سلمان شاہ کی دوسری اور عمران خان کی تیسری کا سیاسی سفر


ایک پیشہ ورانہ کام کے سلسلے میں مجھے پنجاب میں ایک ادارے کے سربراہ کا انٹرویو کرنا تھا اور وہ شخصیت سابق وزیر و مشیر خزانہ محترم سلمان شاہ صاحب کی تھی۔ ان دنوں ملک میں پیپلز پارٹی کی مفاہمت والی اور پنجاب میں شہباز شریف کی دن رات کام کرنے کی شہرت والی سرکار تھی۔

میں جب سلمان شاہ صاحب کے گھر پہنچا تو وہ موجود تھا۔ انتہائی دھیمے لہجے میں بات کی ہر سوال کا جواب انتہائی اختصار مگر جامع انداز میں دیا جس پر ضمنی سوالات کی گنجائش کم ہوتی تھی۔ انٹرویو میں آدھ پونے گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں لگا۔ چائے پر موضوع سیاست کی طرف نکل پڑا تو میں نے ان کے مستقبل میں سیاسی سفر اور کسی جماعت میں شرکت کا پوچھ لیا۔ سلمان شاہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا کہ ریاست کو جب بھی ان کے خدمات کی ضرورت پڑی تو وہ ضرور سرانجام دیں گے۔ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کے بارے میں کہا کہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ ملک میں دو سیاسی جماعتیں ہیں ایک سیاست دان اور دوسرے وہ جو ایک وقفے کے بعد آتے ہیں۔ ”میں دوسری والی سیاسی جماعت میں ہوں اور جب بھی وہ آئیں گے میں ان کے ساتھ ہی آوں گا“ ان کا جواب مختصر مگر جامع تھا۔

ہم نے عملی طور پر بھی دیکھا کہ پیپلز پارٹی کے پاس کسی ماہر معیشت کے نہ ہونے کے باوجود پانچ سالوں تک سلمان شاہ صاحب نظر نہ آئے اور نہ ہی اس کے بعد مسلم لیگ کے دور میں کہیں نمو دار ہوئے۔ مگر عمران خان کی پی ٹی آئی بر سر اقتدار آئی تو ایک بار پھر سلمان شاہ صاحب کا نام گونجنے لگا جو اس بات کی غمازی تھا کہ اصل حکومت کس کی آئی ہے۔

ہمارے بزرگ، استاد اور گلگت بلتستان کی مشہور شخصیت سید یحییٰ صاحب فرماتے تھے کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی لڑائی ہمیشہ ایک تیسرے سیاست دان اور سیاسی جماعت کو جنم دیتی ہے۔ بظاہر عمران خان اور پی ٹی آئی کا جنم سیاسی جماعتوں کی آپس کی لڑائی کے نتیجے میں نہیں ہوا مگر در حقیقت سلمان شاہ صاحب والی ”دوسری جماعت“ اور سیاست جماعتوں کی چپقلش کے نتیجے میں ضرور ہوا تھا۔

جلاوطنی میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہوا میثاق جمہوریت وہ اہم موڑ تھا جس کے نتیجے میں ایک تیسری ایسی قوت کی ضرورت محسوس ہوئی جو ’دوسری جماعت‘ کا سیاسی چہرہ بن سکے۔ مشرف کے دور میں راتوں رات بنائی ق لیگ نواز شریف کی واپسی کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہوئی تو مشرف نے ایک فیس بکی جماعت بنانے کی بھی کوشش کی جو چترال کے علاوہ کہیں نظر نہ آئی تو قرعہ فال عمران خان کے نام نکلا جس کی تحریک انصاف کئی سالوں سے سیکٹر جی سکس کے ایک گھر تک محدود تھی۔

میثاق جمہوریت کا آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں عملی شکل اختیار کرنا ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا جس کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک موقف یہ ہے کہ یہ ترمیم صوبوں کو اپنے معاملات میں خودمختاری دیتی ہے جس کا 1973ء کی آئین میں وعدہ کیا گیا تھا جس سے وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہوں گی اور پاکستان بطور ملک مضبوط ہو گا۔ اس مکتبہ فکر کے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان اکائیوں کا مجموعہ ہے اس لئے اکائیاں مضبوط ہوں تو وفاق مضبوط ہو گا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم نے وفاقی حکومت کو ٹیکس جمع کر کے صوبوں کو دینے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں دیا اس سے وفاق عملی طور پر کمزور ہو گیا ہے۔ اس نظریہ کے حامل لوگوں کا خیال ہے کہ ایک مضبوط وفاق ہی ایک مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔

سلمان شاہ صاحب والی ’دوسری جماعت‘ بھی اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں دوسرے نقطہ نظر کی حامی ہے۔ ان کے خیال میں جو وسائل دفاع اور سلامتی کے امور کے لئے چاہیے ہوتے ہیں وہ اٹھارہویں ترمیم میں دیے طریقہ کار کے تحت محصولات کی وفاقی اکائیوں میں تقسیم کے بعد بچتے نہیں اس لئے محصولات کی تقسیم کا پرانا طریقہ ناگزیر ہے۔

عمران خان کا موقف اٹھارہویں ترمیم پر بدلتا رہا۔ جب ان کی حکومت صرف خیبر پختون خواہ میں تھی تو وہ کہتے تھے کہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کے وسائل اور اختیار میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جب وہ وزیر اعظم بن گئے تو اٹھارہویں ترمیم کی شد و مد سے مخالفت کی۔ خان صاحب کی مخالفت کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس ترمیم سے صوبوں کو کسی حد تک داخلی خود مختاری مل گئی تھی جو ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کو اس لئے بھی پسند نہیں تھی کہ ان کا حکم پورے ملک پر کیوں نہیں چلتا۔ انھوں نے نظام تعلیم میں پورے ملک میں یکسانیت لانے کے لئے نصاب کو بدلنے کی بھی کوشش کی جبکہ تعلیم آئین کے تحت ایک صوبائی معاملہ ہے جس کو اٹھارہویں ترمیم میں مزید صوبائی خود مختاری دی گئی ہے۔

عمران خان جو ریاست مدینہ بنانے نکلے تھے چین کے دورے کے بعد چینی نظام سے، سعودی عرب کے دورے کے بعد سعودی نظام اور ترکیہ کے اردگان سے مل کر ان کے نظام سے متاثر ہوئے اور پاکستان میں بھی ایسے نظام حکومت کی خواہش کا اظہار کرتے رہے جس میں ان کے حکم پر کسی کو ناں کہنے کی گنجائش نہ ہو۔ ایسا نظام پاکستان کے تناظر میں صرف صدارتی نظام حکومت ہو سکتا ہے جس کو عمران نے کبھی دبے اور کھلے الفاظ میں سراہا بھی۔

پاکستان میں صدارتی نظام آمروں کا پسندیدہ رہا ہے۔ ایوب، یحییٰ، ضیاءالحق اور مشرف مطلق العنان صدر رہے جو اپنے عہدے کی خالق پارلیمان کو برطرف کرنے کا اختیار نہ صرف رکھتے تھے بلکہ استعمال بھی کیا۔ عمران خان ایوب کے دور حکومت اور ان کے شان اور دبدبہ سے بہت متاثر نظر آتے ہیں جس کا وہ بار بار ذکر کرتے ہیں۔ ان کی جماعت اور حکومت میں نہ صرف مشرف کی حکومت میں شامل لوگ، ان کے بنائی ق لیگی ارکان بلکہ ضیاء الحق اور ایوب کی اولادیں بھی شامل رہی ہیں۔

نظر بظاہر سلمان شاہ کی ’دوسری‘ اور عمران خان کے بطور تیسری جماعت کے درمیان بڑی ہم آہنگی نظر آئی جس کو وہ انگریزی محاورہ ون پیج یا ایک صفحہ سے تعبیر کرتے تھے۔ دوسری کے سربراہ کی مدت ملازمت میں پارلیمانی توسیع کے بعد تو دونوں ’من تو شدم تو من شدی‘ کا استعارہ بن گئے۔

سیاست ایک سماجی عمل ہے جو کثیر الجہت اور متحرک ہوتا ہے جس کے حقائق ہر گزرتے دن کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ نہ صرف مقامی بلکہ ملکی اور عالمی عوامل اور حالات بھی اس میں تبدیلی کا موجب بنتے ہیں۔ سلمان شاہ کی دوسری اور عمران کی تیسری کے درمیان ون پیج یا ایک صفحہ کب اور کیسے پلٹ گیا، پھٹ گیا یا بدل گیا اس کے بارے میں صرف قیاس ارائیاں ہی کی جاتی ہیں مگر حقائق شاید ہی سامنے آئیں۔ ایک بات جو یقین سے کی جا سکتی یہ وہ یہ ہے کہ جس کی آنکھ جھپکی وہ شکار ہوا کے اصول پر یہ عمل وقوع پذیر ہوا ہے۔

ہم ایک کہانی سنتے آئے ہیں کہ طلسماتی وادی میں جس نے پلٹ کر دیکھا وہ پتھر کا بن جاتا ہے۔ دنیائے سیاست بھی ایک طلسماتی وادی ہے جس میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ جس کے نام کے ڈنکے بجے ہوں، نعرے لگے ہوں اور جس کے حکم سے لوگ عرش سے فرش پر اور فرش سے عرش تک پہنچے ہوں وہ گمنامی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ جہاں واپسی کا راستہ مسدود ہے وہی پر آگے بھی سفر نہ صرف پر خطر ہے بلکہ جان جو کھو کا بھی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ایسی صورت حال پر ولی خان کا ’ایک قبر اور دو لاشوں‘ کا فقرہ ایک ضرب المثل بن چکا ہے۔

عمران خان اور اس کی جماعت کا جنم اس دن ہوا جس روز پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی تھی۔ سیاسی طور پر اس قدر اہمیت حاصل ہونا ہی ایک ایسی جماعت فتح تھی جس کی عمر سب سے کم تھی اور تجربہ نہ ہونے کے برابر۔ مگر عمران نے تحریک اعتماد کے سیاسی عمل کو غیر سیاسی انداز میں لیا اور اسمبلیوں سے باہر آ کر میدان سجا لیا۔

سیاسی عمل میں غیر سیاسی انداز سیاست کا انجام تخت یا تختہ ہوتا ہے۔ عمران کے غیر سیاسی طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک وفاقی حکومت ہی نہیں دو صوبائی حکومتیں بھی اس کے ہاتھ سے جا چکی ہیں۔ متشدد مزاحمت کی وجہ سے پارٹی بکھر رہی ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

سیاسی عمل رکتا نہیں جہاں دوسری کو تیسری کی ضرورت ہے جس کے خلاء کو پر کرنے کے لئے عمران کی پی ٹی آئی کی بطن سے نکلنے والوں کو یکجا کیا جائے گا وہاں عمران اور اس کے اصلی اور حقیقی ساتھی پہلی کی لیگ میں شامل ہو کر آئین کا پارہ حفظ کریں گے وہی پر اس کے اصلی سیاسی سفر کا آغاز ہو گا جو اس کی منزل کا تعین کرے گا۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا سیاسی سفر بھی ایسے ہی شروع ہوا تھا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 281 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan