فوج کو سیاست سے کیسے علیحدہ رکھا جائے


پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات اور تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ کے تناظر میں یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ فوج کو ملکی سیاست سے کیسے الگ رکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت گو کہ ملک میں آئین کی عمل داری ہے۔ اسی کے تحت مقررہ طریقہ کار کے مطابق ایک منتخب حکومت بھی کام کر رہی ہے اور بظاہر تمام اسٹیک ہولڈرز آئین کا احترام بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ ملکی سیاست میں فوجی قیادت کی مرضی و خواہش کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔

حیرت انگیز طور پر سیاسی پارٹیاں اور عدلیہ یکساں طور سے تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں آئین کے مطابق ہی تمام امور سرانجام پانے چاہئیں۔ حتی کہ پاک فوج نے بھی اعلان کیا ہوا ہے کہ فروری 2021 میں سیاست سے الگ رہنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کے بارے میں مختلف فوجی ذرائع تائیدی بیان بھی جاری کرتے رہے ہیں۔ لیکن جس ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں فوجی قیادت براہ راست حکومت کرنے یا بادشاہ گری میں ملوث رہی ہو، وہاں پر محض ایک اعلان کردینے سے آئینی انتظام فعال نہیں ہوجاتا کہ اب فوج سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔

سب سے پہلے تو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ ملک میں پچاس سال سے تو 1973 کا آئین ہی نافذ ہے لیکن اس دوران بھی دو فوجی جرنیل بالترتیب گیارہ اور نو برس حکومت کرچکے ہیں۔ باقی وقت میں بھی ملک میں حکومت سازی فوج کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہوتی رہے۔ یہ وقفہ خواہ جنرل ضیا کی آمریت کے بعد قائم ہونے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں کا دور ہو یا جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے بعد سامنے آنے والے حکومتی انتظام ہو، ہر دو مدتوں میں فوج براہ راست حکومت بنانے اور توڑنے میں دخیل رہی ہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحول میں پیپلز پارٹی نے حکومت قائم کی تھی لیکن اس حکومت کو مسلسل فوج کی طرف سے خطرہ لاحق رہا۔

اس کے بعد مسلم لیگ (ن) انتخاب جیت کر آئی لیکن اسی دوران فوجی قیادت یہ طے کرچکی تھی کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے ’پروجیکٹ عمران‘ کی داغ بیل رکھی گئی اور 2011 سے لاہور کی ایک ریلی میں اسے باقاعدہ لانچ بھی کر دیا گیا۔ بالآخر 2018 کے انتخابات کو مینیج کر کے عمران خان کو وزیر اعظم بنوا دیا گیا۔ اس کے بعد جو حالات رونما ہوئے اور عمران خان کیسے فوج کے چہیتے سے ناپسندیدہ لیڈر بن گئے، یہ جانی پہچانی کہانی ہے۔ لیکن اس کہانی میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کا سامنا اس سے پہلے ملکی سیاست میں مقبول اور پھر معتوب ہونے والی پارٹیوں کو رہا تھا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے قومی سیاست میں فوج کی مداخلت روکنے کے لئے 2006 میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدہ میں سول حکمرانی کے لئے بعض بنیادی اصول طے کیے گئے تھے۔ ان میں عدلیہ کو مضبوط کرنے، پارلیمنٹ مستحکم اور فوج کو سیاسی امور سے دور رکھنے جیسے معاملات پر ملک کی دونوں پارٹیوں نے اتفاق رائے کیا۔ پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو طویل جلاوطنی برداشت کرنا پڑی تھی۔

یوں یہ دونوں لیڈر ملک میں آئینی انتظام کی ضرورت کے قائل ہوچکے تھے۔ بدقسمتی سے 2008 میں ہونے والے انتخابات سے پہلے بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور بعد کے وقت میں دونوں پارٹیاں اس میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہیں۔ اس کی پہل میاں نواز شریف کی طرف سے کی گئی تھی جنہوں نے میمو گیٹ اسکینڈل میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اسٹبلشمنٹ کا آلہ کار بننا قبول کر لیا تاکہ وہ نوے کی دہائی کی طرح ایک بار پھر دو تہائی اکثریت حاصل کر کے ملک پر حکمرانی کرسکیں۔ یہ خواب تو پورا نہ ہوا لیکن جب نواز شریف کو فوجی جبر کی وجہ سے نا اہل کیا گیا تو نئے ماحول میں پیپلز پارٹی نے بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لئے ویسی ہی غلطیاں کیں اور میثاق جمہوریت کے مقاصد حاصل نہ کیے جا سکے۔

اپریل 2022 سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مخلوط حکومت کا حصہ ہیں اور اہم امور پر کسی حد تک مشترکہ پلیٹ فارم پر متفق بھی ہیں لیکن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے لے کر اب تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ کی صورت حال تک میں موجودہ حکومت ایسے تمام اقدامات کا سبب بن رہی ہے جن سے ملکی سیاست میں فوج کا کردار کمزور ہونے کی بجائے مستحکم ہو گا۔ اور مستقبل قریب کا سیاسی نقشہ فوجی قیادت کی مرضی و منشا کے مطابق ہی طے پانے کا امکان ہے۔ گویا انتخابات سے پہلے ہی یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں کن عناصر پر مشتمل کیسی حکومت قائم ہونے کا امکان ہے۔ ان حالات میں یہ تصور کرلینا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا کہ فوج کا سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان سیاسی عناصر کی خود مختاری اور آئینی بالادستی کے لئے کافی ہے۔

یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ملکی ادارے بشمول پارلیمنٹ و عدلیہ آئینی تقاضوں کے مطابق حکمرانی کا انتظام چلانے کے لئے بنیاد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس پہلو کو سمجھنے کے لئے یہ پرکھنا ضروری ہے کہ یوں تو پارلیمنٹ اور عدالتی کارروائی کے دوران اکثر آئینی تقاضوں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس آئینی شق 184 ( 3 ) کے تحت بنیادی حقوق کی حفاظت کے لئے براہ راست کارروائی کرنے کا اختیار بھی ہے۔

ماضی قریب میں اس اختیار کا کثرت سے استعمال بھی مشاہدہ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف مواقع پر تقاریر کرتے ہوئے یہ واضح کرنا شروع کیا کہ فوج نے سیاست سے الگ رہنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ یا ان کے بعد آنے والے کسی آرمی چیف کی سربراہی میں فوج کسی صورت ملکی سیاست کا حصہ نہیں بنے گی۔ اس اعلان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے قوم نے متفقہ طور پر فوج کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں حصہ لینے یا نہ لینے کے حوالے سے خود فیصلہ کر سکتی ہے۔ ملک میں آئین نام کی کوئی ایسی دستاویز موجود نہیں ہے جو فوجی قیادت کے فیصلوں کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو۔

یہی وجہ ہے کہ نہ تو پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھایا جا سکا کہ آرمی چیف کس اختیار کے تحت فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں اظہار خیال کر رہا ہے اور اگر یہ بیانات ملکی آئین کی خلاف ورزی کا اعتراف ہیں تو ایسے فوجی لیڈر سے جواب طلب کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی ملکی اعلیٰ عدلیہ میں اس حوالے کوئی بے چینی یا اضطراب دیکھنے میں آیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات کو بنیادی حقوق کا معاملہ قرار دے کر ہائی کورٹس کے حقوق نظر انداز کر کے خود اس معاملہ پر حکم جاری کرنے کا اقدام کرچکی ہے۔

اسے تو فوری طور سے اس غیر معمولی بیان بازی کا نوٹس لینا چاہیے تھا کہ کوئی فوجی سربراہ کیسے علی الاعلان فوج کے سیاسی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے، اب اس کے تائب ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ اس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ نہ تو آئین کی حقیقی معنوں میں محافظ ثابت ہوئی اور نہ ہی اس اہم ادارے نے کوئی ایسی ریڈ لائنز واضح کیں کہ ملک کے تمام ادارے جن کا احترام کرنے کے پابند رہتے۔

یہ صورت حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ دہائیوں کے دوران آئینی تقاضوں پر نظریہ ضرورت، مجبوری یا کسی کمزوری کے باعث مفاہمتی رویہ اختیار کرتے ہوئے پیدا کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2021 میں فوجی قیادت کی طرف سے اچانک یہ اعلان سامنے آنے لگا کہ اب وہ سیاست سے الگ ہو رہی ہے تو کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا بلکہ میڈیا کی حد تک فوج کے فیصلہ کی شان میں قصیدہ گوئی کا روایتی سلسلہ ضرور شروع ہو گیا۔ ان حالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوج اور سیاست کا تعلق اس قدر پرانا، پیچیدہ اور تہ دار ہے کہ اسے نہ تو ایک اعلان سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سیاسی نعرے بازی یا مہم جوئی اور تجزیہ نگاروں کی بین السطور تنقید سے اس میں کوئی قابل قبول تبدیل رونما ہو سکتی ہے۔ سیاسی نعرے ان معنوں میں اپنی اہمیت کھو چکے ہیں کہ پارٹیوں اور لیڈروں کو عوامی حاکمیت کا خیال صرف اسی وقت آتا ہے جب وہ خود ریاستی جبر کا نشانہ بن رہے ہوں۔ حکومت میں آنے کے لئے وہ کسی بھی قسم کی مفاہمت اور سودے بازی پر تیار ہوتے ہیں۔

اس پس منظر میں سیاست سے فوج کا تعلق ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا یہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ملک کا موجودہ آئینی انتظام تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب اس مسئلہ کو درپردہ اور خفیہ ملاقاتوں یا اجلاسوں میں زیر بحث لانے کی بجائے اس پر کھلا عوامی مباحثہ شروع کیا جائے جس کے لئے مناسب ترین پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہو سکتی ہے۔ ان مباحث میں فوجی قیادت کو بھی حصہ لینے کی دعوت کی جائے۔ اسی طرح یہ جائزہ لیا جا سکے گا کہ کن وجوہ کی بنیاد پر ملک آئین کے مقررہ خطوط سے ہٹ کر موجودہ ڈگر پر روانہ ہو چکا ہے۔

تاہم یہ مقصد صرف اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے جب ملک کی تمام سیاسی قوتیں ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا طریقہ ترک کر کے مل جل کر بعض بنیادی جمہوری اصولوں پر اتفاق کریں۔ میثاق جمہوریت۔ 2 ایک اچھا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایسے کسی معاہدے میں تحریک انصاف سمیت ملک کے ان سیاسی گروہوں کو بھی شامل کیا جائے جنہیں قومی سلامتی کے غیر آئینی اور فرسودہ نظریہ کے تحت مین اسٹریم سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ سیاسی قوتیں اگر آئینی انتظام پر متفق ہوں تب ہی فوجی قیادت کے ساتھ مل کر کسی ایسے لائحہ عمل پر بات ہو سکتی ہے جس کی بنیاد پر ایک خاص مدت میں فوج بتدریج سیاسی امور سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ اگر اس طریقہ کار کے بنیادی اصولوں پر اتفاق کر لیا جائے تو یہ مدت دس سے پندرہ سال تک مقرر کی جا سکتی ہے۔

اس عمل میں سب سے پہلے ملکی عدلیہ کو غیر سیاسی کرنے کے لئے اقدام اور قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔ کیوں کہ ملکی سیاست پر فوجی تسلط میں عدلیہ ہی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ چند دہائی پہلے تک عدلیہ کا یہ کردار محض کسی فوجی بغاوت کے بعد اسے ’مجبوری‘ قرار دے کر تسلیم کرنے تک محدود تھا لیکن اب دیکھا جاسکتا ہے کہ عدلیہ کا سیاسی کردار ججوں کی ذاتی پسند و ناپسند کا محتاج ہو چکا ہے۔ اور یہ صورت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کسی معاملہ میں براہ راست فریق ہونے کے باوجود خود کو کسی معاملہ پر غور کرنے والے بنچ سے علیحدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

دوسرے مرحلے میں فوج کے ساتھ اختیارات کی تقسیم کے کسی قابل عمل منصوبہ پر اتفاق رائے ضروری ہو گا۔ اس میں سے سب سے پہلے سول اداروں میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسروں کی تعیناتیاں، سرکاری زمینوں پر عسکری اداروں کے قبضے، فوج کے زیر انتظام بہبود کے نام پر قائم صنعتوں اور کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا طریقہ کار اور فوجی ایجنسیوں میں سیاسی سیل ختم کرنے اور سیاست دانوں کی زندگیوں کے بارے میں فائلیں تیار کرنے کے طریقہ پر اتفاق رائے اہم ہے۔

فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کی بات کرنے والے سب عناصر کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اس مسئلہ کو ایک حقیقت تسلیم کر کے کسی منظم اتفاق رائے کے ساتھ ہی کوئی قابل عمل تبدیلی واقع ہوگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس موضوع پر سیاست کرنے کا طریقہ ترک کیا جائے اور آئین کی عملداری کے کسی قومی منصوبے پر کام کا آغاز ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments