ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے


مرزا اسد اللہ خاں غالب نے کہا تھا:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

ایسا کون سا تماشا باقی ہے جو اس مملکت خدا داد کے باسیوں نے نہیں دیکھا۔ آئے دن کوئی نیا تماشا ان کا منتظر ہوتا ہے۔ اور اس کی بھینٹ چڑھنے والے بھی ہمیشہ سے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دھرتی میں جب بھی کسی نے خود کو اصلی وزیر اعظم سمجھا، یا سمجھنے کی کوشش کی تو اسے اتارنے والوں نے زیادہ دیر نہیں لگائی۔ شاید اس سے انھیں اپنی اجارہ داری کے ختم ہونے کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ اس امر کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جنھوں نے سر جھکا کے ان کے سامنے جینا سیکھ لیا وہ تو کچھ نہ کچھ وقت گزار گئے۔ جس نے بھی سر اٹھانے کی کوشش کی اسے کرسی سے ہی اٹھوا دیا گیا۔ کیونکہ اس سے ان کی سالمیت خطرے میں پڑنے لگی۔ اور اس خطرے کے پیش نظر وہ ایک دم سے ایسا جھاڑو پھیرتے ہیں کہ پھر نہ کوئی بندہ رہتا ہے اور نہ ہی کوئی بندہ نواز۔

پنواڑی کی اس دکان میں پان لگانے والے کس رفتار سے بدلتے رہے اور انھیں بدلنے والوں نے کس سبک رفتاری سے کام لیا اس سے کون واقف نہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عمران خان صاحب جب تک ان کے ساتھ نبھاتے رہے تب تک سب بخوبی چلتا رہا۔ جوں ہی خان صاحب کو شک ہوا کہ اب عوام ان کے ساتھ ہیں اور ان کے پاس ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے تو انھوں نے سوچا کہ اب ان سے جان چھڑوانے کا وقت آ گیا ہے۔ مگر شاید وہ اس بات سے پوری واقف نہیں تھے کہ ان سے بگاڑنے والوں کا انجام کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ پارٹیاں جتنی تیزی سے بنتی ہیں وہ ٹوٹتی بھی اتنی ہی تیزی سے ہیں کیونکہ کرایے کا سامان ہمیشہ کرایے کا ہی رہتا ہے۔ اسے کوئی اپنا سمجھ بیٹھے تو اسے محض اس کی بھول ہی کہیں گے۔ باقی رہے عوام تو اتنے مضبوط نظام میں بھلا ان کی کیا حیثیت ہے۔ مگر خان صاحب ان سب چیزوں کو شاید اصلی سمجھ بیٹھے۔ اور یہی بھول ان کا دھڑن تختہ الٹنے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔

خان صاحب کو راہ سے ہٹانے کے لیے جو تماشا کیا گیا اسے ہمارے علاوہ پوری دنیا نے بھی دیکھا۔ ان کی تو یہ ریت پرانی ہے مگر اب سوشل میڈیا کا عہد ہے۔ اور لوگوں کی تھوڑی بہت اس تک رسائی بھی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اسے بھی بند کر دیا گیا تا کہ ان کے کارناموں کا کوئی سین لیک نہ ہو جائے۔ چلیں مان لیتے ہیں وہ سمجھے ہوں کہ اس میں وہ کامیاب رہے ہیں مگر باقی دنیا کا بھی کوئی حل کرتے کہ وہ تو سب کچھ دیکھ رہے تھے اچھا ہوتا کہ وہ کم از کم کچھ دن کے لیے پوری دنیا کا انٹرنیٹ بند کر دیتے تا کہ انھیں مکمل آسانی رہتی۔ اور اس دوران مشتعل افراد نے جو کچھ موبائل فونز میں ریکارڈ کر کے بعد میں میڈیا پر پھیلا دیا اس کا بھی کوئی بندوبست کر لیتے تو اچھا تھا۔ کیونکہ ان میں تو واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے ہی لوگ سادہ کپڑوں میں گاڑیوں سے اتر رہے ہیں اور مشتعل عوام کو جناح ہاؤس کے نام پر بنائے گئے کور کمانڈر کے محل نما گھر میں گھسا رہے ہیں۔ وہاں تو کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تو عوام کی بھلا کیا جرات کہ وہ کمانڈر صاحب کی مقدس دیواروں کو چھو سکیں۔ اور جب لوگ وہاں پہنچتے ہیں تو اس محل کے شیشے پہلے سے ہی ٹوٹے ہوتے ہیں۔ مشتعل عوام کو اکسانے اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو کئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے مگر ان کی تصویر مطلوب افراد کی فہرست میں کسی بھی اخبار میں نہیں آئیں۔

مگر اس دن سے صبح سے شام تک ایک ہی گیت مسلسل گایا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں انھیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ حالانکہ ان کو کسی نے پکڑا ہی نہیں کیونکہ گھر کے کسی فرد کو بھلا کون پکڑتا ہے۔ دھرا تو صرف انھیں کو جا رہا ہے جنھیں وہ دھرنا چاہتے تھے۔ انھیں دہشت گرد کہنے والوں کی زبانیں نہیں تھکتی۔ لیکن کوئی بھلے مانس یہ نہ پوچھ بیٹھے کہ انھوں نے دھماکہ کہاں کیا ہے؟

خیر اس تماشے میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ ابھی تک تو یہی لگتا ہے کہ ان کا تیر بالکل نشانے پہ جا لگا۔ سب سے مقبول عوامی لیڈر کو ناکوں چنے چبوانے اور پارٹی کو توڑنے میں وہ پوری طرح سے کامیاب رہے ہیں۔ البتہ آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھ جائے یہ کوئی نہیں جانتا۔ یوں لگتا ہے کہ وہ خان صاحب اور باقی امیدواروں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے سامنے سر اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اور مستقبل میں بھی کوئی یہ غلطی سر زد کرنے کی کوشش بالکل نہ کرے۔

ڈورے ہلانے والے ہلائے جا رہے ہیں۔ اشاروں پہ ناچنے والے محو رقص ہیں۔ سر اٹھانے والے سڑکوں، گلیوں اور قید کھانوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں۔ بھینٹ چڑھنے والے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ تماشائی محظوظ ہو رہے ہیں۔ سانس لینے والے اپنی سانسیں روکے حیران کھڑے ہیں۔ اور شطرنج کے پرانے کھلاڑی بازی جیت چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments