’بی بی تم کیسی ہو‘: بے نظیر بھٹو کے سکھر جیل میں قید کے دن کیسے تھے؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


بینظیر بھٹو مڈ ایسٹ ہسپتال میں کان کی تکلیف کی وجہ سے زیر علاج تھیں۔ وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں اور یہ آپریشن کا دوسرا دن تھا۔ بیگم بھٹو آئیں اور ان کے ماتھے کو چوما اور پوچھا ’ہاؤ آر یو بی بی‘ یعنی بی بی تم کیسی ہو۔

اس ملاقات میں کہیں بھی بینظیر نے اور نہ ہی بیگم نصرت بھٹو نے قید کی تکلیف کا کوئی ذکر کیا۔

بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی اس ملاقات کے چشم دید گواہ فوٹو گرافر زاہد حسین ہیں جنھوں نے اس کی تصویر بھی لی تھی، جو ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ان کی سکھر جیل میں اسیری کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

سینئر فوٹو گرافر زاہد حسین ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات سے منسلک تھے جس پر جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف نظر ثانی درخواست عدالت میں مسترد ہونے کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو گرفتار کیا گیا تھا۔

زاہد حسین بتاتے ہیں کہ صبح کا وقت تھا وہ ذوالفقار علی بھٹو کی رہائشگاہ ستر کلفٹن میں موجود تھے کہ انھیں معلوم ہوا کہ بیگم نصرت بھٹو مڈ ایسٹ ہسپتال میں بینظیر بھٹو کی عیادت کے لیے آ رہی ہیں۔

یاد رہے کہ مڈ ایسٹ سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کے بھائی غفار جتوئی کا ہسپتال تھا جو ستر کلفٹن سے چند قدموں پر واقع تھا۔

زاہد حسین کے مطابق بینظیر بھٹو کو کان میں تکلیف تھی اور تین چار ماہ کی درخواستوں کے بعد انھیں ہسپتال لایا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تھا۔

وہ کمرے میں ہی موجود تھے کہ نصرت بھٹو آئیں، انھوں نے بینظیر کا ماتھا چوما اور ان کی خیریت پوچھی۔ بے نظیر بھٹو بات کرنے میں تکلیف محسوس کر رہی تھیں اس لیے زیادہ تر جوابات ہاں یا نہ میں دے رہی تھیں۔

اسی دوران بینظیر بھٹو کی کزن فخری بیگم آ گئیں۔ دونوں ایک گھنٹے سے کچھ زائد وہاں رکھیں جس کے بعد ملاقات کا وقت ختم کر دیا گیا۔

سکھر کی سرد و گرم راتیں اور قید تنہائی

بینظیر بھٹو کو مارچ 1981 میں سکھر جیل منتقل کیا گیا تھا، شمالی سندھ کے جیل کے ایک طرف وسیع دریائے سندھ ہے تو دوسری جانب پہاڑی علاقہ جو روہڑی اور پنو عاقل سے آگے تک پھیلا ہوا ہے۔

بینظیر بھٹو اپنی بائیو گرافی ’مشرق کی بیٹی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ان کی کوٹھڑی کی سلاخوں سے صحرا کی سرد ترین ہوا اندر آتی ہے، کوٹھڑی ایک عظیم پنجرے کی مانند ہے اس میں صرف ایک چارپائی ہے، میں چارپائی پر سکڑتی ہوں کروٹ بدلتی ہوں جبکہ میرے دانت بج رہے ہوتے ہیں۔ میرے پاس کوئی سوئیٹر ہے نہ ہی کمبل، صرف شلوار قمیض میں ملبوس ہوں جو اس وقت پہنے ہوئے تھے، جب پانچ روز قبل کراچی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک خاتون جیلر کو ترس آیا اور اس نے جرابوں کا ایک جوڑا مجھے لاکر دیا لیکن وہ اس قدر خوفزدہ تھی کہ اگلی صبح واپس لے لیا۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ رات کو کوٹھڑی کی بجلی بند کر دی جاتی اور شام سات کے بعد سرد اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

اسی طرح انھوں نے گرم دن و رات کا ذکر بھی کیا اور لکھا کہ سکھر میں کراچی کی نسبت زیادہ گرمی تھی اور ان کے پاس پنکھا بھی نہیں تھا۔

فائل فوٹو

فائل فوٹو

گرمی سے بچنے کا نصرت بھٹو کا فارمولا

بینظیر بھٹو جب سکھر جیل میں قید تھیں تو ان دنوں ان کی والدہ کراچی سینٹرل جیل میں اسیری کے دن گزار رہی تھیں۔

بینظیر بھٹو اپنی کتاب ’مشرق کی بیٹی‘ میں لکھتی ہیں کہ 23 مئی 1981 کو ان کی والدہ نصرت بھٹو نے خط لکھا اور اپنا حوالہ دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ ’تین میں چار مرتبہ اپنے جسم پر پانی ڈالو تاکہ حدت کم محسوس ہو، میں پہلے اپنا سر جھکاتی ہوں اور گردن کے پیچھے اور سر کے اوپر پانی کے مگ ڈالتی ہوں تب کپڑوں سے پورا جسم ڈھانپ لیتی ہوں اور پھر پنکھے کے نیچے بستر پر لیٹ جاتی ہوں اور اس طرح کپڑوں کے خشک ہونے تک بہت ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اس طرح سے پھنسیوں سے حفاظت رہتی ہے۔ میں نے ان کے مشورے پر عمل کیا۔‘

بینظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ والدہ کے مشورے پر عملدرآمد سے کپڑوں کے خشک ہونے تک کافی آرام محسوس ہوتا مگر میں یہ جاننے سے قاصر رہی کہ اس طرح سے پانی کے قطرے کان میں پڑنے سے کان کی بیماری جڑ پکڑ رہی ہے۔

کالی چائے اور ابلی دال

بینظیر بھٹو سکھر جیل کی اسیری کے دنوں پر لکھتی ہیں کہ ’صبح سویرے پنجرے کا دروازہ کھولتے اور ایک برائے نام کالی چائے ، ڈبل روٹی، برائے نام دال کا سوپ، ابلا ہوا کدو اور ہفتے میں دو بار مچھلی دوپہر و شام کے کھانے کے ساتھ لاتے ہیں۔‘

انھیں ایک دن میں ایک اخبار پڑھنے کی اجازت تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ عام طور پر ڈان کا نیا ایڈیشن برائے اندرون سندھ ہوتا تھا اور وہ ایک گھنٹے میں سارا اخبار پڑھ کر ختم کر دیتی تھیں۔

جیل سپرنٹینڈنٹ سے انھوں نے کہا کہ آپ ٹائم میگزین یا نیوز ویک لاسکتے ہیں تو اس نے کہا کہ یہ کمیونسٹوں کے جریدے ہیں، ان کی اجازت نہیں۔

آپریشن کے اگلے ہی دن جیل منتقلی

بینظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں اسیری کے دوران بیماری، جیل میں علاج، انتظامیہ اور حکومتی رویوں کا بھی ذکر کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں سکھر میں ڈاکٹر سے معائنہ کرایا گیا، پھر کراچی منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ سکھر کے ڈاکٹر کا خیال ہے کہ انھیں رحم کا سرطان ہے لہذا انھیں تفتیشی آپریشن کرنا ہوگا۔

اس آپریشن کے اگلے روز ان کا سامان باندھا گیا اور چلنے کو کہا گیا۔ انھوں نے پولیس کو یاد دہانی کرائی کہ ڈاکٹر نے 48 گھنٹے تک حرکت تک نہ کرنے کا کہا لیکن انھیں ایک کار میں دھکیلا گیا اور اس کے بعد طیارے میں سوار کیا گیا۔

وہ لکھتی ہیں کہ وہ بے ہوش ہو گئیں اور سکھر میں جیل کی کوٹھڑی میں کئی گھنٹے کے بعد جب ہوش میں آئیں تو کچھ آوازیں سنائی دیں جس سے انھیں احساس ہوا کہ وہ زندہ ہیں۔

بینظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ ان کے کان میں دوبارہ تکلیف شروع ہو گئی تھی، گرد اور پسینے کے قطرے چہرے پر متواتر پڑنے اور گرمی سے ان کی حالت ابتر ہو گئی لیکن جیل کا ڈاکٹر یہی کہتا رہا کہ کوئی بیماری یا مسئلہ نہیں۔

پازیب کی چھن چھن

بینظیر بھٹو کو مارچ 1981 کو سکھر جیل منتقل کیا گیا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ان کی نظر بندی کو 12 جون کی دوپہر کے وقت ختم ہونا تھا لیکن اس میں 12 ستمبر تک کا اضافہ کر دیا گیا اور اگست کے دوسرے ہفتے میں کراچی سینٹرل جیل منتقل کیا گیا جہاں انھیں اسی کوٹھڑی میں رکھا گیا جہاں ان کی والدہ قید تھیں، وہاں انھیں اے کلاس درجہ دیا گیا۔

وہ لکھتی ہیں کہ ’جس کوٹھڑی میں رکھا گیا وہ چھوٹی اور گندی تھی۔ بیت الخلا میں فلیش سسٹم نہیں، وہ ہر وقت لال بیگوں اور مکھیوں سے بھرا رہتا۔ اس کی بدبو کوٹھڑی کے باہر صحن میں بہتی ہوئی اور گندی نالی کی بدبو سے مل کر فضا کو متعفن رکھتی ہے۔ پانی کی بالٹی میں مردہ کیڑوں کی بھر مار ہوتی۔‘

سکھر جیل سے لے کر کراچی سینٹرل جیل تک ذہنی اذیت کے واقعات کو انھوں نے قلمبند کیا، جس میں کارکنوں پر تشدد ، انھیں جیل میں ہلاک کر دینے کی سر گوشیاں شامل ہیں۔

کراچی سینٹرل جیل کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ ’رات کو انھیں قریب ہی بھاری قدموں کی آوازیں تو کبھی پازیب کی آوازیں آتی تھیں۔ میں نے میٹرن (جیل میں خاتون وارڈن) سے پوچھا تو اس نے ان آوازوں سے انکار کیا اور کہا کوئی چڑیل ہوسکتی ہے جبکہ جیل سپرنٹینڈنٹ نے کہا کہ آپ ذہنی دباؤ میں ہو۔‘

بینظیر بھٹو کو ستمبر 1981 میں اپنی بہن صنم بھٹو کی شادی میں شرکت کے لیے رہائی ملی جس کے بعد وہ ملک سے باہر چلی گئی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments