پودے ہمیشہ، بیج سے نہیں پھوٹتے


میرے ماموں جان مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ خود تو خواندہ نہ تھے لیکن مجھے تعلیم کے بنیادی سنگ میل طے کرتا دیکھ کر امی جان سے اکثر کہا کرتے ”میں اپنے بھانجے کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ معلومات عامہ کی آگاہی بھی دیتا رہوں گا۔“ ان کا ماننا تھا کہ نیزے کی قلم کو سرکنڈے کی قلم، قلم کر سکتی ہے اگرچہ نیزے کا پھل سخت خو ہوتا ہے جبکہ سرکنڈہ نرم خو۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے اپنی محبت نچھاور کرتے ہوئے، جہاں بھی جاتے، مجھے ہمیشہ ہمراہ رکھتے۔

وہ گاؤں بھر میں بھلے مانس چوہدری کے طور پر جانے جاتے تھے۔ کھیتی باڑی کا سارا کام، دہقان کی طرح، اپنے ہاتھوں سر انجام دیتے تھے۔ ہل چلا کر فصلیں کاشت کرنے کا دشوار ترین کام ہو یا پھل دار درخت لگانے کا مرحلہ، غرض تمام کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ میں نے انہیں ربیع کی فصلیں گندم اور مکئی وغیرہ کو پروان چڑھاتے دیکھا۔ خریف کی فصل خاص دھان کی پنیری اگاتے اور اس کے نازک پودوں کو الگ الگ کر کے قطار در قطار دلدلی کھیتوں میں منتقل کرتے دیکھا۔

بارآور ہونے اور سنہری رنگت اختیار کرنے پر ، دھان اور پھر اسے چھڑا کا چاول حاصل کرنے کے مشقت طلب مراحل سے نبرد آزما ہوتے، اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دیگر نقد آور فصلوں کی پرداخت سے لے کر برداشت تک کے مراحل کے دوران پسینے میں شرابور دیکھا۔ جب کھیتی باڑی سے فارغ ہوتے تو ہمیشہ سفید تہ بند اور کرتا زیب تن کیے ہوتے۔ حقہ اور کلف لگی طرے دار پگڑی ان کی شناخت تھی۔

ایک روز انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا۔ ”تمھیں گلاب کے پھول کیسے لگتے ہیں؟“ میں گلاب کے پھول اس کے پودے کی نازک ٹہنیوں پر جھولتے اسکول کے باغیچے میں دیکھا کرتا تھا۔ ان دنوں میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ میرا دوست اعظم بھی اسی سکول میں، میری ہی جماعت کا طالب علم تھا۔ اسے میرے ہم جماعت ’اعظما تچھ‘ کہہ کر زک پہنچایا کرتے تھے۔ میں سکول کے تقریباً سبھی امتحانوں میں اول یا دوئم آیا کرتا تھا لیکن اعظم کبھی بھی ڈھنگ سے پاس نہ ہو سکا۔

وہ ’ک‘ کو کاف کی بجائے تاف بولتا تھا۔ بک (book) کو بجائے بک کے بت کہتا تھا۔ وہ ’ڑ‘ کا تلفظ ’لے‘ ادا کرتا تھا۔ ان قدرتی خامیوں کے علیٰ الرغم وہ شریف الطبع بھی نہ تھا، ہم جماعتوں کی مدد کرنا تو درکنار، ان کی کاپیاں اچک کر اپنے نام سے چیک کروا لیتا۔ پکڑے جانے پر بجائے شرمندہ ہونے کے، قسمیں کھا کر یا ڈرا دھمکا کر کاپی کا مالک بن جاتا۔ اپنے جیومیٹری بکس کو سینت سینت کر رکھتا۔ بوقت ضرورت مجھے بھی، جو اس کا ہمسایہ بھی تھا، کبھی اپنا ’پیمانہ‘ یا ’پنسل تراش‘ عاریتاً نہیں دیا۔

وہ اتنا ’دور اندیش‘ تھا کہ مستحق نادار طلبا کی مدد اپنی جیب سے کرنے کی بجائے، شریف النفس بچوں سے کتابیں اور کاپیاں بطور عطیہ وصول کر کے بانٹ دیتا۔ اس نیکی کا ڈھنڈورا بھی خوب پیٹتا۔ ایک ایک کے پاس جا کر کہتا فلاں لڑکا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اس کا بستہ میری وجہ سے بھاری ہے۔ اس کی تیز طراری کی بدولت معاشرتی علوم کی ’مس‘ اسے مستقبل کا ’سیاست دان‘ کہا کرتی تھیں۔ ان تمام تر خصائص کے باوجود میں نے کبھی اسے ’اعظما تچھ‘ نہیں پکارا، ہمیشہ محمد اعظم کہہ کر بلایا۔

میرا دل ہمیشہ سے اس کے لیے کڑھتا کہ کوئی تو ہو جو اس کو ’تچھ‘ کی بجائے ’کچھ‘ سکھا دے۔ کچھ اور نہ بھی سکھائے ’بت‘ کو ’بک‘ بولنا سکھا دے۔ ’گھوڑا‘ کو ’گھولا‘ نہ کہے تاکہ میڈم کے تانگے کا گھوڑا اپنے نام کے بگڑنے پر دلتیاں ہی نہ چلا دے۔ سکول میں، ہماری ساری میڈمز اس کو پڑھائی کی پٹری پر چڑھانے کے لیے مجبور تھیں۔ ان سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ پڑھائی کے بیج نہ ہوں تو پودا کہاں سے پھوٹے؟

جب میں نے ماموں سے کہا کہ مجھے گلاب کے پھول بڑا لبھاتے ہیں تو وہ مجھے اپنے ساتھ ایک باغیچے میں لے گئے اور صحت مند گلاب کے پودے کی کانٹے دار جوان ٹہنیوں کے قتلے کر کے ساتھ لے آئے۔ تھوڑی دور، حویلی کے پاس، آ کر انہوں نے کدال کی مدد سے، زمین کھود کر قتلوں کو مٹی میں دبا دیا۔ کہنے لگے ”چند دنوں تک قلموں میں شگوفے نکل آئیں گے تب ہم ان کو زمین سے نکال کر سلیقے سے کیاریوں میں لگا دیں گے تو گلاب کے خوبصورت پودے اگ آئیں گے۔

موسم سرما کے اختتام پر ان پر پتیاں اور بعد از آں کلیاں نکلیں گی۔ پتیاں، انجام کار، خوبصورت سبز پتوں میں بدل جائیں گی جبکہ کلیاں گلابی پھول بن جائیں گی۔“ میں نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے پوچھا ”گلاب کے پودے بغیر بیج کے بھی اگ آئیں گے؟“ تو انہوں نے جواب دیا ”کیوں نہیں! اگر مالی سگھڑ ہو تو بغیر بیج کے بھی پودے پھوٹ آتے ہیں۔ ہاں، البتہ اگر مالی اناڑی ہو تو بیج بھی بے کار ہو کر پھوٹ جاتے ہیں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments