اردو ادب کے ایک درویش کا رسالہ ”ثالث“


ڈاکٹر اقبال حسن آزاد ادب کے ان بے لوث خادموں میں سے ہیں جو دلی، ممبئی، لکھنؤ یا پھر پٹنہ جیسے شہروں جو کہ ادب کے حوالے سے معروف بستیاں تصور کی جاتی ہیں، میں بیٹھ کر علم و ادب کی جوت جگانے میں مصروف نہیں ہیں، بلکہ ایک کم معروف اور چھوٹے سے شہر مونگیر میں خاموشی سے ادب کی خانقاہ سجائے ہوئے ہیں، اور یہ خانقاہ اس قدر مقبول ہے کہ دنیا بھر سے شائقین ادب ان کے مرید ہیں، اس کا اندازہ ان کے رسالہ ثالث کو دیکھ کر ہوتا ہے، جس میں ہندوستان سمیت پاکستان، کینیڈا، جرمنی، سعودی عرب، قطر جیسے ممالک کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تخلیقات تواتر سے شائع ہوتی ہیں۔ میرے علم کی حد تک کم از کم ہندوستان میں اس قدر متنوع تخلیق کاروں کو شائع کرنے والا کوئی رسالہ نہیں ہے۔

ابھی حال ہی میں انھوں نے تقریباً 664 صفحات پر مشتمل کافی ضخیم عالمی افسانہ نمبر/سلور جوبلی نمبر شائع کیا ہے جو اپنے آپ میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مجلہ گزشتہ دس برسوں سے بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ملک کے موقر ادارہ یو جی سی نے بھی اسے اپنی کیئر لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔ ہم نے ایسے بہت رسالے دیکھے ہیں جو مضامین شائع کرنے کے پیسے لیتے ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ طوعاً و کرہاً لوگ ایسے رسالوں کو پیسے دیتے بھی ہیں۔

ڈاکٹر اقبال حسن آزاد اس قبیل کے لوگوں میں نہیں ہیں، ان کا ایک معیار ہے اور اس معیار پر اگر ایک نو آموز کی تحریر فٹ آتی ہوگی تو وہ شائع کریں گے ورنہ اساتذہ کی ہی تحریر کیوں نہ ہو وہ رد کر دیں گے اور مجھے کئی جانے مانے لوگ شکایت کرتے نظر آئے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کی تحریر شائع نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ شکایت کرنے والے لوگ شکایت کرنا تو جانتے ہیں اپنی تحریر پر محنت کرنا نہیں جانتے۔

بہرحال میں بات کر رہا تھا عالمی افسانہ نمبر /سلور جوبلی نمبر کی۔ تو یہ ایک خاص نمبر ہے جس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ان افسانوں اور مضامین کا انتخاب شامل ہے جو فیس بک پر منعقد ”ثالث افسانوی نشست 2021“ میں پیش کیے گئے تھے۔ اس میں 9 مضامین اور 43 افسانے شامل کیے گئے ہیں جبکہ دوسرے حصے یعنی سلور جوبلی نمبر میں 8 مضامین اور 9 افسانے پیش کیے گئے ہیں۔ اس طرح کل 17 مضامین اور 52 افسانوں سے سجا یہ رسالہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان افسانوں کو دیکھ کر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج کل جو خوبصورت افسانے لکھے جا رہے ہیں اس کے ایک معتدبہ تعداد کو ڈاکٹر صاحب نے اس میں شامل کر لیا ہے۔ اس پورے سفر میں انھیں کن صعوبتوں سے دو چار ہونا پڑا اور کن تکلیفوں کو جھیلتے ہوئے انھوں نے اس معرکہ کو سر کیا، اس کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے وہ اپنے اداریہ میں کہتے ہیں :۔

”چنانچہ میں نے تن تنہا اس سفر کو طے کرنے کا ارادہ کیا اور سر سے کفن باندھ کر نکل کھڑا ہوا۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ میں اکیلے ہی چلا تھا جانب منزل مگر۔ اگر آپ کا ارادہ مستحکم اور نیت صاف ہے تو پھر راستے کی دشواریاں خود بخود دور ہو جاتی ہیں۔ میں نے ایک ایک کر کے سبھی افسانوں کو پڑھنا شروع کیا۔ جہاں تک ممکن ہو سکا ٹائپوز اور زبان و بیان کی غلطیوں کو درست کرتا گیا۔ بعض افسانوں میں افسانہ نگار سے مشورہ کر کے کچھ تبدیلیاں کیں۔ کسی کا عنوان بدل دیا اور کسی کا کلائمکس۔ ایک بڑے افسانہ نگار کے مشورے سے ان کے افسانے کو ایڈٹ کیا۔ پھر بھی کچھ افسانوں میں کچھ غلطیاں رہ گئیں۔ غلطی اسی سے ہوتی ہے جو کچھ کرتا ہے۔ بیکار لوگ دوسروں کی غلطیاں ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔“

اس نمبر میں شامل ہر افسانہ اپنی جگہ ایک خوبصورت پھول کی طرح سے ہے، لکھنے والے بھی نامی گرامی اور بڑے لوگ ہیں۔ اتنے سارے افسانوں میں کسی ایک پر گفتگو کرنا مناسب نہیں ہو گا، تاہم یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ تمام ہی افسانے اپنی جگہ لا جواب ہیں اور اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اردو میں بھی عمدہ چیزیں لکھی جا رہی ہیں، بس کمی ہے تو اس کو دوسری عالمی اور مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے اسے متعارف کرانے کی، تاکہ دوسرے لوگ بھی جان سکیں کہ اردو میں کس پایہ کی چیزیں لکھی جا رہی ہیں۔

یہ شمارہ اس لیے بھی دستاویزی حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں فن افسانہ سے متعلق کئی عمدہ چیزیں جمع کر دی گئی ہیں، مثلاً کھلا ہے باب سخن ”کے عنوان سے اپنی گفتگو میں ارشد عبد الحمید صاحب نے اگر فن افسانہ نگاری کے عصری منظر نامہ پر روشنی ڈالی ہے تو اقبال حسن آزاد نے“ فن افسانہ نگاری سے متعلق چند اہم باتیں ”کے عنوان سے ایک عمدہ افسانہ کیسے لکھیں اس پر عمدہ گفتگو کی ہے۔ اسی طرح خالد سعید / مکرم نیاز کے قلم سے“ بیانیہ میں راوی کی مداخلت ”بھی ایک جاندار مضمون ہے۔

ڈاکٹر ریاض توحیدی کا مضمون“ علامتی افسانہ تخلیقی مضمرات ”اور سیدہ آیت گیلانی کا مضمون“ علامت کیا ہے ”فن کے عمق کو سمجھنے کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ ثمینہ سید کا مضمون“ جدید افسانہ کے خد و خال ”اور نوشی قیصر کا مضمون“ افسانے میں علامت کیا ہے؟ ”کم اہم نہیں ہیں۔ ساجد ہدایت کا مضمون“ افسانہ میں مسئلہ ابہام ”اور عظیم اللہ ہاشمی کا“ عالمی گاؤں میں معاصر اردو افسانے کی فکری اساس ”پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ایک حمد، ایک نعت، دس غزلیں اور ایک نظم بھی شامل اشاعت ہیں اور تبصرے اور مکتوبات کے کالم بھی موجود ہیں۔

اس قدر خوبصورت اور وقیع رسالہ نکالنے کے لیے ڈاکٹر اقبال حسن آزاد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اردو دنیا میں اس مجلہ کی اس کے شایان شان پذیرائی کی جائے گی۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments