بغاوت جو ناکام ہو گئی


متعلقہ حلقے بھرپور چھان بین اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر جان چکے ہیں کہ 9 مئی کی غارت گری عمران خان کی گرفتاری کا بے ساختہ ردّعمل نہیں، ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کا براہِ راست نشانہ آرمی چیف سید عاصم منیر تھے۔ لمحوں کے اندر اندر کوئٹہ سے پشاور تک فوجی تنصیبات اور علامات کو نشانہ بنانا خان صاحب اور اُن کے دیدہ و نادیدہ سہولت کاروں کا بھیانک منصوبہ تھا۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ کوئٹہ میں پی۔ ٹی۔ آئی کے جانباز براہ راست چھاؤنی کا رُخ کریں اور فوجی دستوں سے ٹکرائیں، لاہور کے بے مہار جتھوں کو کورکمانڈر ہاؤس، عسکری پلازا اور سی۔ ایس۔ ڈی کے سوا کوئی ہدف نہ ملے۔ فیصل آباد کے سپوت براہ راست آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملہ آور ہوں، سرگودھا اور میانوالی کے غضب ناک ہجوم فضائیہ کے اڈوں پر چڑھ دوڑیں، پشاور کے سورما ایف سی کے ہیڈکوارٹرز، قلعہ بالا حصار پر حملہ آور ہوں، سنگ باری اور آتش زنی کے لئے صرف دفاعی علامات ہی دکھائی دیں۔ 1965 کی یادگار طیّارہ ہی شعلوں میں لپٹا نظر آئے، شہدا کی یادگاریں ہی توڑی پھوڑی جائیں اور وطن پر جانیں نچھاور کرنے والوں کے مجسمے ہی شکست و ریخت کا نشانہ بنیں؟ عمران خان کمال معصومیت سے سوال کرتے ہیں۔ ”اگر یہ پی ٹی آئی کے لوگ تھے تو مجھ پر قاتلانہ حملے کے بعد ایسا کیوں نہ ہوا؟“ سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ آپ نے اُس وقت ایسا منصوبہ تیار نہیں کیا تھا۔

2018 میں فوج کی آراستہ پیراستہ بگھی میں سوار ہو کر قِصرِ اقتدار میں جلوہ افروز ہونے اور پھر کم و بیش ساڑھے تین سال نوبیاہتا دُلہن جیسے ناز نخرے اٹھوانے کے بعد عمران خان یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے کہ اپوزیشن کو کچلنے، اس کے ہر وار سے بچنے، عدالتوں سے مطلوب فیصلے لینے، کارکردگی اور خوئے دلداری کے بغیر بھی اتحادیوں کو اقتدار کی مالا میں پروئے رکھنے اور کسی ناہمواری کے بغیر حکومت کیے جانے کا نسخۂِ کیمیا یہ ہے کہ فوج کا سپہ سالار، ایک جانثار پاسبان کی طرح پہلو بہ پہلو کھڑا رہے۔

کم لوگ جانتے ہیں کہ پی۔ ٹی۔ آئی کے پورے عہد حکمرانی میں، پارلیمنٹ ہاؤس کا ایک کمرہ، فوج کے زیر اثر ایک ہمہ مقتدر ایجنسی کے افسر کے لئے وقف تھا۔ دونوں ایوانوں میں پوچھے جانے والے سوالات سے قانون سازی تک، تمام امور اس ہمہ مقتدر اہلکار کے دستِ قدرت میں تھے۔ اس بندوبست کو عمران خان ”وَن پیج“ کا نام دیا کرتے تھے۔ جنرل باجوہ کو پہلی توسیع کے بعد اُن کی نگاہیں اگلے آرمی چیف پر مرکوز ہو گئیں جو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر اُن کے دل میں جگہ بنا چکا تھا۔

نقشۂِ کار بڑا واضح تھا۔ نومبر 2022 میں وہ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف تعینات کریں گے۔ یہ مشترکہ مفادات اور پُرامن بقائے باہمی کا ایک طویل المیعاد معاہدہ ہو گا جس کے بعد 2023 اور پھر 2028 ؁ کے انتخابات سے ’آر۔ ٹی۔ ایس‘ والے نتائج کشید کیے جائیں گے۔ خان صاحب کا اقتدار 2033 تک برقرار رہے گا۔ اس عشرۂِ مبارکہ میں وہ اپنے سیاسی حریفوں کا کچومر نکال کر اس اقتدار کُلّی کے ساتھ حکمرانی کریں گے جس کا نمونہ ہٹلر اور مسولینی چھوڑ گئے ہیں۔

اس منصوبے میں کھَنڈت پڑنے کے کئی اسباب تھے۔ پہلے جنرل باجوہ نے بتایا کہ کرپشن آپ کے گھر تک آن پہنچی ہے خبر لیں۔ پھر جنرل سید عاصم منیر نے دستاویزات اور شواہد دکھاتے ہوئے خبردار کیا۔ اسباب اور بھی تھے۔ یہاں تک کہ تحریک عدم اعتماد نے دستک دی اور عمران خان حواس باختہ ہو گئے۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن سہارے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔

حکومت گنوا دینے کے بعد عمران خان اور اُن کے اہالیوں موالیوں کا نیا منصوبہ یہ تھا کہ کس طرح جنرل فیض حمید کو سپہ سالار کی مسند بلند تک پہنچایا جائے؟ اگر ایسا نہ ہو سکے تو دوسرا جرنیل کون ہونا چاہیے؟ یہ بھی نہ ہو تو کس طرح ساری توانائیاں عاصم منیر کا راستہ روکنے پر مرکوز کردی جائیں۔ ان اہداف پر نگاہ رکھتے ہوئے عمران خان نے طرح طرح کے اَن گھڑ اور بے ڈَھب بیانات دے کر پہلی بار اس تقرری کو متنازعہ بنایا۔ اسے جلسوں، جلوسوں، چوکوں، بازاروں میں لے آئے۔ موثر جگہوں پہ بیٹھے سہولت کار اُن کی پُشت پر تھے۔ جھوٹ پر مبنی ایک بے سروپا کہانی، ایک برادر دوست ملک تک پہنچائی گئی۔ ”نادرا“ میں نقب لگا کر سید عاصم منیر کے لواحقین کے کوائف اور نجی معلومات حاصل کی گئیں۔ یہ سب اہلکار گرفت میں آئے اور انجام کو پہنچے۔

کچھ داستانیں اور بھی ہیں۔ شاید آپ حیران ہوں کہ لندن میں نواز شریف تک پہنچنے والی سفارشوں میں ایک توانا سفارش جنرل فیض حمید کے لئے بھی تھی۔ ضمانت دینے والے نے کیا پیشکش کی، اس کا تذکرہ میں پھر کبھی کروں گا۔ اتنی بات میں پورے وثوق اور ذاتی معلومات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر نواز شریف اپنی روایتی استقامت نہ دکھاتے تو منظرنامہ مختلف بھی ہو سکتا تھا۔

عمران خان اور کھُلے چھپے سہولت کاروں نے سید عاصم منیر کی تقرری روکنے کے لئے راولپنڈی پر چڑھائی اور آتشیں دھرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لئے 26 نومبر کی تاریخ طے پائی۔ منصوبہ بندی یہ تھی کہ کئی لاکھ افراد راولپنڈی میں جمع ہوں اور فیصلہ سازوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں۔ تب خان صاحب پر حملے سے لگنے والے زخم تازہ تھے۔ انہیں صرف تئیس دن گزرے تھے۔ لیکن خان صاحب نے اس یلغار کی قیات ضروری سمجھی۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس نے ایک ٹاک شو میں بتایا۔ ”میں نے خان صاحب سے کہا کہ آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ آپ راولپنڈی دھرنا دو تین دن آگے کر دیں“ تو خان صاحب نے جواب دیا۔ ”تب تک تو آرمی چیف کی تقرری ہو جائے گی۔ پھر کیا فائدہ دھرنے کا۔“ پنجاب، خیبرپختون خوا اور آزاد کشمیر میں اپنی حکومتیں ہوتے ہوئے بھی عمران خان قابلِ ذکر مجمع نہ لگا سکے۔ شکستہ دِل ہو کر دھرنا دیے بغیر واپس چلے گئے۔ 29 نومبر کو انہونی ہو گئی۔

شکستِ خواب کے بعد ، عمران خان نے پانچ چھ ماہ پر محیط شبِ غم کس طرح کاٹی، یہ صرف وہی بتا سکتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ اور اُن کے سہولت کار اپنے ’ہدف‘ سے غافل نہ رہے۔ سوشل میڈیا پر آرمی چیف کو غلیظ حملوں کا نشانہ بناتے ہوئے فوج میں دراڑیں ڈالنے کی منظم کوششیں جاری رہیں۔ عمران خان کھُلے بندوں آرمی چیف کو تمام مسائل اور اپنے سارے مصائب کا سرچشمہ قرار دینے لگے۔ ان کی لابنگ فرمیں متحرک ہو گئیں۔ اسلام آباد کے سفارت خانوں سے رابطے بڑھ گئے۔ ”سی پیک دشمنی“ مشترکہ ایجنڈے کا اہم نکتہ بنی۔ چین، روس اور ایران سے بڑھتی قربت کا ڈراؤنا خواب تراشا گیا۔ پی۔ ٹی۔ آئی کے پرستاروں کی رگوں میں بارود بھرا گیا۔ عمران خان ”ریڈ لائن“ قرار پائے۔ داخلی اور خارجی سہولت کاروں نے منصوبے کے خد و خال سنوارے۔ اس کے لئے وہ دِن طے پایا جس دِن عمران خان کو گرفتار کیا جائے گا۔ اندرونی حلقوں نے عمران کو باور کرا دیا تھا کہ فوجی تنصیبات بالخصوص شہداء کی یادگاروں پر حملہ، آرمی چیف کی کمزوری اور ناقص پالیسیوں سے تعبیر کیا جائے گا، سو ایک زبردست ارتعاش پیدا ہو گا اور عاصم منیر اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

ایسا کچھ نہ ہوا۔ قرآن مجید کہتا ہے۔ ”اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر فرمائی۔ اور اللہ ہی بہترین خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے ہے۔“ فوج کے خلاف بغاوت ناکام ہو گئی۔ غیر روایتی اور مصدقہ شواہد کے اس دور میں سب کچھ ریکارڈ پر آ چکا ہے۔ مجرم شناخت کیے جا چکے ہیں۔ پردہ کب اٹھتا ہے، ایک بڑی پریس کانفرنس کا انتظار کیجئے۔

ادھر عمران خان کے بیرونی سہولت کار، جو اس سازش کا بھی حصہ تھے، انسانی حقوق کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ فریاد اُس برطانیہ سے بھی آ رہی ہے جس نے 2011 کے فسادات میں گیارہ سالہ بچی کو بھی معاف نہ کیا اور اُس امریکہ سے بھی جس نے 2021 ؁ میں اپنی پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے سرغنہ کو اٹھارہ سال قید سنا دی اور اس شخص کو ساڑھے چار سال کے لئے جیل بھیج دیا جس نے سپیکر نینسی پلوسی کی کرسی پر پاؤں رکھ کر تصویر بنوائی تھی۔ اُن کی کرسیاں کیا ہمارے شہداء کی یادگاروں سے بھی زیادہ مقدس ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments