تفتان بارڈر۔ تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت


آج سے کوئی دس دن پہلے کی بات ہے۔ 18 مئی کی تاریخ تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے صوبہ بلوچستان میں ایک سرکاری ملاقات کی۔ اس ملاقات سے بے روزگار عوام کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ یہ امیدیں اس وقت مزید بڑھ گئیں جب ایک سو میگاواٹ گبد۔ پولان بجلی کی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کیا گیا۔ گبد۔ پولان بجلی کے منصوبے سے بلوچستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا۔ یہی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ بلوچستان کی صنعت و حرفت میں ترقی کا ضامن ہے۔

اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ اس موقع پر پاک ایران سرحد پر پشین کے مقام پر ایک بارڈر مارکیٹ کا بھی افتتاح کیا گیا۔ افتتاح کے وقت یہ خبر بھی چلی کہ مزید پانچ بارڈر مارکیٹس عنقریب کھول دی جائیں گی۔ ان مارکیٹس کے کھلنے کا سب سے بڑا فائدہ سمگلنگ کی روک تھام ہے۔ اب پتا نہیں سمگلنگ کی روک تھام سے کسے مسئلہ ہے؟

صدر رئیسی کے دورہ بلوچستان کے ٹھیک دو دن کے بعد مغربی بلوچستان کے علاقے سراوان میں ایرانی سیکورٹی فورسز پر حملہ ہوا اور چھ اہلکار شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایرانی صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران اچانک کلبھوشن نمودار ہو گیا تھا۔ پاک ایران بارڈر پر تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات کا ہونا معمول ہے۔ ان واقعات کا بڑا فائدہ اسمگلر حضرات کو پہنچتا ہے۔ ظاہر ہے اسمگلنگ کرنے والے تن تنہا اتنے طاقتور تو ہو نہیں سکتے لہذا اس کے لئے مختلف ماہرین پر مشتمل کوئی کمیشن بنانا چاہیے جو بارڈر پر اسمگلنگ کے قانونی و غیر قانونی طریقوں کی نشاندہی کرے۔

صرف یہ نشاندہی ہی کافی نہیں بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ سمگلر حضرات کس کی چھتری کے نیچے کام کر رہے ہیں، ان کے سہولت کار، سرپرست اور ان سے فائدہ اٹھانے والے کون لوگ ہیں؟ ہمیشہ چند دنوں کے بعد چپکے سے کبھی پاکستان کے سیکورٹی اہلکاروں کی جان لے لی جاتی ہے اور کبھی ایرانی اہلکاروں کی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر ان اہلکاروں کا خون کون چاٹ رہا ہے؟

2019 میں بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے میں چودہ اہلکار شہید ہو گئے، جبکہ سیستان بلوچستان میں ایرانی انقلابی گارڈز پر ایک ہی حملے میں ستائیس جوانوں کی لاشیں گرائی گئیں۔ اپریل2019 میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایران کا دو روزہ دورہ کیا تو سابق ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ایک مشترکہ ریپڈ ایکشن فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ تو بہت اچھا تھا لیکن کوئی زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔

وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد تو اسمگلروں کے چوکیدار ہیں۔ اسمگلر خود کسی کے تنخواہ دار اور حصہ دار ہیں۔ جو چوکیداروں میں تنخواہیں اور اسمگلروں میں حصے اور علاقے تقسیم کرتا ہے وہ ظاہر ہے ان سب سے بڑا ہے۔ جو ان سب سے بڑا ہے وہی نامعلوم ہے۔ اب نامعلوم کا پیچھا ہونے سے تو رہا لہذا یہ خون تو بہتا رہے گا۔ کبھی کبھی اس نامعلوم کو مزید چھپانے کے لئے بے چارے سیکورٹی اہلکاروں کے اس خون میں زائرین کا خون بھی ملا لیا جاتا ہے۔

ان دنوں جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے، تفتان بارڈر پر زائرین کی چیخیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔ ویسے سخت سردی میں بھی ان چیخوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ بیچ کے درمیانے موسم میں لوگ سب کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ البتہ جب موسم کی گرمی یا سردی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر چیخ و پکار اور واویلا سنائی دینے لگتا ہے۔ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے، اس کے پیش نظر ہم بارڈر پر کھڑے اور ڈیوٹی پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اہلکاروں کی زندگیوں کی حفاظت اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ اس مطالبے کے ساتھ ہی سیکورٹی اداروں کے اعلی حکام کی خدمت میں ہماری یہ درخواست بھی ہے کہ تفتان بارڈر پر جن اہلکاروں کو تعینات کیا جائے، انہیں اگر شہریوں کا احترام سکھانا ممکن نہیں تو انہیں صرف اتنا بتا دیا جائے کہ سخت گرمی میں انسانوں کو پیاس لگتی ہے۔ انہیں دھوپ میں سائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو تپتے صحرا میں جلتی ہوئی زمین پر بٹھانا والدین کے لئے انتہائی تکلیف دہ عمل ہے اور۔

اگر اعلیٰ حکام کے ماتحت کچھ پڑھے لکھے اور سمجھدار افراد موجود ہیں تو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ زیادہ نہیں تو کم ازکم ایک مختصر اور مفید فارم ہی بنوا کر ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو بھیج دیں تاکہ زائرین جلدی سے وہ فارم پر کر کے بارڈر عبور کر لیا کریں۔ اس کے ساتھ ہی یہ گزارش بھی نتھی کر لیں کہ اگر ڈیٹا ریڈنگ ٹیکنالوجی کا بندوبست ہو جائے تو یہ مسافر آپ کو دعائیں دیں گے۔ اسی طرح مسافروں میں سے تاجروں اور طالب علموں کو الگ الگ لائنوں میں کھڑا کر دیا جائے تو لوگوں کو دی جانے والی اذیت اور تکلیف میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

ممکن ہے کہ اعلی حکام میں سے کسی کا دل پسیج جائے، ہو سکتا ہے کہ کوئی لوگوں کی دعائیں لینے کا ارادہ کر لے، لہذا ایسے فرشتہ صفت اعلی افسر کی بارگاہ میں آخری گزارش یہ بھی ہے کہ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ اہلکار حضرات ماضی کی طرح لوگوں کو الگ الگ بلا کر ہدیہ، عیدی، تحائف، کمیشن اور قیمتی پتھر اینٹھنا شروع نہ کر دیں۔

جہاں ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ بارڈر پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کی حفاظت اور اسمگلنگ کے خاتمے کے لئے ایک با اختیار کمیشن بنایا جائے وہیں ہماری یہ بھی گزارش ہے کہ بارڈر عبور کرنے والے لوگوں کو بھی انسان سمجھا جائے۔ سیکورٹی اہلکاروں کا خون ناحق ہو یا مسافروں کو اذیت دینے کا عمل، یہ دونوں طرح کی کارروائیاں رکنے میں نہیں آ رہیں، لہذا ان کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیے اور تحقیقاتی کمیشن بننے چاہیے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments