بیٹا ہم پر امن ہیں لاٹھی نا مارنا


شہر اقتدار کی شاہراہ دستور پر ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پنشنرز دو تین ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر سراپا احتجاج تھے۔ پولیس ہائی الرٹ تھی، وزیر اعظم ہاؤس، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سیکورٹی پر مامور ڈی ایس پیز کالا چشمہ لگائے، ریڈیو ملازمین کو شاہراہ دستور سے دور دھکیلتے ہوئے ایک کونے میں کھڑا کرتے نظر آئے۔ میڈیا کو بھی سکیورٹی کے نام پر کبھی ڈانٹ ڈپٹ تو کبھی منتیں کر کے ریڈیو ملازمین کی کوریج نہ کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔

ریڈیو ملازمین پولیس والوں کے سامنے یہ صدائیں بلند کر رہے تھے کہ ہمارے بچے بھوکے ہیں، کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں خدارا ہمیں پارلیمنٹ کے سامنے پر امن احتجاج کرنے کی اجازت دو۔ ایک سوٹ بوٹیڈ انگریزی بولتا ہوا شخص ایک ڈی ایس پی کے پاس آیا کہ آپ ان غریب مسکین پر امن لوگوں کو کیوں ہراساں کر رہے ہیں۔ اب تو ملک میں جمہوریت ہے اور پرامن احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے یہ ریڈیو کے لوگ تو دو تین ماہ سے اپنی تنخواہ اور پینشن نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں۔

ڈی ایس پی اس سوٹیڈ بوٹیڈ شخص جس کا نام فخر عباس تھا کو بولا جناب آپ کو پتہ ہے اسلام آباد کو کوفہ کا شہر بھی کہا جاتا ہے اب تو شاہراہ دستور پر اسلام آباد ہائی کورٹ بھی ہے اس لحاظ سے اب شاہراہ دستور پر احتجاج کرنا بالکل ہی منع ہے۔ ان ملازمین نے جو بھی کرنا ہے، مرنا ہے یا اپنے آپ کو جلانا ہے یہ سب ریڈیو کے اندر کریں۔ کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں جج صاحبان کے لیے روٹ لگنا ہے اور اگر اس وقت تک یہ لوگ یہیں نظر آئے تو پھر یہ لوگ آپ کو اڈیالہ جیل میں ملیں گے۔

اسی دوران ایک شخص سفید لباس پہنے ہوئے، دونوں ہاتھوں پر پٹی باندھے وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے چبوتروں کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کی تلاش میں تھا۔ کبھی وہ شاہراہ دستور کی گرین بیلٹ پر تو کبھی وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی طرف جاتا نظر آ رہا تھا مگر سیکورٹی والے کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ وہ کئی مرتبہ کالے چشمے پہنے ہوئے اس ڈی ایس پیز کے پاس بھی آیا مگر کچھ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اور پھر احتجاج میں شامل ہو گیا کہ ریڈیو ملازمین کو ان کی تنخواہ دی جائے۔

پورے ملک میں ریڈیو پاکستان کے ملازمین ریڈیو اسٹیشنز، پریس کلب اور ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر کے ملازمین شاہراہ دستور پر اپنے بنیادی حق، تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنا آئینی حق شاہراہ دستور پر استعمال کرنے سے قاصر نظر آ رہے تھے۔ ریڈیو ملازمین کے اونچے اونچے نعرے ساڈا حق ایتھے رکھ، اور ساتھ اس کوشش میں تھے کہ پولیس کے ساتھ الجھنے سے گریز کیا جائے اور مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرتے، پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کیا جائے۔

جناب وزیر اعظم شہباز شریف نے 9 مئی کو بلوائیوں کی طرف سے ریڈیو پاکستان پشاور کو جلائے جانے کے بعد جب ریڈیو پاکستان پشاور کا دورہ کیا تھا تو اس وقت مارکونی کے ریڈیو کو بچاتے بچاتے زخمی ہو جانے والے ریڈیو پاکستان کے ملازم نصیر خان سے بھی ملاقات کی تھی۔ نصیر خان نے مارکونی کے ریڈیو کو بچانے کے لیے اپنے جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے ہاتھ جلا ڈالے۔ جب وزیر اعظم شہباز شریف نصیر خان کو شاباشی دینے لگے تو ڈرتے ڈرتے نصیر خان نے وزیر اعظم سے عرض کیا کہ جناب مجھے کسی تمغے یا انعام کی کوئی ضرورت نہیں بس خدارا مجھے اپنی حق حلال کی تنخواہ دلوا دیں کیونکہ ہم ریڈیو والوں کو دو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور اب تو لوگوں نے ہمیں ادھار دینا بھی بند کر دیا ہے۔

اس پر وزیر اعظم صاحب نے 48 گھنٹوں میں ریڈیو پاکستان کے ملازمین کو تنخواہ دلوانے کا وعدہ کیا مگر وقت گزرنے کے باوجود وہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ اسی لیے نصیر خان سفید لباس میں اپنے جلے ہوئے ہاتھوں پر پٹی باندھے وزیر اعظم کی راہ تاک رہا تھا کہ شاید جناب وزیر اعظم پہچان کر اسے اپنے پاس بلا لیں کہ یہ تو وہی ریڈیو پاکستان پشاور کا نصیر خان ہے جس نے مارکونی کا ریڈیو بچاتے ہوئے اپنے ہاتھ جلا ڈالے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسے شاباشی کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ آپ کی بہادری اور احسان کو پوری قوم زندگی بھر یاد رکھے گی۔

مگر نصیر خان کو کیا پتہ کہ شاہراہ دستور پر قائم اعلیٰ عدالتوں، وزیر اعظم سکیرٹیریٹ، وزیر اعظم ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس میں بنیادی حق مانگے سے بھی نہیں ملتا کیونکہ شاید عوام کی آوازیں ان ائرکنڈیشنڈ کمروں تک نہیں پہنچ پاتی۔ ریڈیو ملازمین اور پینشنرز کا احتجاج جاری تھا کہ پولیس کے ساتھ دھکم پیل میں ایک کمزور آواز سنائی دی کہ بیٹا ہم پر امن ہیں ہمیں لاٹھی نہ مارو۔ ہمیں دو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور یہ آواز لرزتے لرزتے دھیمی ہوتی نظر آئی لوگ اس کمزور آواز کو پانی پلاتے آسرا دیتے نظر آئے کہ اللہ سب ٹھیک کر دے گا تنخواہ اور پینشن اگلے ہفتے تک مل جائے گی اب صرف اس مہینے کا پتہ کرنا باقی ہے کہ وہ ہفتہ کس مہینے میں آئے گا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments