تارکین وطن پاکستانی اور ایف آئی اے کا انتباہ


جمشید بہت پریشان تھا۔ کہنے لگا مجھے آپ کی مدد درکار ہے اگر آپ یہ فارم سائن کر دیں تو مجھے پانچ ہزار یورو مل سکتے ہیں۔ یہ بنک کا لون گارنٹر فارم تھا۔ جمشید زیرو آور کنٹریکٹ پر مزدور تھا۔ یعنی کبھی دیہاڑی لگ گئی اور کبھی کئی کئی ہفتے گھر بیٹھنا پڑ جاتا تھا۔ اسے گھر والوں نے زمین بیچ کر یورپ بھیجا تھا۔ میں نے پوچھا یہ قرض لینے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ وہ بولا مجھے یہ رقم پاکستان بھیجنی ہے۔ ہمارے قائد نے آواز دی ہے کہ کارکنان قربانی دیں ہمیں ریاست بچانی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ تمہیں گھر والوں نے بڑی مشکل سے باہر اس لئے بھیجا ہے کہ تم اپنا گھر بچاؤ ریاست بچانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے لیکن کارکن کب کسی کی سنتے ہیں۔ وہ بنک سے قرضہ لینے میں کامیاب ہو گیا بعد میں وہ دیوالیہ ہوا یا ابھی بھی بھاری سود والی قسطیں دے رہا ہے نہیں معلوم، البتہ اس کا قائد ایک دھرنے کے بعد حکومت سے معاہدہ کر کے سیاست سے کنارہ کشی کر کے ایک ٹھنڈے ملک میں شفٹ ہو گیا۔

یورپ کے ایک شہر میں ایک لیگی جماعت کا بہت بڑا جلسہ ہونا تھا۔ پارٹی کی ہنگامی میٹنگ ہوئی۔ اخراجات کا تخمینہ پچاس ہزار یورو کا لگایا گیا۔ مختلف شہروں میں موجود شاخوں کو جلسہ فنڈ میں حصہ ڈالنے کا کہا گیا۔ اشرف اپنے شہر کی شاخ کا صدر تھا اس نے بھی قرضہ اٹھایا اور لیڈر کے جلسے کے لئے سات ہزار یورو جمع کروا دیے۔ لیکن جلسے والے دن اشرف اپنے لیڈر کے ساتھ ایک فوٹو بھی نہیں کھنچوا سکا بلکہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اسے کسی نے اسٹیج پر بھی نہیں چڑھنے دیا۔ جلسہ ختم ہوا تو میں نے اشرف کو بتایا کہ جس جلسے کے لئے تم نے اتنا بڑا اہتمام کیا تھا اس کی اصلیت یہ ہے کہ اس شہر میں تمہارے لیڈر نے ایک کمپنی خریدی ہے اور وہ اس کا کنٹریکٹ سائن کرنے آیا ہوا تھا اور تم لوگ جوش میں سمجھ رہے تھے کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے حقوق کی کانفرنس کر رہا تھا۔ خیر جمشید بعد میں کورونا کے باعث وفات پا گیا اور اس کی پارٹی کے کسی لیڈر نے ان کے گھر افسوس کا فون تک نہیں کیا

یونس خان گزشتہ تین دہائیوں سے یورپ میں مقیم ہے۔ اس نے بہت سے کاروبار کیے۔ ریستوران بنائے، دکانیں بنائیں اور آخر میں لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ لانے کا دھندا بھی کیا۔ وہ زیادہ سے زیادہ رقم جمع کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسے بچپن سے ہی سیاست میں نام بنانے کا شوق تھا۔ اس نے ایک سیاسی پارٹی جوائن کر لی جو پاکستان میں حقیقی تبدیلی لانے کا منشور رکھتی تھی۔ یونس نے پیسہ تو اکٹھا کر لیا لیکن اس کی یورپی شہریت آڑے آ رہی تھی کیونکہ پاکستان میں دہری شہریت والے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اس نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے یورپی شہریت کو لات ماری اور اپنے ملک جا پہنچا۔ اپنے قائد کے بڑے بڑے جلسوں کا اہتمام کیا۔ اسے پتہ چلا کہ دو کروڑ روپیہ دے کر وہ ٹکٹ لے سکتا ہے۔ اس لئے اس نے یہ رقم بھی جمع کروائی۔ لیکن ڈراپ سین یہ ہوا کہ اس کے قائد نے اس کے علاقے کی ٹکٹ اس شخص کو دے دی جس نے بیس کروڑ کی رقم دی تھی۔

وحید صوم و صلواة کا پابند، مذہبی رجحانات رکھتا تھا۔ اس کے ساتھ وہ مقامی یورپی قوانین کی پابندی کرنے والے ذمہ دار شہری بھی تھا۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اسے یورپی پاسپورٹ مل جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو برطانیہ میں تعلیم دلوا سکے۔ مذہبی رجحانات کی وجہ سے اس نے ایک پاکستانی سیاسی مذہبی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ وحید اپنی سیاسی جماعت کی مغرب مخالف پوسٹوں کو شیئر کرتا اور عالمی طاقتوں کو للکارتا رہتا لیکن اس کی سوشل میڈیا پوسٹیں ہی اس کی دشمن بن گئی اور یورپی ملک نے اس کی شہریت روک لی۔ وحید اپنے بچوں کو برطانیہ تو نہ بھیج سکا البتہ اس کی جماعت کے پاکستان میں بیٹھے بہت سے قائدین کے بچے امریکہ کینیڈا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ چار سچے واقعات سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی شخصیت پرستی کی وہ المناک داستانیں ہیں جس کاوہ ہر روز شکار ہو رہے ہیں۔ اس کا شکار صرف وہ لوگ نہیں ہیں جو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں بلکہ وہ عام پاکستانی بھی ہیں جو رہتے تو فرانس جرمنی اور برطانیہ میں ہیں لیکن خبریں صرف پاکستان کی سنتے ہیں وہ کوئی یورپی چینل نہیں دیکھتے۔ وہ ایسے سوشل میڈیا گروپس کا حصہ ہیں جہاں پر سیاسی تربیت نہیں ہو رہی بلکہ شخصیت پرستی سکھائی جا رہی ہے۔ اگر آپ لندن، فرینکفرٹ یا روم میں پاکستانیوں کے احتجاجی جلوسوں میں شرکت کریں اور ان سے بات چیت کریں تو آپ کو اندازہ ہو کہ ان میں شامل بہت سے لوگ کئی سال سے کبھی پاکستان گئے ہی نہیں۔

اب ان تارکین وطن پاکستانیوں پر یہ برق گری ہے کہ 9 مئی کے ریاست مخالف واقعات کے بعد ایف آئی اے پاکستان نے ایک وارننگ میں خبردار کیا ہے کہ تارکین وطن پاکستانی بھی اگر سوشل میڈیا پر کوئی باغیانہ پوسٹ لگاتے ہیں تو ان سے بھی رعایت نہیں برتی جائے گی اور ان کے نام ای سی ایل پر رکھے جا سکتے ہیں انہیں انٹرپول کے ذریعے ریڈ نوٹس جاری ہو سکتا ہے۔ نادرا کے ذریعے ان کا ریکارڈ نکلوا کر ان کے شناختی ڈاکومنٹس کی روک اور پاکستان اترنے پر گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایف آئی اے اعلامیہ کے مطابق پیکا 2016 ایکٹ کا اطلاق سمندر پار پاکستانیوں پر بھی ہو گا یعنی پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانی بھی سوشل میڈیا پر ریاست مخالف بیانات، جھوٹی خبریں پھیلانے، پاکستان میں ہیجان پیدا کرنے، اور پاکستان میں شر پسندوں کو اکسانے کی پاداش میں قانونی کی گرفت میں آسکتے ہیں۔

میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اس معاملے پر دوبارہ نظر ثانی کریں۔ سمندر پار مقیم ان مزدوروں کو ملک کی سیاسی تاریخ کا کچھ علم نہیں ہے۔ اکثریت کو تو حکومت اور ریاست میں فرق تک کا نہیں پتہ ہوتا۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور مقننہ کے کردار کا بھی علم نہیں تھا۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ بہتر رزق کی تلاش میں دوسرے ممالک میں پہنچے اور پاکستانی سوشل میڈیا پراپیگنڈہ کا شکار ہو گئے۔ مزدور کلاس ہونے کی وجہ سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے پاکستان کی سیاسیات پر کبھی کوئی کتاب اٹھا کر پڑھی ہو۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو پہلے سے فوٹو شاپ پوسٹوں کو شیئر کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملکی نظام کی تبدیلی میں بہت بڑا انقلابی قدم اٹھا لیا ہے۔ آپ جعلی پراپیگنڈہ پھیلانے والوں کی رسد بند کر دیں تو یہ خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments