معصوم عثمانی: اک ہیرا آدمی


یہ 1973 کے موسم گرما کی بات ہے۔ ایک دن، تیسرے پہر، ریڈیو پاکستان کے سینیئر رپورٹر تنویر صدیقی ایک بزرگ اور ایک نوجوان لڑکے کے ساتھ پاکستان ٹیلیویژن کے چکلالہ سنٹر پہ آئے۔ ان دنوں رضی احمد رضوی نیوز ایڈیٹر ہوتے تھے، وہ اس وقت نیوز روم میں نہیں تھے، اتفاق سے میں موجود تھا۔ رپورٹنگ کے حوالے سے تنویر صدیقی سے ہماری یاد اللہ تھی۔ صدیقی صاحب نے بزرگ کا تعارف کرایا: ”موسٰی عثمانی صاحب ہیں، ہمارے سینیئر ٹرانسلیڑ، اور یہ ان کا برخوردار ہے، معصوم“۔ یہ اگر لڑکے کا نام تھا، تو چھریرے بدن کا یہ سانولا سا لڑکا واقعی اسم با مسمٰی تھا، بھولا بھالا، دیکھنے میں سچ مچ معصوم۔ سلام دعا کے بعد تنویر صدیقی کہنے لگے : ”میں اس بچے کو آپ کے اور رضوی صاحب کے پاس لایا ہوں، اسے کام سکھا دیں“۔ میں پریشان ہوا، مجھے اپنی حیثیت کا اندازہ تھا کہ ساری پھنے خانی کے باوجود ہوں تو محض نیوز پروڈیوسر یا رپورٹر، تنویر صاحب مجھے کس آزمائش میں ڈال رہے ہیں۔ انکار میں کچھ کہنے اور کوئی بہانہ بنانے کی بھی گنجائش نہیں تھی کہ اس میں اپنا ہی بھرم ٹوٹ جاتا اور سبکی ہوتی۔ میں نے رسمی جملوں کا سہارا لیا: ”آپ تشریف رکھیں، بات کرتے ہیں“۔ نائب قاصد کو چائے کے لئے بولا اور مہمانوں سے ریڈیو پاکستان کے حالات اور ایک دو جاننے والوں کے بارے میں ہلکی پھلکی گفتگو شروع کر دی۔ موسٰی عثمانی صاحب کے چہرے پہ خشونت کی حد تک سنجیدگی تھی، انہوں نے ہوں، ہاں کے علاوہ گفتگو میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ہاں، وقفے وقفے سے نگاہ اٹھا کے ہمارے نیوز روم کی ناگفتہ بہ حالت کا جائزہ لیتے رہے، مختلف رنگ اور مختلف سائز کی تین بے ڈھب میزیں، پانچ چھ کرسیاں جن میں سے ایک آدھ ٹوٹی ہوئی، شمال مغربی کونے میں، کھڑکی کے ساتھ، نیوز ایڈیٹر کی بیضوی میز اور پرانی سی بید سے بنی کرسی، کمرے کے جنوبی حصے میں دو چھوٹی میزوں پر دو انگریزی ٹائپ رائٹر جن پہ بازو رکھے دو سٹینو گرافر اونگھ رہے تھے، ان کے برابر میں ریکارڈ کیپر کی میز اور اس پر چند رجسٹر اور فائلوں کی چھوٹی سی ڈھیری، دروازے کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹی سی میز اور دو کرسیاں جن پہ چار کیمرا مین باری باری بیٹھتے تھے۔ یہ تھا کل نیوز روم۔

نیوز سٹاف بھی مختصر تھا، ایک نیوز ایڈیٹر (جو شعبے کا سربراہ تھا) اور پانچ نیوز پروڈیوسرز جو رپورٹنگ بھی کرتے تھے، ڈیسک پہ خبریں بھی ڈرافٹ کرتے تھے، اور بلیٹنز کی پروڈکشن بھی۔ خبر نامے کی تیاری کا بوجھ بانٹنے کے لئے دو مترجم حسن محمد اور سید محمد عارف بھی، شام کے وقت، نیوز روم میں قدم رنجہ فرماتے تھے، لیکن دونوں تھے برق رفتار، خبر نامے کے لئے خبروں کے ترجمے کا زیادہ بوجھ انہی کے کندھوں پہ تھا۔ ابھی چائے آئی نہیں تھی کہ رضوی صاحب بھی تشریف لے آئے۔ انہوں نے تنویر صدیقی اور موسٰی عثمانی سے بڑے تپاک سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ تنویر صدیقی نے ان سے بھی، معصوم کا تعارف کراتے ہوئے، وہی بات کی جو مجھ سے کر چکے تھے۔ اب پریشان ہونے کی باری رضوی صاحب کی تھی۔ انہوں نے گھور کے مجھے دیکھا، پھر اپنی لمبی زلفوں پر بایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے کھنگارے اور گویا ہوئے: ”وہ، در اصل، ابھی ہمارے ہاں گنجائش نہیں، اور ویسے تو آپ بھی جانتے ہیں کہ تقرری تو ہیڈ آفس سے ہوتی ہے، اور اس کا ایک طریق کار ہے“۔ تنویر صدیقی بولے : ”جی ہاں، وہ تو ہے۔ لیکن میں نوکری کی بات تھوڑی کر رہا ہوں، ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسے کچھ کام سکھا دیں“۔ رضوی صاحب نے سر کھجایا، میری طرف دیکھا، اور بولے : ”یہ کیسے ہو گا، یعنی؟“۔ اب بات کو آگے بڑھانا میرا اخلاقی فرض تھا۔ میں نے عرض کیا: ”نثار صاحب سے اور زبیر صاحب سے بات کر کے دیکھ لیں، شاید کوئی صورت نکل آئے“۔ رضوی صاحب نے لمبی ہوں کھینچی اور کہا : ”اچھا، دیکھتے ہیں“۔ زبیر علی ڈائریکٹر نیوز تھے اور نثار صاحب سنٹر کے جنرل مینیجر، یعنی ہمارے افسر بالا یا Immediate Boss۔ پاکستان ٹیلیویژن میں دو نثار ہوتے تھے۔ یہ والے جنرل مینیجر، نثار حسین تھے جو NHK کہلاتے تھے، اور ان کا شمار اچھے پروڈیوسرز میں ہوتا تھا، اور دوسرے نثار تھے، مشہور ڈراما پروڈیوسر محمد نثار حسین جو MNH کہلاتے تھے، وہ لاہور سنٹر پہ ہوتے تھے۔

تنویر صدیقی اور موسٰی عثمانی تو چائے وائے پی کر رخصت ہو گئے، اور اس معصوم سے گھبرائے ہوئے لڑکے کو پیچھے چھوڑ گئے جو کبھی رضوی صاحب کو دیکھتا اور کبھی آہوئے رم خوردہ کی طرح سہمی سہمی نظروں سے نیوز روم کے ماحول کا جائزہ لیتا جہاں شام اترنے کے ساتھ افراتفری بڑھتی جا رہی تھی۔

چھ بجے کی انگریزی خبروں کے بعد رضوی صاحب، مجھے ساتھ لے کر، جنرل مینیجر کے دفتر گئے اور اس ”معصوم“ سے معاملے پر نثار صاحب کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بات سنتے ہی نثار صاحب نے اپنی گردن، انکار میں، دائیں بائیں ہلائی، زبان کو دائیں طرف سے تالو کے ساتھ ملانے کی مخصوص حرکت کے ساتھ منہ سے ”کککک“ کی آواز نکالی اور کہا:

How is it possible؟ Rizvi، you have to have regard for rules
یہ نثار حسین کا اپنا انداز تھا۔ وہ have to have بڑی شد و مد سے بولا کرتے تھے۔

رضوی صاحب نے بھرپور انگریزی کے ساتھ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ نوکری دینے کا معاملہ نہیں، یوں سمجھ لیں کہ ایک قسم کی انٹرن شپ ہے، آپ اسے cub reporter سمجھ لیں، جو بغیر تنخواہ کے کام کرے گا۔ نثار صاحب کو یہ دونوں اصطلاحیں اچھی لگیں، وہ ڈھیلے پڑنے لگے، اور کچھ سوچ کر بولے : ”زبیر سے بات کر لو، لیکن اس لڑکے کو ذمے داری کوئی نہ سونپنا“۔ یوں، پہلا مرحلہ آسانی سے طے ہو گیا۔

نیوز روم میں واپس آ کر رضوی صاحب نے زبیر علی صاحب کو فون کیا، اور معصوم کے بارے میں ان کی اجازت چاہی۔ زبیر صاحب نے بھی کچھ اسی طرح کی قاعدے، قانون اور سرکاری ضابطوں کی بات کی۔ رضوی صاحب نے یہ کہہ کر، کہ جب نثار صاحب سے بات ہوئی تو شکور صاحب بھی موجود تھے، فون مجھے تھما دیا۔ نئے سرے سے ڈائریکٹر نیوز سے پوری بات کرنا پڑی۔ لیکن انہیں بات سمجھائے کون، اور کیسے؟ زبیر صاحب کو قائل کرنا کارے دارد۔ بات لمبی ہو گئی، فون کبھی میرے ہاتھ میں ہوتا، اور کبھی رضوی صاحب کے۔ آخر زچ ہو کر زبیر صاحب نے کہا: ”اچھا بابا، کر لو، جو چاہتے ہو، لیکن نوکری کا وعدہ نہ کرنا“۔

ڈائریکٹر نیوز کی اجازت ملنے پر رضوی صاحب نے لمبی سانس لی، فاتحانہ نظر سے مجھے اور دوسرے عملے کو دیکھا، انگلیوں سے اپنی زلفیں سنواریں (جی ہاں! اس زمانے میں رضوی صاحب کی خاصی گھنی سایہ دار زلفیں ہوتی تھیں، اور امتداد زمانہ کا ان کے رنگ روپ پہ کوئی اثر نہیں پڑا تھا) اور حکم جاری کیا: ”دیکھو، معصوم میاں، کل سے ڈھائی بجے آ جایا کرو، اور ہاں شور مچانے کی ضرورت نہیں کہ کاہے کو آتے ہو، کام سیکھنے پہ توجہ دینا“۔ معصوم نے بڑی سعادت مندی سے سر جھکا کر ”جی، سر“ کہا۔ بیچارے کو کیا پتا تھا کہ اب اس کا معصومیت کا دور ختم ہونے کو ہے، اور ظالم سماج سے پالا پڑنے والا ہے۔

اس معصوم نے، جی نہیں، معصوم عثمانی نے اپنی ساری معصومیت اور بھولپن طاق پہ رکھا اور نہایت سگھڑاپے کے ساتھ پہلے ہی دن سے کام میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ کوئی ناز نخرہ نہیں، کوئی بہانہ نہیں۔ کام کرنے سے اس کے ہاتھ میلے نہیں ہوتے تھے۔ اس نے خبر کا ترجمہ کرنے کا فن سیکھنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی پرنٹر سے کریڈ (creed) اتارنے، نیوز فلمیں لیباریٹری میں لے جانے، فلم آرڈر کنٹرول روم اور فلم ایڈیٹنگ میں پہنچانے اور حسن صاحب اور عارف صاحب کو کاربن پیپر لگے کاغذ تک فراہم کرنے میں کوئی عار نہ سمجھی۔ کاربن پیپر لگے کاغذ؟ جی، اس زمانے میں نیوز روم میں نہ کمپیوٹر ہوتا تھا، نہ الیکٹرک یا مینوئل اردو ٹائپ رائٹر۔ انگریزی کی خبریں تو بہر حال ٹائپ ہوتی تھیں، بھلے سال خوردہ مینوئل ٹائپ رائٹر ہی پہ ہوتی تھیں، لیکن خبرنامے میں شامل کی جانے والی خبریں کاربن پیپر لگے چار کاغذوں کے سیٹ (set ) پر بال پوائنٹ کے ساتھ ہاتھ اور بازو کا پورا زور لگا کر لکھی جاتی تھیں (گویا خبر نامہ بڑے زور سے تیار ہوتا تھا، کچھ حکومت کا زور، اور کچھ نیوز کے عملے کا)۔ ہاں، تین سال پہلے مصلح الدین صاحب جب لاہور سنٹر کے نیوز ایڈیٹر تھے، وہ اردو کا برقی ٹائپ رائٹر اپنے نیوز روم کے لئے منگوا چکے تھے، اور انگریزی کی طرح، اردو خبریں بھی صاف ستھرے انداز میں ٹائپ ہوتی تھیں جس کی بدولت نیوز کاسٹر کو، الجھے اور اٹکے بغیر، روانی کے ساتھ، خبریں پڑھنے میں سہولت رہتی تھی (اگر پھر بھی مظفر صاحب جیسا نیوز کاسٹر اٹکتا، لڑکھڑاتا یا fumble کرتا تو یہ اس کا اپنا کمال فن ہوتا، یا بے ربط خبر لکھنے والے کی کرامت)۔ تاہم، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد سنٹرز اردو ٹائپ رائٹر کی نعمت سے محروم تھے، اور خبریں ہاتھ سے لکھنے کا وہی رواج تھا جو ریڈیو سے ورثے میں ملا تھا۔

معصوم عثمانی کو کوئی بھی کام کرنے میں جھجک تھی، نہ سیکھنے میں۔ وہ نیوز سے متعلق ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا، اور اسے جو بھی کام سونپا جاتا، محنت، لگن اور ذمے داری سے کرتا۔ ذمے داری کا یہ احساس اسے، شاید، اپنے والد سے ملا تھا، حالانکہ وہ دیکھنے میں خاصے لاابالی سے لگتے تھے، لیکن ریڈیو میں ان کی شہرت ایک سخت گیر پروفیشنل کی تھی۔

عثمانی سہ پہر کی شفٹ شروع ہونے سے گھنٹہ بھر پہلے ہی نیوز روم پہنچ جاتا۔ یہ سہ پہر کی شفٹ والی بات نرا مبالغہ ہے، رنگ آمیزی ہے، بلکہ سراسر جھوٹ ہے۔ کوئی شفٹ وفٹ نہیں ہوتی تھی۔ نائب قاصد، اپنی مرضی کے مطابق، کبھی صبح آٹھ بجے، کبھی نو بجے نیوز روم کھولتا، فراش کو بلا کے صفائی کراتا، موڈ ہوتا تو میز کرسیوں کی جھاڑ پونچھ کرتا، رات کے بکھرے ہوئے کاربن پیپر اکٹھے کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈالتا، اس دن کے آنے والے اخبار سنبھالتا، اور نیوز ایڈیٹر کی میز کے پاس، بلکہ نیوز ایڈیٹر کی کرسی پہ، ڈٹ کے بیٹھ جاتا تاکہ اگر کوئی فون آئے تو پوری ذمے داری کے ساتھ سن سکے، اور نیوز کوریج کی ہر فرمائش نوٹ کر سکے۔ دس بجے کے قریب ایک سٹینو خراماں خراماں نیوز روم میں داخل ہوتا اور لہکتے، مٹکتے، نیوز ایڈیٹر کی میز کے پاس جا کے نائب قاصد سے نیوز روم کا چارج لے لیتا۔ ساڑھے دس گیارہ بجے کے قریب رضوی صاحب نمودار ہوتے، اور (تقریباً خالی، بلکہ بھاں بھاں کرتا) نیوز روم ان کے جلال و جمال سے دمک اٹھتا۔ جن نیوز پروڈیوسرز کی کسی کوریج پہ ڈیوٹی نہ ہوتی، وہ بھی افتاں و خیزاں بارہ، ایک بجے تک نیوز روم پہنچ جاتے، کچھ گپ شپ ہوتی، کچھ گزری شب کی کتھا سنی سنائی جاتی، نقی عباس انگریزی ڈیسک پہ براجمان ہوتا، کاپی سارٹ آؤٹ (sort out) کرتا، دونوں سٹینو گرافر اپنی شارٹ ہینڈ کی کاپیاں سنبھالتے اور دھیرے دھیرے کام شروع ہو جاتا۔

چھوٹی خبریں (پانچ منٹ کا اردو بلیٹن)، پنجابی اور پشتو کی خبریں، انگریزی کی خبریں، ہر بلیٹن کے لئے عثمانی کو کچھ نہ کچھ کام کرنا پڑتا۔ وہ اردو میں ایک دو خبریں بناتا، کیمرا مین نیوز کوریج کر کے جو فلمیں لاتے ان کی ایڈیٹنگ کرانے میں معاونت کرتا، نیوز کاسٹر کو ریہرسل کراتا، فلم آرڈر کے مطابق بلیٹن ترتیب دینے میں ہاتھ بٹاتا، اور بلیٹن کی پروڈکشن کے وقت نیوز پروڈیوسر کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ یوں، اس نے سارے تربیتی مراحل بڑی تیزی سے طے کر لئے، اور جو کام سیکھنے میں کئی مہینے لگ سکتے تھے، اس نے چند ہفتوں میں سیکھ لئے۔ اس محنت، مشقت کے جذبے نے جہاں عثمانی کو خود اعتمادی بخشی، وہاں اس کے سینیئر ساتھی بھی اس کی تن دہی اور جانفشانی کی قدر کرنے لگے۔ نیوز ایڈیٹر کا دل جیتنے میں عثمانی کی انتھک محنت اور لگن کا بڑا دخل تھا۔ رضوی صاحب اس کے کام سے خوش تھے، اور ان کی آنکھیں بولتی تھیں کہ ”ارے، یہ لمڈا تو بڑے کام کا نکلا“۔

تین چار مہینے کے اس تربیتی عرصے میں معصوم عثمانی کے جوہر کھلے تو اس کے لئے ملازمت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ رضوی صاحب نے (اور تھوڑا بہت میں نے بھی) جنرل مینیجر اور ڈائریکٹر نیوز کو قائل کیا اور ان کی رضامندی سے عثمانی کو کنٹریکٹ پر مترجم رکھ لیا گیا، لیکن، عملی طور پر، اس کے فرائض میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ پروڈکشن میں ہاتھ بٹانا بھی تھا، اور عثمانی نے ہاتھ بٹایا بھی خوب۔ فلم ایڈیٹنگ اور بصری مواد (visuals) کی ترتیب میں دلچسپی نے جلد ہی اس کے لئے پروڈکشن کے دروازے کھول دیے، اور پھر تو وہ پروڈکشن پینل (production panel) پہ ایسا جما، ایسا جما کہ عثمانی اور نیوز پروڈکشن، ایک ہی سکے کے دو رخ ہو گئے۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ معصوم عثمانی نے مترجم سے نیوز پروڈیوسر بننے کا سفر کتنے عرصے میں طے کیا، اور اس میں بطور نیوز ایڈیٹر میرا کیا رول (role) تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں عثمانی کا تصور ہمیشہ نیوز پروڈیوسر ہی کا رہا۔

رپورٹر کی محنت اور مہارت تبھی کام آتی ہے جب اسے اچھے پروڈیوسر کی معاونت حاصل ہو۔ میں خوش قسمت تھا کہ مجھے رپورٹر اور نیوز ایڈیٹر کی حیثیت میں معصوم عثمانی کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔ اندرون ملک کسی واقعے یا ایونٹ (event) کی کوریج ہو یا بیرون ملک سے اہم واقعات کی، عثمانی کی معاونت رپورٹ میں بصری نکھار پیدا کر دیتی تھی۔ میں، یا اور بھی رپورٹرز، جب بیرون ملک کسی کوریج پہ جاتے تھے تو ہماری خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ ہماری سیٹلائٹ کی ہوئی کوریج کو سنبھالنے، اسے بنانے سنوارنے اور اس کوریج سے اچھی رپورٹیں تیار کرنے کی ذمے داری معصوم عثمانی یا مجدد شیخ کے سپرد کی جائے، اور یہ دونوں ایسی ذمے داری نبھاتے بھی خوب تھے۔

میں نے 1973 سے وفاقی بجٹ کی رپورٹنگ شروع کی اور تقریباً 30 سال بجٹ رپورٹ کیا۔ 1970 اور 1980 کی دہائی میں ہم، (یعنی میں، عثمانی، انگریزی اور اردو کے سیکریٹری اور خطاط) ، بجٹ والے دن، صبح فجر سے تھوڑی دیر بعد ، اسلام آباد میں سینٹرل بورڈ آف ریوینیو کے دفتر پہنچ جاتے جہاں ہمیں، اور ریڈیو پاکستان کی ٹیم کو، وزارت خزانہ کے عملے کی طرح، CBR کی عمارت میں بند کر دیا جاتا (اس زمانے میں CBR ہوتا تھا، ایف بی آر بعد میں بنا)۔ اس عمارت میں واقع دفتروں کے ٹیلی فون منقطع ہوتے، کھانے، اور چائے پانی کا انتظام اس عمارت کے اندر ہی ہوتا، اور ہم شام کو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں ٹیکس تجاویز کے اعلان تک اس عمارت میں ”مقید“ رہتے۔ اسی ایک دن کی قید کے دوران ہماری ”مشقت“ ہوتی تھی: بجٹ کی خبر تیار کرنا۔ آدھ گھنٹے کے خبرنامے میں، کم و بیش، 25 منٹ کی خبر بجٹ کی ہوتی تھی، اور بعض اوقات تو بجٹ کی خبر زیادہ تفصیلی ہونے کی وجہ سے خبرنامے کا دورانیہ بھی چالیس پینتالیس منٹ ہو جاتا تھا۔ اتنی طویل خبروں کو بصری رنگ دینے یا visualise کرنے، اور اس دن خبر نامہ پروڈیوس کرنے کا کام پہلے معصوم عثمانی اکیلے کرتے تھے اور 1984 سے عثمانی اور مجدد شیخ مل کر کرنے لگے۔ بجٹ کی اچھی کوریج کو پی ٹی وی کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا، اور ڈائریکٹر نیوز کی طرف سے خبر نامے کے بعد نیوز کے عملے کے لئے عشائیے کی پر تکلف دعوت ہوتی تھی۔ یہ روایت برسہا برس جاری رہی۔

میرے ساتھ معصوم عثمانی کا تعلق ایک اور حوالے سے بھی تھا۔ 1973 کے بعد میں نے جو بھی دستاویزی فلمیں بنائیں یا دستاویزی پروگرام کیے، ان سب کی تدوین عثمانی نے کی۔ یہ کارگزاری عثمانی کے عمومی فرائض سے ہٹ کر تھی۔ اس کی پرخلوص معاونت کے بغیر میری یہ دستاویزی فلمیں اور پروگرام کامیاب نہ ہوتے، لیکن عثمانی نے اس کام میں نہ کبھی ناز و انداز دکھائے اور نہ کبھی اپنی معاونت کا کوئی احسان جتلایا۔

معصوم عثمانی نے پاکستان ٹیلیویژن نیوز کے لئے بہت کام کیا، لیکن پی ٹی وی نے بھی اس کے کام کی قدر کی۔ شاید ہی ٹیلیویژن کا کوئی افسر، یا عثمانی کا کوئی معاصر، ایسا ہو جس نے کبھی اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں یا تکنیکی مہارت پہ انگلی اٹھائی ہو یا اسے ہدف تنقید بنایا ہو۔ 1980 کے عشرے کے اوائل میں پی ٹی وی نے سال بھر کی مجموعی عمدہ کارکردگی پر حوصلہ افزائی (Incentive) ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کے تحت ایوارڈ حاصل کرنے والے کو اگلے سال کے لئے ہر مہینے، تنخواہ کے ساتھ، ایک معقول رقم الاؤنس کے طور پہ دی جاتی تھی۔ آج سونے کے نرخ کے لحاظ سے یہ رقم ستر اسی ہزار روپے سے کم نہیں ہو گی۔ یہ سلسلہ دو تین سال جاری رہا۔ ایوارڈ کی دو کیٹیگریز تھیں، اے اور بی۔ اے کیٹیگری والے کو بی کے مقابلے میں دگنی رقم دی جاتی تھی۔ نیوز کے شعبے سے، بی کیٹیگری میں تین افراد، ثمینہ قریشی، خالدہ مظہر اور معصوم عثمانی کو یہ الاؤنس ملتا رہا۔ اے کیٹیگری میں گنتی کے چند افراد کو یہ ایوارڈ ملا۔ ان میں پروگرام کے شعبے سے شہزاد خلیل اور یاور حیات، کیمرا ڈیپارٹمنٹ سے نثار مرزا، انجنئیرنگ سے محمد کامل، اور نیوز سے یہ خاکسار شامل تھے۔

عثمانی بہت اچھا پروفیشنل تو تھا ہی، لیکن وہ بہت اچھا انسان بھی تھا، نرم خو، دلنواز، خوش مزاج، خوش ذوق، خوش گفتار، خوش اطوار اور خوش اخلاق۔ اس نے شاید ہی کبھی کسی کا دل دکھایا ہو، یا کبھی کسی سے اس کی بدمزگی ہوئی ہو۔ وہ تو دوسروں کے کام آنے والا آدمی تھا۔ دوسروں کی مدد کر کے اسے خوشی ہوتی تھی، اور اس سلسلے میں وہ اپنے تعلقات بروئے کار لانے سے کبھی گریز نہیں کرتا تھا۔ میرے علم میں ہے کہ اس نے بھاگ دوڑ کر کے کئی لوگوں کے برسوں کے رکے ہوئے کام کرائے۔

ہم سب بندہ بشر ہیں، خطا کے پتلے، بھول چوک اور غلطی ہماری گھٹی میں ہے۔ اس کا نام معصوم تھا، لیکن وہ معصوم عن الخطا نہیں تھا۔ بشری غلطیاں اس سے بھی ہوئی ہوں گی، لیکن کچھ معاملات غلطیوں سے نہیں غلط فہمیوں سے جنم لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ مجھے اس وقت یاد آ رہا ہے۔ غالباً 1974 کی بات ہے۔ عثمانی کا عنفوان شباب تھا، یعنی چڑھتی جوانی کے دن۔ میں نیوز روم میں بیٹھا تھا، صبح کوئی گیارہ، ساڑھے گیارہ کا وقت ہو گا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھا کے ”ہیلو“ ہی کہا تھا کہ دوسری طرف سے نسوانی آواز میں ملاحیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی: ”جھوٹے، فریبی، مکار، دغا باز، کمینے۔“ میں چکرا گیا کہ یہ کیا مصیبت آن پڑی۔ خود پہ ضبط کر کے نرم لہجے میں پوچھا: ”کس سے بات کرنی ہے، بی بی؟“۔ ناری دو آتشہ تھی، کہاں رکنے والی تھی، اسی لہر میں بولی: ”تم سے، فریبی“۔ ”مجھ سے؟“ میں نے تیکھے سے لہجے میں کہا، تو وہ ٹھٹھکی، اور کچھ گھبرا کے بولی: ”تم معصوم نہیں ہو؟“۔ میں نے کہا: ”معصوم تو ہوں، پر اتنا بھی نہیں“۔ وہ سنبھل گئی اور سوری کہہ کے فون بند کر دیا۔ کوئی دو گھنٹے بعد معصوم صاحب کی تشریف آوری ہوئی تو میں نے اس فون کال کی تفصیل بتائی۔ میری بات سن کے عثمانی نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور لاپرواہی سے بولا: ”خوامخواہ پیچھے پڑ گئی ہے، غلط فہمی کا شکار ہو گئی ہے، سمجھایا بھی ہے، باز نہیں آئی۔ شاید، فون پہ آپ کی آواز مجھ سے ملتی ہے، اس لئے آپ کو سننا پڑیں“۔

پتا نہیں وہ عفیفہ سمجھ پائی یا نہیں، موسٰی عثمانی ضرور سمجھ گئے ہوں گے۔ کچھ عرصے بعد وہ بیٹے کی بارات لے کے کراچی گئے اور معصوم کے لئے ایک کومل سی لڑکی بیاہ لائے، کنول۔ عثمانی ہمارے لئے بیٹوں کی طرح تھا، اس کی شادی پہ خوشیاں منائی گئیں، خوب دعوتیں ہوئیں، اور عثمانی کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ اللہ نے اسے اولاد کی نعمت سے نوازا جن کی عمدہ تعلیم و تربیت کے لئے عثمانی نے دن رات ایک کر دیے۔

عثمانی نے پی ٹی وی میں ذمے داری کے احساس اور فرض شناسی کے ساتھ کام کیا۔ اس میں محنت کا جذبہ تھا، اور وقت کی قدر تھی اسے۔ اس نے اپنا اضافی وقت کام میں مہارت حاصل کرنے، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرنے اور اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کو جلا دینے پر صرف کیا۔ اس مقصد کے لئے معصوم عثمانی نے ایسے اداروں کے پروگراموں اور دستاویزی فلموں کی تدوین کے لئے خدمات انجام دیں جو سائنسی موضوعات سے دلچسپی اور مختلف سماجی مسائل کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے، کسی نہ کسی دائرے میں، یا کسی نہ کسی انداز میں، کوشاں تھے۔ اس ضمن میں اسے سید محمد عارف، مشتاق صدیقی اور جمشید فرشوری کا تعاون حاصل رہا۔

معصوم عثمانی کا خاندان ایک لحاظ سے مذہبی تھا اور اس کی پرورش دینی ماحول میں ہوئی تھی۔ دینی ماحول کا مطلب کٹر ملائیت ہرگز نہیں، بس ایسا ماحول جس میں عقائد کی درستی، دینی فرائض کی ادائیگی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ وابستگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے والد موسٰی عثمانی قرآن پاک کے حافظ اور بڑی حد تک شریعت کے پابند تھے۔ ان کے خاندان کا تعلق پانی پت سے تھا، جہاں حفظ قرآن اور تجوید و قرآت کی روایت بہت قدیم بھی ہے، اور نہایت پختہ بھی۔ میرے اپنے شہر گوجرانوالہ میں سینکڑوں پانی پتی خاندان آباد تھے جن کے بہت سے افراد حافظ قرآن اور قاری تھے۔ یہ پانی پتی خاندان جن گلی محلوں میں آباد تھے وہاں کی مسجدوں میں رمضان المبارک کی راتوں میں خوب رونق رہا کرتی تھی، اور خاص طور پہ آخری عشرے میں تو رونق دوبالا ہو جاتی تھی۔ ان مسجدوں میں دس دنوں تک شبینے کی محفلیں ہوتی تھی۔ مجھے اپنے لڑکپن کے دن یاد ہیں۔ آخری عشرے میں پاکستان کے مشہور قاری فتح محمد مرحوم، جو استاذ القرآ یا قاریوں کے بزرگ ترین استاد سمجھے جاتے تھے، دو تین دن کے لئے گوجرانوالہ تشریف لاتے تھے، اور ہر رات مختلف مسجدوں کے شبینے میں ایک ایک پارہ سناتے تھے۔ دور دور سے لوگ ان کی قرآت سننے کے لئے آتے اور ہر مسجد میں نمازیوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ گرمی کے موسم میں ململ کا سفید کرتا، لٹھے کا آڑی تراش کا سفید پاجامہ، اور سفید ٹوپی زیب تن کیے قاری فتح محمد مرحوم کی تصویر میرے ذہن کی لوح پہ نقش ہے۔ وہ ہر مسجد میں دو رکعت پڑھاتے اور سبع قرآت کے کسی ایک رنگ میں ایک پارے کی تلاوت کرتے۔ قاری فتح محمد پانی پتی آخری عمر میں مدینہ منورہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کا انتقال وہیں ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

موسٰی عثمانی نماز روزے کے پابند تو تھے، لیکن کٹھ ملا نہیں تھے، مزاج میں قدرے خشکی تھی، لیکن کبھی شگفتگی کی لہر بھی آ جاتی، اور اگر طبیعت جلال میں آتی تو طنز بھرا سخت جملہ بھی کہہ جاتے۔ ایک دن معصوم خود ہی کہنے لگا کہ لو، جی، ابا کی سنو، کل میں تاخیر سے ظہر کی نماز پڑھنے مسجد گیا، واپس آ کے بیٹھا ہی تھا کہ عصر کی اذان ہو گئی، میں ٹوپی پہن کے مسجد جانے کو نکلا، تو ابا نے دیکھ لیا۔ پوچھنے لگے ”اب کہاں؟“۔ میں نے بتایا کہ عصر پڑھنے مسجد جا رہا ہوں، برہم ہو گئے اور بولے : ”ایک اس الو کے پٹھے کو دیکھو، جب جی چاہتا ہے، منہ اٹھا کے نماز پڑھنے مسجد چلا جاتا ہے“۔

معصوم عثمانی کے لئے صحافت کی وادی کوئی دیار غیر نہیں تھی۔ ان کے والد ریڈیو نیوز سے وابستہ تھے، اور بعض دوسرے رشتے دار بھی کسی نہ کسی انداز میں اخبار نویسی سے تعلق رکھتے تھے۔ رشتے کے ایک چچا خاصا عرصہ روزنامہ تعمیر میں رہے اور پھر شاید کسی اخبار کے ایڈیٹر بھی ہو گئے تھے۔ رشتے کے ایک اور چچا، فاروق عثمانی، بزرگ صحافی تھے اور راولپنڈی میں روزنامہ مشرق کے بیورو چیف تھے۔ فاروق عثمانی بڑے مزے کے آدمی تھے۔ جنرل ضیاء کی کوئی پریس کانفرنس ہوتی تو حنیف خالد، ترچھی ٹوپی والے نسیم سیماب اور فاروق عثمانی اخبار نویسوں کی سب سے پہلی قطار میں بیٹھے ہوتے اور صدر سے پہلا سوال کرنے کے لئے حنیف خالد اور فاروق عثمانی میں مقابلہ ہوتا اور جیت عموماً حنیف خالد کی ہوتی۔ فاروق عثمانی تھے تو بیورو چیف لیکن پریس کانفرنس کے بعد لاہور میں مشرق کے نیوز روم میں فون کر کے کہتے : ”بیٹا، اے پی پی سے خبر آ رہی ہو گی، بس ذرا سہرے کا خیال رکھنا، یعنی میری بائی لائن لگا دینا“۔

پاکستان ٹیلیویژن سے مستعفی ہونے کے بعد معصوم عثمانی نے نجی شعبے کے مختلف چینلز میں اعلٰی عہدوں پر خدمات انجام دیں اور ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کی یہ کامیابیاں پی ٹی وی کے لئے، اور خاص طور پہ میرے لئے، فخر اور طمانیت کا باعث تھیں کیونکہ اس کی پیشہ ورانہ پرداخت میں بہر حال میرا بھی کچھ حصہ تھا۔ تنویر صدیقی بھی جب کہیں ملتے تو بڑی محبت سے پوچھتے : ”ہمارے معصوم کا کیا حال ہے“۔ جب انہیں معصوم کی کامیابیوں کا بتایا جاتا تو خوش ہوتے، ان کے چہرے پہ رونق سی آ جاتی اور کہتے : ”آپ کو یاد ہے نا، کہ میں اسے لے کے آپ کے پاس آیا تھا“۔

معصوم عثمانی تھا بھی اپنے خاندان، اپنے دوستوں، اور اپنے ساتھیوں کے لئے فخر کا باعث، اک ہیرا آدمی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments