پشاور ہائی کورٹ اور تجاہل عارفانہ


ہماری کم علمی اور کم مائیگی کا کیا کہئے کہ ہم کو اب تک بس صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ یہ تجاہل عارفانہ محض اور بس محض ادبی اصطلاح ہی ہے اور یہ اس لئے ادبی اصطلاح ہے کہ زیادہ تر ادبی چشمک ادیبوں اور شاعروں کے درمیاں رہتی ہے تو ادیب ہی اس اصطلاح کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن آج ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ یہ تجاہل عارفانہ کی اصطلاح سیاسی بلکہ عدالتی اصطلاح بھی ہے۔

آج ایمل ولی خان کی پٹیشن پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھی جو انھوں نے عمران خان، فیض حمید اور دیگر کے خلاف لگائی تھی کہ ان سے دہشت گردوں کو دوبارہ صوبے میں لانے کے حوالے سے پوچھا جائے۔ لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے جج صاحب نے سماعت کے دوران بجائے کیس کے مواد پر اپنی آبزرویشن دینے کے پوچھا کہ یہ ایمل ولی خان کون ہے؟

اب اس سوال کے دو مطلب لئے جا سکتے ہیں، پہلا یہ کہ جج صاحب یہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ ایمل ولی خان ہے کون کہ جس نے اتنی دیدی دلیری دکھائی ہے کہ اس پیچیدہ اور خمیدہ بات پر پٹیشن فائل کی ہے تاکہ تسلی کر سکیں کہ یہ وہی جانی پہچانی سیاسی خانوادے کا چشم چراغ ہیں جن کے بارے میں جج صاحب جانتے ہیں کہ ہاں یہ تو واقعی وہی ہیں اور وہ ہی یہ جرات کر سکتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ جج صاحب بالکل ایمل ولی خان سے لاتعلقی کا اظہار کریں تاکہ کل کلاں جج صاحب ان کے ساتھ کسی سیاسی، صوبائی یا علاقائی تعلق کی بنا پر ملوث نہ قرار دیے جائیں یا پھر کوئی جھوٹی ویڈیو لیک نہ ہو جائے اور ایمل ولی خان کے ساتھ ان کی ویڈیو میں باتیں ہوں کہ جن کو جن صاحب کا کوئی قریبی رشتہ دار یہ کہہ رہا ہو کہ آپ پیٹیشن لگوائیں ہماری بات آگے ہو چکی ہیں جیسے کہ آج کل ہو رہا ہے۔

لیکن جواب میں جو ایمل ولی خان نے کہا ہے سوشل میڈیا پر وہ بہت معنی خیز ہے کہ اس پیٹیشن پر جج صاحب کا جواب ہی یہی آنا تھا۔ کیونکہ یہ کوئی عام یا سیدھی سادھی پیٹیشن نہیں تھی جس کو ہم سیاسی ردعمل کہہ سکتے ہیں۔ گو کہ قانون میں پٹیشن پٹیشن ہی ہوتی ہے خواہ وہ کوئی بھی اور کسی بھی بنیادی مسئلے پر فائل کریں۔

تجاہل عارفانہ کا اصطلاحی معنی ہے جان بوجھ کر کسی کے بارے میں خود کو انجان بنانا اور پھر جہاں پر عارف کا ذکر ہو جو سب کچھ دل کی آنکھوں سے یا بصیرت سے سب کچھ جانتا ہو بھلا وہ کیسے تجاہل برت سکتا ہے۔

چونکہ ادب میں فکشن ہوتا ہے اور فکشن حقیقت کے توڑ مروڑ کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ فکشن رئیلٹی کا ڈسٹرکشن ہوتا ہے اور تجاہل عارفانہ ادب میں ہو یا سیاست میں نتیجہ اس کا وہی نکلتا ہے جو اس کا ہوتا ہے جس کو پروفیسر ڈاکٹر فاروق چودھری نے اپنی تالیف اردو رموز میں کچھ اس طرح موضوع بحث بنایا ہے۔ تجاہل عارفانہ کے لغوی معنی ہیں جانتے ہوئے انجان بن جانا، عارف کے معنی ہیں جاننے والا، اور تجاہل کے معنی ہیں انجان بن جانا، لیکن یہ تجاہل کسی نہ کسی لطیف نکتے پر مشتمل ہونا چاہیے، جیسے اس شعر میں

صنم! کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے؟ کس طرف ہے؟ اور کدھر ہے؟

اس شعر میں کمر کو نہایت نازک اور پتلی دکھانے کے لیے مبالغہ مقصود ہے، پوچھنا مقصود نہیں۔ کیوں کہ کمر تو سامنے نظر آ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments