پاکستانی سیریل تیرے بن اور پاک۔ بھارت ہم آہنگی


ہم زندگی کو جہاں ذاتی طور کسی نہ کسی طور برت ہی رہے ہیں وہیں کتابوں اور ٹی وی ڈراموں سے بھی اس کو کسی نہ کسی قدر جانا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ کتابوں کے صفحات پلٹتے، مانیٹر اور اسکرین پر سرفنگ کرتے اور کی بورڈ پر کھٹ پٹ کرتے ہی گزرا ہے۔ تاہم جب ہم کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو دل و دماغ کو حاضر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ٹی وی دیکھتے ہیں تو منطق اور استدلال کو گویا طاق پر دھر کر ٹی وی کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم ہر غیرمنطقی منظر کو دلبرداشتہ ہوئے بغیر برداشت کر لیتے ہیں اور ہر غیر معقول مکالمے کو بآسانی بغیر ڈکار کے ہضم کر لیتے ہیں تاہم جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی کے آج کل ”بین الاقوامی پاکستانی ہٹ،“ سیریل ”تیرے بن“ کے ناظرین و ناقدین کی ہو رہی ہے۔ البتہ ایک ”غیر خلاقی“ (غیراخلاقی بھی) قسم کا منظر ہمیں بھی اتنا ہی ناگوار گزرا ہے جتنا کہ کسی بھی سمجھدار انسان کو ناگوار گزر سکتا ہے۔ اور اس کے بارے میں ہم یہی کہنا چاہیں گے پیش کار در اصل ایک کامیاب ترین سیریل کی اپنے تئیں بین الاقوامی مقبولیت کو بھنانے کے چکر میں ناظرین کو چکرا دیا اور ناظرین بھنا اٹھے۔ شاید اسی کو اردو میں ”گھر پھونک تماشا دیکھنا“ کہتے ہیں؟

پیش کار اور مصنفہ وغیرہ ڈرامے کی انفرادیت اور جدت کے دعویدار ہیں تاہم ناظرین اس ڈرامے کی بعض مناظر کو ایک بھارتی ڈرامے ”اس پیار کو کیا نام دوں“ سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کے وہ منظر جس میں مرتسم میرب کو سوئمنگ پول میں پھینکتے ہیں۔ اسی قسم کا منظر سوشل میڈیا پر ارنو سنگھ رائے زادہ اور خوشی کماری گپتا کا دکھایا جا رہا ہے۔ جب کہ میرب اور مرتسم کے معاہدے جیسا معاہدہ اس سے قبل پاکستانی سیریل ”تانا بانا“ میں بھی دکھایا جا چکا ہے اور ایک پرانی پاکستانی فلم شاید سات لاکھ میں بھی صبیحہ اور سنتوش کمار کچھ اسی قسم کا معاہدہ کرتے ہیں۔ جب کہ میاں بیوی کی ایک دوسرے سے دوری تو اب تقریباً ہر دوسرے پاکستانی ڈرامے میں ‏ موجود ہے۔ ایک چیز جو کہ شاید کچھ پاکستانی ڈراموں میں ”جدید اور انفرادی“ قرار دی جا سکتی تھی، وہ ناظرین کی اضطراب و احتجاج کی وجہ سے حذف کر دی گئی۔

اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ ہم یہ سیریل کیوں دیکھتے ہیں بلکہ ٹی وی ہی کیوں دیکھتے ہیں تو اس کا سبب بس یہ ہے کہ دفتری اور دیگر مصروفیات کے بعد جب اور کچھ کرنے کو نہیں رہ جاتا تو ہم ٹی وی دیکھنے کے علاوہ کسی اور بڑی تفریح کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس سیریل کی پسندیدگی کی عام وجوہات میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے مطابق:

ایک دلچسپ کہانی، وہاج علی کا ایک باکردار انسان کے طور پر یمنیٰ زیدی سے تعلق، ایک مضبوط اور با اصول عورت کے طور پر یمنیٰ زیدی کے کردار کا وہاج علی سے تصادم اور دونوں کے درمیان ایک واضح سی جذباتی کشمکش جسے مرکزی جوڑے نے چھوٹے پردے پر خوبی سے پیش کیا ہے، شامل ہیں۔ جب کہ ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس ڈرامے میں عام ڈگر سے ہٹ کر ہیروئن کو کمزور اور روتی بسورتی دکھانے کے بجائے خودمختار اور دبنگ لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

لیکن اس ڈرامے کے حوالے سے ہمیں اس بات سے خوشی ہوئی کہ اس ڈرامے کو سرحد پار بھی اسی محبت سے پسند کیا گیا جس چاہت سے پاکستانی ناظرین نے پسند کیا۔ اور اس ڈرامے کو بین الاقوامی نہ سہی برصغیر ہند و پاک میں خاصی پذیرائی ملی ہے۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف عوام/ناظرین میں اچھی خاصی ذہنی ہم آہنگی بھی نظر آ رہی ہے۔

نہ صرف بھارتی ناظرین اور نقاد اس ڈرامے کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں بلکہ دونوں طرف کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی اسی پاکستانی ڈرامے کے چرچے ہیں۔ کئی بھارتی یوٹیوبرز اس ڈرامے اور اس کے حوالے سے پاکستانی ڈراموں کے بارے رطب اللسان ہیں۔ اور بھارت اور بھارتیوں سے منسوب پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت کے افسانوں کی قلعی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اور کم از کم اس ڈرامے کے حوالے سے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف کے عوام کا ردعمل، رویہ اور یویو ایک طرح ہی کا رہا ہے۔

دونوں طرف کے ناظرین اور ناقدین یمنیٰ زیدی کے حسن و جمال پر فریفتہ اور وہاج علی کی وجاہت کے ایک سے والہ وشیدا ہیں۔ اداکاری بھی دونوں ہی کی نہیں بلکہ ان کے بعد حیا اور مریم نامی کرداروں کی حامل اداکاراؤں سبینہ فاروق اور حرا سومرو سمیت تقریباً سب ہی فنکاروں کو سراہا جا رہا ہے۔

اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس ڈرامے کی 47 ویں قسط کے متنازع پرومو یا پھر حذف شدہ مناظر پر ہر طرف کے ناظرین کا عام ردعمل اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ایک سا نظر آ رہا ہے اور ڈرامے کی پیش کار، ہدایتکار اور مصنفہ کی وضاحتیں کسی کو بھی مطمئن نہیں کر پا رہی ہیں۔ اور اس پر مستزاد متنازع منظر میں تبدیلی اور جھول پر بھی ناظرین کا ردعمل یکساں ہے اور ناظرین اور نقاد پاکستانی اخبارات کی پیش کردہ مشہور اصطلاح ”غم و غصہ کی تعبیر“ بنے بیٹھے ہیں۔

اور تبدیل شدہ مناظر و مکالموں کے غیرمنطقی نتائج پر حیرت اور استعجاب کی تصویر بھی!

جب 47 ویں قسط کا پرومو دکھایا گیا تو پاکستانی ہی نہیں بھارتی ناظرین کی طرف سے بھی اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ ہر کسی کا خیال تھا کہ وہ مرتسم جیسے کردار سے اس قسم کی حرکت کی توقع کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ جب کہ میرب جیسی پختہ کردار سے بھی اس قسم کی حرکت غیرمتوقع ہی قرار دی جا رہی ہے۔ ناظرین ہی نہیں نقاد بھی اس قدر جذباتی نظر آئے کی کرداروں کی حمایت میں ذاتیات پر اتر آئے۔ اور پیش کار اور مصنفہ وغیرہ کو کسی ذاتی دشمن کی طرح ہی کھدیڑ ڈالا!

اگرچہ میرب اور مرتسم کے کردار اور سیریل کی بربادی پر ہمیں بھی افسوس ہے تاہم ہمارا خیال ہے بہتر یہی ہوتا کہ اس موڑ پر کہانی سنسنی خیز بنانے کے بجائے معنی خیز بنا کر میرب اور مرتسم کو ایک کیا جا سکتا تھا، مثال کے طور پر بڑی آسانی سے حیا کی ممکنہ اور مبینہ طور پر مرتسم کو لکھی ہوئی گمشدہ چٹ کو برآمد کر کے اسے حیا کے طرز تحریر (یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مرتسم اپنی کزن کے طرز تحریر سے ناواقف کیسے رہ گئے؟ ) سے ملا کر حیا کا پردہ فاش کیا جا سکتا تھا اس سے اگرچہ ناظرین گو زیادہ مطمئن نہ بھی ہوتے مگر تب وہ اتنے مایوس بھی نہ ہوتے جتنا کے ڈرامہ سیریل کے 47 ویں قسط کے پرومو اور بعد کی بوکھلاہٹوں سے ہوئے!

البتہ ناظرین و ناقدین کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ٹی وی کا ایک نام ”ایڈیٹ باکس“ بھی ہے۔ سو اس سے اتنی زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں کہ پوری نہ ہونے پر شدید مایوسی کا شکار ہو جائیں۔

۔ کسی دانشور سے کسی نے پوچھا کہ ”آپ نے عقل کہاں سے سیکھی؟“ تو انہوں نے کہا، ”احمقوں سے۔“ پوچھا گیا ”وہ کس طرح؟“ جواب دیا، ”ان کی جو بات مجھے پسند نہ آئی میں نے اس سے گریز کیا۔“ سو اس طرح آپ بھی ٹی وی کی نا پسندیدہ باتوں سے گریز کریں۔ یا پھر ٹی وی سے ہی گریز فرمائیں۔ جب کہ فائدے میں وہ صاحب رہے جنہوں نے فرمایا تھا کہ میں ٹی وی کا شکرگزار ہوں کہ اس کی وجہ مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا کیوں کہ جب باقی سب لوگ ٹی وی دیکھتے تھے تو میں آرام سے کتاب پڑھ لیتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments