رفیقِ اول: خواجہ صاحب


کچھ عرصہ قبل کا قصہ ہے کہ اک روز میں فٹ پاتھ پر چلا آرہا تھا کہ سامنے چار خواتین بہت دلکش انداز میں محوِ خرام تھیں۔ ان کے پیچھے ایک اور صاحب مجھے بہت پس و پیش میں مبتلا دکھائی دیے۔ شاید آگے نکلنے کی کوشش میں تھے۔ مگر جیسا کہ دستورِ زمانہ ہے، یا دستورِ زنانہ کہہ لیں، انہیں راستہ نہ ملا۔ جب میں بھی ان کا ہم قدم ہو گیا تو ان کی ڈھارس بندھی اور قدرے شائستہ انداز میں خواتین کو مخاطب کر کے کہا:
” اجی ذرا راستہ دے دیجے”۔
ان کے لہجے نے متاثر تو کیا مگر میں بھی چوں کہ عجلت میں تھا تو یہی سوچا کہ ابھی درمیاں سے ایک گلی بنے گی اور ہم اس خوشبو کی دیوار کے اُس طرف ہوں گے۔ اتنے میں ان چار خواتین میں سے ایک نے مڑ کر چتون دکھائی اور فرمایا؛
“آپ کو نہیں پتا میں شاعرہ ہوں؟”
اس پر وہ صاحب کچھ جھینپ گئے اور کہا؛
“مگر محترمہ ہم شاعر نہیں ہیں (زور ‘ہم’ پر)”۔
خلافِ توقع وہ خاتون کچھ دانش مند نکلیں اور سر پہ دوپٹہ لیتے ایک طرف ہو گئیں۔ بس جناب ان کے اس جملے نے کچھ ایسا کام کیا کہ ہم آج تک اپنے انتخاب پر منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ (اس کی توجیہ ذرا آگے ملاحظہ ہو)۔ جب ان سے تعارف ہوا اور احقر نے اسمِ گرامی پوچھا تو کہنے لگے: ” خاکسار کو خواجہ کہتے ہیں”۔ حالاں کہ شکل سے کافی معقول انسان نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ قدیم طرز کا مختصر نام ایسا کارگر ثابت ہوا کہ اب وہ خواجہ ہیں اور ہم خواجہ نواز۔ اتفاق سے بلکہ حسنِ اتفاق سے وہ اپنی ہی جامعہ کے شعبۂ اردو کے آٹھویں سمسٹر کے ان بے مہار طلبہ میں سے تھے جنہوں نے سارا عہدِ شباب اجسامِ نازک کے خد و خال پڑھنے میں گزار دیا اور اب بڑھاپے کو سپاس نامہ پیش کرنے کی تیاری میں ‘اے آمدنت باعثِ دلشادئ ما’ دہراتے رہتے ہیں۔ محترم نے مزاج بہت شائستہ پایا ہے۔ کبھی کبھی عادات ایسی ہو جاتی ہیں کہ ‘نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں’ والا معاملہ آن پڑتا ہے۔ ایسے میں چمڑا سونگھنے کے بجائے یونیورسٹی کی راہداریوں کا طواف کرنے لگتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ “جناب! کلاسیکی شعراء میں آپ کو کون اچھا لگتا ہے؟” انہوں نے بہت مختصر اور تاریخ جواب دیا۔ کہنے لگے؛ “آہ میرے دوست! دنیا فانی ہے”۔ اس کے بعد مجھ میں ان سے ٹھیٹ ادبی سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئ۔ ہوتی بھی کیسے کہ ایک دم موت یاد آ جاتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے تک ہمارے تعلق کی یہ صورتِ حال تھی کہ ‘ ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا” سے ” چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی” تک کا فاصلہ معدوم نظر آتا تھا۔
      وہ جب سنجیدہ ہوں تو خود سے خوف آنے لگتا ہے۔ ایک مرتبہ حد سے سنجیدہ تھے تو یکسر ناصح بن گئے۔ کہنے لگے ؛ ” دیکھو میاں! کبھی عورت کے پیچھے مت بھاگنا۔ تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔ زندگی اپنی ہے اسے صرف اپنے لیے جیو۔ اب مجھے ہی دیکھو ہزاروں چہرے سامنے آتے ہیں مگر ابھی تک پارسائی پر قائم ہوں”۔
      ان کے اس فلسفے سے مرعوب ہو جانے کہ کچھ روز بعد وہ لڑکھڑاتے ہوۓ میرے پاس آۓ اور گود میں سر رکھ کر رونے لگے۔ جی ہاں! میری گود میں۔ میں نے پوچھا؛ ” خواجہ صاحب! آپ کو کیا ہوا ہے؟”
      رندھی ہوئ آواز میں کہنے لگے؛ ” یار! آج تیسری بھی دغا کر گئی”۔
      ان کے ساتھ ہوتے ہوۓ کبھی کبھی ایسا معاملہ پیش آتا ہے جیسے آپ کسی لمبے سفر پہ ہوں اور آپ کو واش روم میسر نہ آۓ۔ کچھ ایسے سنکی آدمی ہیں کہ جب تک چند ایک چہروں کو خوب پیٹ بھر کر دیکھ نہ لیں ان کا دن نہیں کٹتا۔ ایک دن بن پوچھے ہی توضیح کرنے لگے کہ “صاحب یوں دیکھنے سے پلک جھپکنے کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے”۔
      کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔ مگر ان کا انتخاب لاجواب ہے۔ ایک بار یوں ہی میں نے کہہ دیا کہ خواجہ صاحب آج کوئی ‘لذیذ’ سا شعر سنائیے۔ پہلے انہوں نے مجھ سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا پھر ہونٹوں پر زباں پھیر کر کہنے لگے ؛
 پیرِ مغاں کی بادہ گساروں سے ٹھن گئی
 ساغر کی تہ میں قطرۂ سیماب رہ گیا”
مجھ سے عمر میں کافی بڑے ہیں اس لیے احتیاط برتتا ہوں۔ چاۓ اور سگریٹ ان کے اجزاۓ خورد و نوش میں مرغوب ترین حصے ہیں۔ ہر مرتبہ ہوٹل پہنچنے پر چونک پڑتے ہیں کہ “اوہ! میں پیسے گھر ہی بھول آیا”۔
فطرتاً بہت نیک آدمی ہیں۔ خواتین کے پاس سے گزریں تو سبحان اللّٰہ کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ میاں تم بھی پڑھا کرو نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ یونیورسٹی کی راہداری میں سے گزرتے ہوۓ میرے پہلو میں زور سے کہنی ماری اور کہا: ” اوۓ بد ذوق انسان! وہ دیکھ کیا کمر ہے سبحان اللّٰہ”۔ یعنی وہ اس امر کے واقع ہونے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے کہ ” آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر”۔
 ایک اور مختصر سا قصہ سنتے چلیے۔ ایک دفعہ اکادمی ادبیات پاکستان کے ایک مشاعرے میں ہمارا جانا ہوا۔ وہاں ایک خاتون شاعرہ بھی بلائی گئیں۔ جب انہوں نے اپنا کلام پڑھنا شروع کیا تو یہ صاحب باقاعدہ گریباں چاکی پہ اتر آئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ روشنیاں گل کر دی گئیں ورنہ خواجہ صاحب وہاں سے ہالی ووڈ کی ایکٹریس بن کے باہر نکلتے۔
 یہ چھے ماہ کا عرصہ میں نے جس صعوبت میں گزارا ہے اس کا اندازہ وہ مسافر ہی کر سکتا ہے جسے ابھی تک واش روم میسر نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل ایسے لوگ کم یاب بھی ہیں اور نایاب بھی۔ چند روز پہلے ہی میں نے ان سے پوچھا کہ ” خواجہ صاحب! اب تو آپ ہمارے مہمان رہ گئے ہیں۔ یہ بتائیے کہ آپ نے ان چار برسوں میں کیا سیکھا؟”۔ انہوں نے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور دھواں چھوڑتے ہوۓ وہی تاریخی جملہ کہا؛ “آہ میرے دوست! دنیا فانی ہے”۔ المناک المیہ یہ ہے کہ تمام مسافر گاڑی سے اتر چکے ہیں مگر ہم ابھی تک ٹانگوں کو ایک دوسرے سے اوپر نیچے پیوست کیے سیٹ پر بیٹھے رہنے کی ضد پہ اٹکے ہیں۔ یہ شش ماہی رفاقت اب سیلِ تند کی طرح بہہ چکی ہے اور اب فراقِ یار کو جھیلنے کے لیے ہم درج ذیل قسم کی تضمینی شاعری (گستاخی معاف) کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں؛
منصبِ ‘دلبری’ کے کوئی قابل نہ رہا
 ہوئی معزولیٔ انداز و ادا تیرے بعد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments