تھی، سرخ و سپید چہرے کی چمک دمک ماند پڑ چکی تھی، موٹی اور چمکدار آنکھیں اندر دھنس کر اپنی رعنائی کھو چکی تھیں۔ بالوں کی سفیدی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ تھا تو پینتیس، چالیس کا مگر اب وہ اپنی عمر سے کہیں بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ گھنی داڑھی، اونچی شلوار اور کھلے ڈلے لباس میں اس پر گہرے مذہبی آدمی کا گمان ہو رہا تھا۔

مگر مجھے اس کی ظاہری ہیئت سے زیادہ اس کی سوچ اور آئندہ طرز زندگی کو جاننے میں دلچسپی تھی۔ ایک دن عصر کی نماز کے بعد اس سے مل کر اس کا حال چال دریافت کیا، وہ خوش اسلوبی سے ملا، ہم چلتے چلتے قریبی ہوٹل پہ جا بیٹھے اور چائے آرڈر کر دی۔ حالی ایام اسیری کے حالات و واقعات پر روشنی ڈال رہا تھا اور میں حیرت اور دلچسپی کی تصویر بنا یہ سب سن رہا تھا۔

دسویں جماعت میں پڑھائی چھوڑنے تک وہ اپنی شرارتوں اور حرکتوں کی وجہ سے پورے سکول میں مشہور ہو چکا تھا۔ کم و بیش تمام اساتذہ اس کی حماقتوں سے نالاں تھے۔ ایک دو اساتذہ تو کلاس میں داخل ہوتے ہی بنا کچھ کہے پوچھے حالی کو مرغا بنا دیتے تھے اور جونہی ذرا پیٹھ خم ہوتی ڈنڈا رسید کر دیتے، جس کی وجہ سے باقی بچے سہم کر کتابوں میں گڑ جاتے تھے۔ ایک استاد محترم تو حالی پر شیر کی سی نگاہ رکھتے تھے اور عموماً سزا کا عمل اسی سے شروع کرتے تھے، ان کے آنے پر حالی خود سے اٹھ کر مرغا بن جایا کرتا تھا۔

استادوں اور بچوں کے تمسخر آمیز قہقہوں کی اسے کوئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ ان رویوں کا عادی ہو چکا تھا۔ قریباً تمام اساتذہ اس کے ساتھ اسی طرح کا رویہ روا رکھتے تھے سوائے ماسٹر فیض رسول کے۔ جنہوں نے اس کے نام ”الطاف حسین“ کے ساتھ فی البدیہ ”حالی“ کا اضافہ کر دیا تھا۔ پھر تو یہ نام ایسا مشہور ہوا کہ گھر والے تک اسے حالی ہی کہہ کر پکارنے لگے۔ الطاف حسین میں اگرچہ کوئی بھی شاعرانہ صفت نہ تھی مگر استاد فیض رسول نے ایک تخلص اس کے لیے ریزرو کر دیا تھا۔ استاد فیض رسول اس کی نت نئی شرارتوں کو دیکھ کر اکثر کہا کرتے تھے تھے ”اگر تم اپنی صلاحیتوں کا درست استعمال کرنا جان گئے تو تم بہت آگے جاؤ گے“

مگر حالی تو کسی اور ہی دنیا کا باشندہ تھا تھا، اسے پڑھنے پڑھانے میں چنداں دلچسپی نہ تھی، اس کا ذہن تو ہمہ دم نت نئے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ پڑھائی میں اس قدر عدم دلچسپی کے باوجود حالی کی لکھائی اپنے تمام ہم جماعتوں سے کہیں زیادہ خوبصورت تھی، مگر اس کی حد سے بڑھی ہوئی شرارتوں اور لڑائیوں نے اس کی اس خوبی کو بھی اندھیروں میں دھکیل دیا تھا۔

حالی کے باپ کو اپنے بیٹے کی شرارتوں اور حماقتوں کا بخوبی علم تھا اس لیے اس نے اس سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رکھی تھیں، مگر وہ اسے کم از کم میٹرک پاس ضرور دیکھنا چاہتا تھا۔ ادھر آئے روز کی تذلیل و تحقیر کا نشانہ بنتے بنتے آخر حالی نے سکول چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ دسویں جماعت کے پرچے ہونے والے تھے جب اس نے سکول کے نیلے آہنی گیٹ کو آخری سلام کیا اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

کئی ماہ بے کار گزارنے کے بعد اس نے ایک بینر لکھنے والے پینٹر کے پاس کام سیکھنا شروع کر دیا۔ یہ کام اس کے مطلب کا تھا۔ پینٹر کو ایک باصلاحیت شاگرد مل گیا تھا اور حالی کو کام۔ روزمرہ کی مشق سے اس کا کام نکھرنے لگا اور اس کی لکھائی بہتر سے بہتر ہونے لگی۔ پینٹر دکان کا بیشتر کام حالی سے کروانے لگا۔ حالی بہت دل سے کام کرتا مگر مالک پینٹر بدلے میں اسے بہت معمولی سا معاوضہ ادا کرتا جس سے وہ آزردہ رہتا تھا۔ ایک دو بار اس نے مالک سے شکایت بھی کی جو بے نتیجہ رہی۔ مالک نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ کام کاریگر کو نہیں بلکہ اس کو ملتا ہے لہٰذا وہ معاوضہ بھی اپنی مرضی سے دے گا، کام نہیں کرنا تو خوشی سے جا سکتے ہو۔

سال ہا سال پوری محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے پر بھی اس کا ہاتھ تنگ ہی رہا۔ وہ سوچتا رہتا تھا کہ نوکری کی زنجیر کے ساتھ آخر کب تک وہ سسک سسک کر زندگی گزارتا رہے گا، اسے نوکری چھوڑ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے استاد پینٹر سے برس ہا برس کا ناتا توڑ لیا اور محلے میں ایک دکان کرایہ پر لے کر اپنی پینٹر شاپ بنا لی۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب لوگ ہاتھ سے لکھے گئے بینرز کی جگہ پینا فلیکس کو ترجیح دینے لگ گئے تھے اور پینٹرز کا کام ٹھپ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ حالی کی دکان کھلی تو گاہک ندارد۔ استاد پینٹر کے پاس رہ کر جو چار آنے ہاتھ آ جاتے تھے، وہ ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔

اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک دن اس کی دکان پہ ایک شخص دو بینر لکھوانے کے لیے آیا جن کی تحریر کچھ یوں تھی ”قسطوں پر روم کولر حاصل کریں، رابطہ نمبر فلاں فلاں۔“ یہ اوائل مئی کے دن تھے گرمی کی شدت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا تھا۔ حالی نے بینرز لکھ کر تیار کر دیے مگر وہ شخص کئی دن تک بینرز اٹھانے نہ آیا۔ آخر ایک دن حالی کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا، اس نے بینرز سے اس شخص کے رابطہ نمبرز مٹائے اور اپنا فون نمبر لکھ کر محلے میں مناسب جگہوں پر یہ بینرز لگا دیے۔

تین چار دن کے بعد ایک شخص آیا اور حالی سے قسطوں والے کولر کی بابت دریافت کرنے لگا۔ حالی نے بتلایا کہ 4000 ایڈوانس دے کر باقی رقم 12 ماہ کی برابر اقساط میں ادا کرنی ہوگی۔ گاہک نے کولر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے کہا آپ ایڈوانس دے دیں، چار دن کے بعد کولر یہاں سے آ کر لے جائیں۔ گاہک نے چار ہزار کی رقم حالی کو تھما دی اور چلتا بنا۔ حالی سیدھا مارکیٹ گیا چار ہزار روپے کا کپڑا خریدا اور ”قسطوں پر کولر دستیاب ہیں“ کے پچاس مزید بینرز تیار کر لیے اور علاقے میں جگہ جگہ لگا دیے۔

گرمی کی ماری پبلک کثیر تعداد میں حالی کی دکان کا رخ کرنے لگے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر حالی پچاس کولرز کا آرڈر لے کر ایڈوانس کی مد میں تقریباً دو لاکھ روپے لوگوں کی جیبوں سے نکلوا چکا تھا۔ کولر لینے والے آتے تو وہ انھیں نت نئی کہانیاں سنا کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا مگر یہ سلسلہ چلتا بھی تو کہاں تک؟ بات گالی گلوچ سے ہوتی ہوئی لڑائی مار کٹائی تک آن پہنچی تو آخر کار ایک دن حالی نے چپکے سے دکان کے کواڑ بھیڑے اور غائب ہو گیا۔

لوگوں نے ڈھونڈنے کی اپنی سی کوشش کی مگر بے سود۔ مالک دکان نے کئی دن بعد تالے کھولے تو پینٹ کے چند سوکھے ڈبے اور برش کے علاوہ کچھ نہ پایا۔ چار چار ہزار روپے ادا کر کے کولر کی ٹھنڈک بھری ہوا میں بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے سیخ پا تو بہت ہوئے مگر کچھ دن میں رو پیٹ کر بیٹھ گئے۔ حالی جو دو وقت کی روٹی سے تنگ تھا اس کے ہاتھ دو لاکھ روپے کی خطیر رقم کے ساتھ لوگوں کی ایک بہت بڑی کمزوری بھی لگ گئی تھی۔ اسی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اس نے ایک اور ”یدھ“ میں اترنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

اپنے پہلے علاقہ واردات سے کہیں دور اس نے ایک چھوٹا سا سجا سجایا دفتر کرایہ پر لے کر ایک لیڈی ریسیپشنسٹ کو ملازمت پہ رکھ لیا۔ تقریباً ایک لاکھ روپے کے مزید بینرز بنائے جن پر جلی حروف میں درج تھا ”دو لاکھ روپے ایڈوانس میں سوزوکی مہران کار لے جائیں۔“ بینرز کا لگنا تھا کہ لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ آتے اور معلومات کے کر چلے جاتے۔ جو کوئی زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتا حالی اسے خود ڈیل کرتا اور اس کے تمام تحفظات کو تسلی بخش انداز میں رفع کرتا۔

کچھ دن کی تگ و دو کے بعد پہلے کسٹمر نے دو لاکھ روپے جمع کروا دیے، جس کو گاڑی ٹھیک ایک ماہ کے بعد دینے کا وعدہ کر کے رخصت کر دیا گیا۔ یکے بعد دیگرے گاہک آنے لگے اور حالی کی لچھے دار باتوں میں آ کر ایڈوانس جمع کرانے لگے۔ کچھ ہی عرصہ میں حالی نے 25 کاروں کا ایڈوانس جمع کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک عدد پینا فلیکس مشین منگوائی اور ایک بڑا ہال کرایہ پر لے کر اپنے بنیادی کام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا قصد کیا۔

کار کا ایڈوانس دینے والے ایک ماہ کے اختتام کا شدت سے انتظار کر رہے تھے ادھر ہر گزرتے دن پر حالی کو اپنا انجام قریب ہوتا نظر آ رہا تھا۔ مدت پوری ہونے پہ لوگوں نے حالی سے تقاضا کیا تو وہ انھیں نت نئی کہانیاں سنا کر ٹالنے کی کوشش کرنے لگا۔ بات گالی گلوچ سے ہوتی ہوئی ایک بار پھر لڑائی مار کٹائی تک آن پہنچی۔ کچھ قانونی ٹائپ کے لوگوں نے پولیس سے رجوع کیا اور مل کر حالی پہ فراڈ کا پرچہ کروا دیا۔ پولیس آئی حالی کو گرفتار کر کے لے گئی۔

ایڈوانس رقم جمع کرانے والوں نے حالی کے دفتر اور پینا فلیکس مشین والے ہال میں توڑ پھوڑ کی اور جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا کر لے گیا۔ حالی کے پاس مدعیان کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا سو عدالت نے اسے جیل بھیج دیا۔ لوگ اپنے دو دو لاکھ اور چار چار ہزار بھول بھال گئے۔ حالی دو سال جیل کاٹ کر باہر آیا تو میں اس کی بدلی ہوئی ہیئت دیکھ کر حیران و پریشاں ہو گیا۔

چائے کے دوران میں نے پوچھا ”حالی! تم نے اتنے سارے لوگوں سے کاروں کا ایڈوانس لیا، کیا کسی کو کار دی بھی تھی؟“ ”ہاں ایک شخص تھا جسے میں نے کار دی تھی۔“ وہ پر اعتماد مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ”کون تھا وہ خوش قسمت؟“ میں نے استفسار کیا۔ حالی نے دائیں بائیں نظریں گھمائیں اور اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر بولا ”میں ہی تھا وہ خوش قسمت، جس کو میں نے ایک ہنڈا سٹی کار دی تھی، باقی سب کو کھڑک پہ ہی خوش رکھا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments