جاوید یادؔ۔ شاعر محبت


جاوید یادؔ ایک معروف، صاحب دیوان شاعر ہیں۔ ان کا ادبی سفر پانچ دہائیوں پر مشتمل ہے۔ ان کا اعلیٰ ادبی ذوق اور تخیل ان کی شاعری کی پہچان ہے۔ مقتدر ادبی حلقوں میں وہ ایک شاعر، دانشور، ادیب، کالم نگار اور سفر نامہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق صوفیاء کے معتبر شہر ملتان سے ہے، لیکن اپنی متواتر سخن آرائی اور جلوہ افروزی سے ملکی اور بین الاقوامی ادبی حلقوں میں ایک بہار آفریں مرتبہ پر فائز ہیں۔ زیر نظر مضمون جاوید یاد ؔ کے تخلیق کردہ شعری ادب کا احاطہ کرنے کی ایک سعیٔ ناتمام ہے۔

ان کے ادبی سفر پر طائرانہ نظر ڈالیں تو شعری سخن اور خاص کر نثری شاعری ہمیں غالب نظر آتی ہے۔ ان کے مشاہدات اور احساسات ان کے کلام میں اہمیت کے حامل ہیں۔ درون ذات اور خارجی مناظر کے زیر اثر ان کے اسلوب اور زبان و بیان پر قدرت کے باعث وہ اپنے ہمعصر شعراء میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ یادؔ کے ہاں معاشرے میں پیش آنے والے واقعات اور مختلف موضوعات کو احسن انداز سے قرطاس ادب پر منتقل کرنے کا موثر اور جداگانہ طریق نمایاں ہے۔ ان کے اسلوب میں شائستگی و ملائمت ان کے اپنے مزاج کی طرح جھلکتی ہے۔ وہ اپنے تخیل اور مشاہدات کو سادہ استعاروں اور علامات مگر سچے اور کھرے جذبات کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک حساس شاعر معاشرے کی ناہمواریوں اور نا آسودگیوں سے کنارہ کش نہیں رہ سکتا۔ جنون اور وحشتوں کا غبار، انسانیت کی تذلیل اور کئی ایک ناپسندیدہ اور غیر تخلیقی عوامل نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے تخلیق سخن کے دائرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک شاعر جہاں اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لئے کائنات کے رنگوں و خوشبوؤں کو اپنے سخن میں سموتا ہے وہیں وہ اس چیز کا بھی پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کے نشیب و فراز اور دکھ سکھ کو اپنے شعری اظہار کے ذریعے زمانے کو ان سے آگاہ کرے۔ یہ تمام عوامل اور ان کا برملا اظہار ہمیں یادؔ کی شاعری میں ملتا ہے۔

مختلف مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، شعراء اکرام اور ادباء کی نظر میں یادؔ صاحب کے شعری سخن کا مختصر تجزیہ ملاحظہ ہو:

جاوید یادؔ کے شعری اسلوب کے ر بارے میں معروف شاعر، دانشور، محقق اور نقاد جناب عرش صدیقی گویا ہوتے ہیں کہ، ”یاد ؔ کے ہاں نثری نظمیں گہرے شاعرانہ تاثر کی حامل ہیں۔ ان کی شاعری محبت کی شاعری ہے لیکن ان کے ہاں محبت کی داخلی واردات کسی زد یا کسی ایک شے سے مختص نہیں، بلکہ یہ واردات نوع انسانی سے گہرے رشتے کی عکاس ہے۔ اور اعلٰی تر انسانی اقدار اس محبت کا مرکز و محور ہیں۔ ان اقدار کا حوالہ ان کی ہر سطر میں موجود ہے اور اسے انہوں نے کمال والہانہ جذبہ و شوق سے اپنی شافی یسوع المسیح کی ذات سے استوار کیا ہے۔“

نامور اور جدید غزل کے نمائندہ شاعر جناب نذیر قیصرؔ بہت خوب صورت انداز میں یادؔ کی شاعری پہ اپنا تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”واقعۂ تصلیب کے پس منظر میں یادؔ کی تخلیق کردہ شاعری انسانی دکھوں کے نوحہ کو بیان کرتی ہے اور یسوع المسیح کی صلیب کو علامت بنا کر نئے موسموں کی بشارت دیتی ہے۔ “ مزید اس ضمن میں رقمطراز ہیں کہ، ”یاد ؔ نے اپنے شعری سخن سے یسوعؔ کی صلیب پر پڑی ہوئی رسم و روایات کی اس گرد کو ہٹانے کی کوشش کی ہے جو اس ذات پاک کے پیغام کو آہستہ آہستہ دھندلا رہی ہے۔ اور ہم صلیب کی روشنی سے دور ہو کر اپنی پر چھائیوں کے دھبے بنتے جا رہے ہیں۔ “

آنجہانی مذہبی راہنما، دانشور، ادیب اور مترجم عزت مآب بشپ ڈی چند کا جاوید یادؔ کی شاعری کو دیکھنے کا اپنا انداز ہے۔ موصوف نے یادؔ کی شاعری پہ کچھ اس طور اظہار خیال کیا ہے کہ، ”یاد کی شاعری معاشرے میں پھیلے ہوئے بے شمار دکھوں کی مظہر ہے۔ ۔ وہ دکھ جو معاشرے کے ہر موڑ پر ، ہر چوراہے پر ، ہر گلی اور گھر میں پھیلے ہوئے ہیں، کہیں نا انصافیوں اور جبر کی شکل میں اور کہیں عدم مساوات اور جانبدارانہ رویوں کی شکل میں۔ یاد ؔ اپنی تحریروں سے معاشرے میں ایک انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔ ایسا انقلاب جو محبت، دوستی، انصاف، مساوات اور امن و صلح کے سچے اور انمٹ نقوش لے کر آئے۔“

معتبر شاعر، ادیب، دانشور، سابقہ صدر شعبۂ اردو، مرے کالج سیالکوٹ۔ پروفیسر یوسف نئیر (مرحوم) نے یادؔ کی شعری پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر تھا کہ، ”جاوید یادؔ ایک خوب صورت اور باقاعدہ شاعر ہیں۔ ان کے شعری اسلوب میں مذہبی رنگ، ذات خداوندی سے ان کی محبت کی دلیل ہے۔ یادؔ کے گیتوں میں نہ صرف خداوند عالم سے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار ملتا ہے بلکہ ذات اقدس کی مسیحائی سے بھر پور شخصیت کا برملا ذکر بھی نمایاں ہے۔ یادؔ کے گیتوں سے ہمیں ایک روحانی بالیدگی اور تازگی ملتی ہے۔“

ماہر تعلیم، دانشور، شاعر و ادیب، نقاد اور محقق پروفیسر عاصی کر نالی نے جاوید یادؔ کے اسلوب اور تخلیق سخن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، ”معاشرتی حالات و مشاہدات کو لے کر یادؔ عصر حاضر کے تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے اور دنیائے انسانیت کے ہر دکھ اور آشوب کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ بنیادی قدروں کی شکست و ریخت پر نوحہ کناں ہے۔ وہ سمٹتی ہوئی نیکی اور پھیلتی ہوئی بدی کے خلاف قلمی جنگ میں سربکف ہے۔ یادؔ کی شعری تخلیقات میں محبت

کا درس ہے، تکریم محبت کا پیغام ہے، بنی نوع انسان سے ہمدردی کا آدرش ہے، نفرت سے نفرت کرنے اور پیار سے پیار کے چراغ روشن کرنے کی دعوت ہے اور انسانوں کے درمیان احترام و الفت کی خوش رنگ فضاء پیدا کرنے کی تحریک ہے۔ ”

جاوید یادؔ کے چند منتخب اشعار ملاحظہ کریں :
اب بہاروں کو لوٹنا ہو گا اب تو پتے بھی پھول لگتے ہیں
آج کے بعد بھی پڑھا جاؤں میں کتابوں میں اب لکھا جاؤں
چاند سے پیار کرنا ایسا ہے سب ستاروں سے دشمنی لینا
مسکرانا میرا ہی بھاری لگا ”ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا“
آئینے کو بھلا میں کیا دیکھوں آئینے میں بھی تیرا چہرہ ہے
ان ہواؤں سے دوستی کر لی میں پرندوں کے ساتھ اڑ تا ہوں
بے وفائی بھری ہے انساں میں جانور تو وفا کے پتلے ہیں
میں تو حیران ہوں کہ ابر کرم اس دفعہ میری چھت پہ برسا ہے
آؤ اب میرے نقش پا پہ چلو میں فضاؤں میں ہو چکا تحلیل

شعراء، ادباء اور دانشور کسی قوم اور معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یادؔ صاحب ادبی حلقوں میں ایک معتبر حیثیت کی حامل شخصیت ہیں۔ وہ ادبی تنظیم، ”پاکستان کرسچن رائٹرز گلڈ کے سرپرست اعلٰی کے منصب پر فائض ہیں۔ موصوف کی درجن بھر تصانیف زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کی چند ایک مطبوعات کا احوال ملاحظہ ہو، ۔“ یسوع میرا محبوب (نثری نظمیں، 1991 ء) ، کھلی آنکھ کا سپنا (نظمیں، غزلیں، 1999 ء) ، یسوع کے سنگ سنگ (گیت اور ریڈیائی فیچرز، 2006 ء) ، کب سوچیں گے؟ (اخباری کالمز کا مجموعہ، 2012 ء) ، پتھر، ریت اور پانی (سفر نامہ، 2023 ء) ۔ ”

کئی ایک ادبی اور سماجی تنظیموں نے یادؔ کی ادبی خدمات کے عوض ان کو بھر پور خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یادؔ اس پذیرائی اور تحسین کے مستحق بھی ہیں۔ اپنی ادبی تخلیقات اور خدمات ( 1991 ء تا 2023 ء) موصوف کو کئی ایک اعزازت سے نوازا جا چکا ہے۔ رب باری تعالٰی یاد ؔ صاحب کے اظہار و بیان میں اور بھی اضافہ فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments