رفیع مصطفی کا ناول: اک راستہ ہے زندگی


اساطیر کہن کے صریح استدلال کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ لاشعور میں موجود ابتدائی تہذیب و ارتقا کی منازل، خوابوں کے ذریعے انسانی فکر و عمل کی حکمت عملی اور انسانی کرداریت کی وضاحت میں نمایاں اور عمل پذیر ہوتی ہیں۔ اس تصور ذہن کے عملی خد و خال کی اہمیت کو اولاً ژنگ (Jung) اور اس کے بعد فرائیڈ کی پیروکار، میلینی کلائن (Melanie Kline) نے منطقیت اور نتائجیت کے اعتبار سے درست قرار دیا تھا۔ اس تصور ذہنی میں انسان کے تجزیہ نفسی کے لیے اس کے خوابوں اور خیالات کے خام مواد سے ایسی مدد فراہم ہوتی ہے جو ذہنی امراض اور ذہن میں موجود پیچیدگیوں کی دریافت او ر، بعد از دریافت و شناخت، اس کی مسیحائی کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔ رفیع مصطفی صاحب کے ناول ”اک راستہ ہے زندگی“ کے کردار بھی تجزیہ ٔ نفسی کے عمل سے گزر کر کامل انسانی خدو خال کے پیراہن میں اپنی کار مسیحائی میں مشغول نظر آتے ہیں۔

ناول ”اک راستہ ہے زندگی“ کی اساس میں ایک خاندانی اکائی ہے جو قیام پاکستان کے ارتقا کے درجہ بہ درجہ مراحل میں شمولیت اور قرار واقعی حمایت کی علامت ہے، جب کہ ناول کا اختتامیہ سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوتا ہے۔ واقعاتی اعتبار سے اس ناول میں نتائجیت کا التزام برتنے کے لیے مختلف مکاتب فکر اور ان کے نظریات و طرز حیات کے مابین اختلافات و یکسانیت کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے لیکن مصنف نے کرداریت کی نفسیاتی بے اعتدالی کے صلے میں ملنے والی تحقیقات کو فکشن کا حصہ بنا کر اپنا مطالعہ پیش کرتے ہوئے کئی در وا کیے ہیں۔ رفیع مصطفی صاحب نے بسا اوقات اس حقیقت کی پردہ کشائی بھی کی ہے کہ اس ناول کے اختتام کے سلسلے میں متنوع آرا سامنے آئی ہیں۔ یقین کی حد تک گمان کیا جاسکتا ہے کہ یہ آرا ناول کے کلیدی کردار جاوید اور کہکشاں کے رویوں سے تعلق رکھتی ہوں گی کیوں کہ ناول کا اختتام ان ہی دو کرداروں کی ذہنی بے ترتیبی اور ممکنہ مفروضات پر مبنی ہے۔

ناول اپنے ابتدائی صفحات میں اس پس منظر کو بیان کرتا ہے کہ جو قیام پاکستان کے بعد عمومی صورت حال کے ساتھ سامنے آتی ہے یعنی سواد اعظم کا ہجرت اور نئی سرزمین پر آباد کاری کے صبر آزما مراحل سے گزر کر زندگی کے دھارے میں شامل ہونا اور ساتھ ہی ملکی حالات، بالخصوص مارشل لا کا زمانہ اور مشرقی پاکستان کے اندرونی حالات اور انسانی رویوں کو نہایت صائب اور تجزیاتی انداز میں بیان کرتے ہوئے ایک غیر جانبدارانہ اور شائستہ جذبۂ انسانی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سیاسی رویوں کے بیانات کے پہلو بہ پہلو ناول میں موجود کرداروں کے ذریعے عام کائناتی تجربوں کی پیش کش، رفیع مصطفی صاحب کی تخلیقی اور جذباتی، ہر دو عناصر کی پختگی کا بین ثبوت ہے۔ کردار کے حوالے سے بات کی جائے تو پیارے میاں کے کردار میں یہ نظر آتا ہے کہ پیارے میاں اپنے بچپن کی ناہمواریوں کے سبب ایک قسم کی خود ساختہ نرگسیت میں مبتلا ہوئے جہاں وہ باہم دیگر استوار ہونے والوں رشتوں کو مسترد کر کے ذہنی قید کو اپنے وجود پر طاری کرلیتے ہیں۔ مار پیٹ اور سزاؤں سے عبارت اپنے تایا کاوہ رویہ جو بچوں کی بزعم خویش تربیت پر مبنی تھا، پیارے میاں اور ان کے بڑے بھائی کے لیے سوہان روح ثابت ہوا تھا۔ بڑے بھائی نے تو راہ فرار کو غنیمت جانا لیکن پیارے میاں نے طویل عرصے تک اس رویے کو سہا اور نتیجتاً اًن کی شخصیت میں محدودیت کی وہ صفت پیدا ہوئی جو اپنے آپ میں الجھنوں کے ساتھ برس ہا برس زندہ رہتی ہے کیوں کہ نفسیاتی طور پر معلول اسی میں اپنی عافیت خیال کرتا ہے۔ بالعموم ایسے شخص میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفسیاتی خلل اسباب (Psycho Neurosis) کو پہچانے اور اپنی شخصی طرز عمل میں اصلاح کی سعی و جہد کو راستہ دے، لیکن رفیع مصطفی صاحب نے انسانی رجائی پہلوؤں کی ایمایت کو نظر انداز نہیں کیا ہے جو خیر و شر، ہر دو مقامات پر بہر صورت موجود رہتی ہے۔

مسمر (Mesmer، آسٹریا کا ایک طبیب) نے اپنے طریقہ ٔ علاج میں مقناطیسی اثرات کو اولیت دی تھی اور حیرت انگیز بات یہ رہی کہ مسمریزم کے اس طریقہ ٔ علاج میں مریضوں کو شفا بھی ملتی رہی۔ بعد ازاں پیرس کے معالجاتی عملے کی مخالفت کے سبب یہ راز بھی کھل گیا کہ درحقیقت مریض طریقہ ٔ علاج سے نہیں بلکہ اپنے صریح خیالات و جستجوئے امید سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ رفیع مصطفی صاحب نے بھی مریض کی صحت مندی کے لیے ذہنی و جسمانی ردعمل کے افعال مثلاً رونے، خوابوں میں ایک ہی واقعے کو بار بار دیکھنے کے پہلو بہ پہلو خیالات کے مثبت اثرات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے اور اسی سبب سے پیارے میاں نے بھی اپنی ذہنی الجھنوں اور اس خود اذیتی کا علاج اپنے تایا کو معاف کرنے میں تلاش کر لیا او ر اس ضمن میں اپنی شریک حیات کے مخلصانہ مشورے کے ساتھ ساتھ من و عن قرآن حکیم کے ان ارشادات عالیہ کو ملحوظ رکھا کہ ”اور اگر معاف کردو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بھی بخشنے والا مہربان ہے“ (سورۃ التغابن 64، آیت 14 ) میں معاف کردینے میں ہی سماجیات و نفسیات کی اعلیٰ ترین اقدار کی برتری ہے جو تمام تر اخلاقیات پر منتج ہو کر معاشرت ہی نہیں، انسانی رویوں کی ارفعیت (Sublime) بھی قرار پاتی ہے۔

ناول کے کلیدی کردار ”جاوید“ اور ”کہکشاں“ کے بنیادی طرز عمل کو دیکھا جائے تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ پیارے میاں کی ذہنی الجھنوں میں ان کی اکلوتی صاحب زادی کہکشاں بھی حصے دار بنی۔ کہکشاں کے کردار میں ماں بننے سے محرومی کے عمل نے ذہنی اعمال کی ایک ایسی پیچیدہ نفسیاتی کیفیت کو جنم دیا جسے مکمل دیوانگی بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ کہکشاں نے جنونی کیفیات کے اظہارات کو اپنی فکر میں جگہ نہیں دی ہے، بلکہ ناشکری، راضی برضا کے برتاؤ سے انحراف، روابط استوار رکھنے والے اپنے قریبی رشتوں پر شک کا اظہار اور اپنے غم کو خوش سلیقگی سے نہ منانا جب کہ انسانی رویہ غم کو منا کر ہی اس کی شدت و حدت میں کمی کرتا ہے جیسا کہ میر ؔ فرما گئے کہ ”کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہو میں“ یا ”تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا“ ۔ ممکن ہے کہ کہکشاں نے اپنے غم کو منا لیا ہوتا تو اس کی زندگی میں اس غم کی لو سے ہی امید کی کرن روشن ہوجاتی اور آئندہ زندگی میں ماں کے مقام پر متمکن ہونے کے لیے وہ اپنے زندگی کے ساتھی جاوید کے ساتھ حد درجہ مخلصانہ رشتے میں بندھ جاتی۔ لیکن کہکشاں کے ان رویوں کو خود غرضی پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے جیسے اپنے قریبی رشتوں پر رحم نہ کھانا اور انہیں غیر محسوس انداز میں اس جرم پر سزا سے نوازنا جو ان سے سرزد ہی نہ ہوا ہو۔ کہکشاں کے کزن ”سلمان“ کا قابل رحم حالت میں سامنے آنا، کہکشاں کو ایک تبدیلی سے دوچار کرتا ہے اور وہ ممتا کے جذبے سے سرشار ہو کر اس کی خدمت کرتی ہے۔ فی الواقع دیکھنے والی آنکھیں بھی یہی گمان کرتی ہیں حتی کہ کہکشاں کی معالج بھی، لیکن انسانی ذہنی حرکیات (Dynamics) اتنی سادہ اور سرسری نہیں ہوتی ہیں۔ اگر کہکشاں کے کردار میں ممتا کے جذبے کے فروغ اور ارتقا پذیری میں مثبت رجحانات کی شمولیت ہوتی تو وہ جاوید (اپنے شوہر) پر ممتا نچھاور کرنے کی صورت میں اپنی دریافت و بازیافت کو ممکن العمل بنا لیتی۔ درحقیقت کہکشاں نے جاوید کو قصوروار سمجھتے ہوئے اسے اذیت سے دوچار کرنے لیے سلمان سے کسی نوزائیدہ بچے کی طرح سلوک کیا کیوں کہ کہکشاں کے رویے میں موجود نظام فکر میں معقولیت کے بالکل برعکس اور عصبی خلل (Mental Disorder) کے ان مظاہرات کا سراغ کہکشاں کے والد پیارے میاں کے رویوں کا تسلسل ہے جو سماجیات، انسانیات اور تعلیمات کی عدم موجودگی کے سبب پروان چڑھا۔

رفیع مصطفی صاحب کا بنیادی علم کیمیا اور بعد ازاں انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ نے انسانی ذہن کے جمود اور یک رخے پن کی تشریح و توجیہات کو سائنسی نقطۂ نظر سے بیان کیا ہے جس کے ادراک و فہم سے سوچ کے نئے زاویے جنم لیتے ہیں۔ آپ نے جاوید کے کردار کی وضاحت میں اس تعمیر و تربیت کو ملحوظ رکھا ہے جو نفسیات و حیاتیات کے اس ڈھانچے سے نمو پاتی ہے جہاں والدین کی مثبت خیالی اور اعلی اخلاقی اقدار کے عمل دخل نے جاوید کے احساسات، خیالات، استدلال اور قوت فیصلہ کو انسانی استعداد کی نیک نیتی، تکمیلیت اور عظیم مظاہرات میں تبدیل کیا۔ اس کے انسانی شعور کی صحت و کاملیت میں قوت حافظہ، قوت استدلال اور قوت اشتہا اپنی مثبت و حقیقی معنویت کے ساتھ اجاگر رہتی ہے۔ جاوید کے کردار میں مصنف نے ان خصائص کا التزام برت کر ایک مثالی انسان کی تصویر پیش کی ہے کہ جس میں جذبات و احساسات متناسب اور توازن کے معیار پر واقع ہیں۔ کہکشاں کے ان رویوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنا اور سلمان کی خدمت میں پہلو بہ پہلو شامل رہنا لیکن بسا اوقات اپنی فطری جذبوں سے نبرد آزمائی سے جاوید کے لیے ایک امتحانی صورت حال کا پیدا کر دینا در اصل مصنف کی انسانی شخصیت میں باہم دیگر مخالف قوتوں کے سراغ کی کوشش ہے جس میں خیر کو بالآخر فتح نصیب ہوتی ہے۔

Rafi Mustafa

جینے (Pierre Janet) نے تقسیم و انتشار شعور (Dissociation) کا تصور پیش کیا تھا جس کے مطابق شعور محض یکساں اور مربوط خیالات کا نام نہیں بلکہ وہ اکثر بالکل ہی مختلف دھاروں میں منقسم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں انتشار شعور کا ظہور ہوتا ہے جو لمحاتی ہیجانی کیفیات سے چل کر روزمرہ کے ذہنی اعمال و اطوار پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ جاوید کی اس کیفیت کو اس مقام پر بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ جب وہ رات کی تنہائی میں سلمان کی قابل رحم حالت ملاحظہ کرتا ہے اور اس کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوتا ہے کہ اب سلمان دوبارہ زندگی کی رعنائیوں کی جانب پلٹنے والا نہیں اور موت اس کے بہت قریب ہے۔ ایک لمحے کے لیے ممکن ہے کہ قارئین کے دلوں میں اس احساس نے جنم لیا ہوا کہ کیا جاوید، سلمان کو کسی طریقے سے راستے سے ہٹا دے گا اور اپنی زندگی کو دوبارہ اسی ڈگر پر لانے میں کامیاب ہو پائے گا۔ لیکن مصنف نے ایسا نہیں ہونے دیا اور خیر کی فتح اور ہر ہیجان و پریشان کن عمل سے مفید نتائج بر آمد کر کے انسانی ترفع کو بہر صورت قائم رکھا ہے۔ اختتامی سطور میں جاوید کا ایسا سوچنا اور خود سے ہم کلام ہونا کہ تمام تر احساس سعی اور عملی کاوش و جستجو کے بعد زندگی اپنے جس روپ کو انسان پر مسلط کرے اسے تسلیم کر لینا چاہیے، درحقیقت یہی انسانی شعور کی عظمت اور مثبت قوت اکتساب کا حاصل ہے۔

رفیع مصطفی صاحب کے ناول ”اک راستہ ہے زندگی“ میں سقوط ڈھاکہ کے اسباب، پاکستان میں مارشل لاء کے قیام و اثرات اور عوامی ردو قبول کے عمل اور رویوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور سیاسی اسباب کے ساتھ ساتھ انسانی اسباب کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور یہ موضوع بھی ایک علیحدہ مطالعے کا متقاضی ہے۔ بلاشبہ اس ناول کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ رفیع مصطفی صاحب کے فکر و قلم کی داخلیت ہمہ پہلو انسانی ارفع صفات سے متصف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments