عمرانی انقلاب کی عبرت ناک ناکامی


جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کا کوئی پسندیدہ خواب ٹوٹ بھی جائے تب بھی وہ بدستور محو خواب ہی رہتے ہیں اور اپنے ادھ ادھورے، ٹوٹے ہوئے خواب کی بکھری کرچیاں جوڑنے کے لئے خود کو ایک نئے خواب میں غرق کرلیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسے لوگ چاہیں بھی تو کبھی حقیقت کا درست ادراک نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کی ذہنی و نفسیاتی سطح اتنی معمولی اور پست ہوتی ہے کہ جس پر حقیقت جیسی عظیم الشان شے کا نزول سرے سے ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا، خواب و خیال کی غیر حقیقی دنیا میں بسنے والوں کا سامنا اگر بدقسمتی سے کبھی ناقابل تردید مجسم حقیقت سے ہو جائے تو پھر وہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، جو آج کل پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور جملہ کارکنان کے ساتھ ملاحظہ کے لیے دستیاب ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی شکست و ریخت کے مناظر دیکھ کر ہر سیاسی ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ کیا ایک سیاسی جماعت اپنی ساخت کے اعتبار سے اتنی بوسیدہ اور بودی بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ صرف چار دن باد مخالف چلنے سے ہی تنکوں کی مانند بکھر کر نیست و نابود جائے؟ مذکورہ سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر واقعی پاکستان تحریک انصاف کوئی سیاسی نظریہ، اصول یا مقصد رکھنے والی ایک جماعت ہوتی تو یقیناً اس کے بکھرنے میں کم ازکم اتنا وقت تو ضرور لگتا کہ جتنا وقت اس کے بننے اور بن کر اقتدار تک پہنچنے میں میں لگا تھا۔ مگر چونکہ پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ سے ہی ایک منظم جماعت کے بجائے منتشر اور بکھرے ہوئے ہجوم کا صرف ایک پراگندہ خواب ہی تو تھی۔ لہٰذا، تحریک انصاف بالکل ویسے ہی اچانک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی جیسا کہ اکثر اوقات ڈراؤنے خواب یک لخت ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔

یہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا مذکورہ دہشت ناک خواب کے ٹوٹ جانے کے بعد خواب دکھانے والا اور خواب دیکھنے والے یعنی عمران خان اور اس کے گمراہ پیروکار حقیقت کی دنیا میں واپس آ کر اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے خود کو سزا و جزا کے لیے ریاستی اداروں کے سامنے رضاکارانہ طور پر پیش کر دیتے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز کے ہزاروں معصوم نوجوانوں کو ریاست مخالف احتجاج اور انتشار کی آگ کا ایندھن بنا کر بھی عمران خان کے اقتدار کی ہوس بدستور قائم و دائم ہے اور موصوف ابھی بھی زمان پارک میں بیٹھ کر کسی ایسے سنہری موقع کی تاک میں ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر ریاست کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔

9 مئی کی بغاوت کے ناکامی سے دوچار ہو جانے کے بعد عمران خان کی جانب سے اب یہ تاویل پیش کرنا کہ ”حلف دیتا ہوں کہ تشدد اور توڑ پھوڑ کا کبھی نہیں کہا“ ۔ ایک ایسا فرسودہ بیانیہ ہے جس پر ان کے بے دام ذہنی غلام تو ضرور فی الفور، ایمان لے آئیں گے۔ مگر جو شخص ذرہ برابر بھی عقل و شعور رکھتا ہے، وہ بخوبی جانتا ہے کہ عمران خان کی تمام سیاست ہی تخریب، یاوہ گوئی، الزام تراشی، انتشار، تشدد اور بلیک میلنگ کے گرد گھومتی رہی ہے۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی پاکستان دشمن ریشہ دوانیوں کے بارے میں حکیم محمد سعید شہید 1996 میں اپنی کتاب ”جاپان کہانی“ کے صفحہ نمبر 14 پر بہت پہلے ہی اپنی قوم کو خبردار کرتے ہوئے لکھ چکے تھے کہ ”نوجوانو! تم نے دیکھا کہ اب امریکا نے عربوں کو یہودیوں کی غلامی میں دینا شروع کر دیا ہے۔ اب جہاں امریکا ہے، وہاں یہودی اس کے ساتھ ہیں۔ کہنا چاہیے کہ امریکا یہودیوں کی دولت سے آگے بڑھ رہا ہے اور نہایت خاموشی کے ساتھ یہودی نظام کو (دنیا بھر میں ) رائج کرتا چلا جا رہا ہے۔ عرب ملکوں کے بعد دوسرے اسلامی ممالک بھی یہودیوں کی طاقت کو لوہا مان چکے ہیں۔ اس لیے یہودی حکومت (روز بہ روز مضبوط سے مضبوط) تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب یہودی مدینہ کو یثرب بنانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ اس کے بعد سارا عرب ڈوب مرے گا اور سارا عالم اسلام (مکمل طور پر ) یہودیوں کے زیر اثر آ جائے گا۔

پاکستان (میں اس مقصد کے لیے ) عمران خان کا انتخاب ہوا ہے۔ یہودی ٹیلی ویژن اور عالمی میڈیا نے عمران خان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ سی این این، بی بی سی سب عمران خان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ برطانیہ، جس نے فلسطین کو تقسیم کر کے یہودی حکومت قائم کروائی تھی۔ وہ عمران خان کو (پوری طاقت کے ساتھ) آگے بڑھا رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو رہی ہے۔ عمران خان کی شادی یہودیوں میں کر وا دی گئی ہے۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو کروڑوں روپے دیے جا رہے ہیں تاکہ عمران خان کو خاص انسان (یعنی مسیحا) بنا دیا جائے۔ نیز وزارت عظمی کے لیے عمران خان کی راہیں (بڑی تیز رفتاری کے ساتھ) ہموار کی جا رہی ہیں۔ نوجوانو! کیا اب پاکستان کی آئندہ حکومت یہودی الاصل ہوگی؟ یہ سیلاب بڑی تیزی سے آ رہا ہے اور اس پر بند باندھنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ بہت جلد عمران خان کو ایوان وزیراعظم میں لے جا کر بٹھا دیا جائے گا اور یہ مہرہ (مکمل طور پر ) یہودیوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ عظیم نوجوانو! عظیم پاکستان کی قسمت کا یوں سودا (طے ) ہوا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ”۔ یہ اقتباس پڑھ کر یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ اسے 27 برس قبل لکھا گیا تھا۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا کہ یہ رائے 9 مئی کے سانحہ کے نتیجہ میں عمران خان کا اصل چہرہ بے نقاب ہونے کے بعد رقم کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ حکیم محمد سعید شہید زیادہ تر مضامین اور کتب صرف بچوں اور نوجوانوں کے لیے لکھا کرتے تھے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی تحریروں میں سیاست کو زیربحث نہیں لاتے تھے۔ لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ اپنی تصنیف ”جاپان کہانی“ میں انہوں نے پاکستانی بچوں اور نوجوانو! کو عمران خان کے پاکستان مخالف عزائم کے بارے میں آج سے 27 برس پہلے ہی آگاہی فراہم کرنا اپنی علمی ذمہ داری سمجھا تھا۔ شاید انہیں اندیشہ اور ڈر تھا کہ یہ ہی بچے کل بڑے ہو کر عمران خان کا آلہ کار بن کر پاکستان دشمنی پر نہ اتر آئیں۔

ہماری کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ حکیم محمد سعید شہید کی کتابیں پڑھ کر جوان ہونے والے بچے بھی ان کی نصیحت اور تنبیہ کو یاد نہ رکھ سکے اور آج ملک کے ہزاروں نوجوان عمران خان کے جھوٹے سیاسی بیانیہ کا شکار ہو کر قید و بند کی ناقابل بیان اذیتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جبکہ عمران خان کی سفاکی اور بے حسی ملاحظہ ہو کہ وہ آج بھی زمان پارک میں بیٹھ کر یہ بیان دے رہا ہے کہ ”9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کرنے والے ایجنسیوں کے ایجنٹ تھے“۔

یعنی عمران خان اپنی جان بچانے کے لیے ان سادہ لوح نوجوانوں کے عمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی یکسر انکاری ہے، جنہوں نے عمران خان کے جھوٹے بیانیہ پر ایمان لاکر اپنے وطن کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ کاش! جو پاکستانی نوجوان اب بھی عمران خان کے خواب غفلت میں مستغرق ہیں، وہ کچھ عبرت پکڑ لیں اور نام نہاد حقیقی آزادی اور عمرانی انقلاب کی بھینٹ چڑھنے والوں کا حشر نشر دیکھ کر بیدار ہوجائیں۔ وگرنہ عین ممکن ہے اگلی بار عمران خان ہوس اقتدار میں انہیں بھی کہیں تاریک راہوں میں قربان نہ کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments