رہنے کے قابل پاکستان


پاکستان میں پھیلتے مایوسی اور بے یقینی کے سائے تمام پاکستانیوں کے لئے، چاہے وہ ملک کے اندر رہتے ہوں یا بیرون ملک، سوہان روح ہیں۔ اگر آپ کا تعلق معاشرے کے محروم طبقے سے ہے تو دن رات دال روٹی کی فکر میں گزر جاتا ہے اور آپ کا تعلق متمول طبقے سے ہے تب بھی اس بے یقینی کے دور میں دل ایک حزن کی کیفیت سے ہمہ وقت دوچار ہے۔ اسی لئے تو حکیم الامت نے کہا تھا

غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

اسی دردمندی کی کیفیت سے دوچار میرے ایک دوست نے، جو بیرون ملک مقیم ہیں، اس جانب توجہ دلائی کہ کچھ بات اس ملک کے عوام کے بارے میں بھی ہونی چاہیے کہ ہماری گفتگو عموماً سیاسی پارٹیوں، سیاستدانوں اور اداروں کے کردار تک محدود ہوتی ہے۔

تو آئیے گفتگو کا آغاز ایک سوال سے کرتے ہیں۔ کیا یہ ملک رہنے کے قابل ہے؟ میں اس سوال کا جواب اپنے تئیں نہیں دینا چاہتا بلکہ چند حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے چوٹی کے سرکاری افسران، سینئر فوجی افسران، اعلی عدلیہ کے جج اور سیاست دان ریٹائر منٹ کے بعد اس ملک میں نہیں رہتے۔ وہ اپنے بچوں کو بھی یہاں نہیں رکھتے۔ ان کے اثاثے بھی بیرون ملک ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر تک پہنچتے تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔

ان کی ملکیت کا دورانیہ دہائیوں پر محیط ہوتا ہے۔ یوں انہیں اس ملک کی خدمت اور اس کی تقدیر بدلنے کے لیے وافر وقت ملا لیکن وہ اس ملک کو خود اپنے رہنے کے قابل بھی نہ بنا سکے۔ نتیجتاً اب عام شہری بھی اپنا مستقبل پاکستان سے باہر دیکھتے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان چھوڑ کے جانے والوں کی تعداد 9 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

لیکن یہ ملک 25 کروڑ نفوس کا ملک ہے۔ یہ پچیس کروڑ لوگ تمام کے تمام کسی اور ملک میں سکونت اختیار نہیں کر سکتے۔ ہم نے ان بتوں سے امیدیں وابستہ کر کے اپنی قومی زندگی کے 75 سال ضائع کر دیے۔ ہم کبھی ایک سیاستدان اور کبھی دوسرے سے توقعات وابستہ کر بیٹھے کہ یہ ہمارے لئے کچھ کریں گے۔ کبھی ایک نظام اور کبھی دوسرا، کبھی مارشل لاء اور کبھی جمہوریت، کبھی ایک مسیحا اور کبھی دوسرا۔ لیکن ہم نے کبھی اللہ تعالی کے اس پیغام کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

بھائیو اس میں قوم کا ذکر ہو رہا ہے حکومت کا نہیں۔ قوم میں اور آپ ہیں۔ جب تک ہم کسی ایسی حکومت کا انتظار کرتے رہیں گے جو معجزاتی طور پر ہمارے حالات بدل دے تب تک ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے۔ اس ملک کو ہمیں خود ہی اپنے لئے رہنے کے قابل بنانا ہو گا۔ کوئی اور ہمارے لئے یہ کام نہیں کرے گا۔

لہذا مندرجہ ذیل سطور میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ حکومت اور ریاست کی کیا ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داریاں کون سی سیاسی پارٹی دوسروں کی نسبت بہتر طور پر انجام دے سکتی ہے۔

دور حاضر میں اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن شاید سب سے بڑی وجہ آبادی کے ایک بڑے طبقے، جو زیادہ تر معاشی طور پر پسماندہ لوگوں پر مشتمل ہے، میں اس مسئلہ کی آگہی کا نہ ہونا اور وہ نام نہاد شرم و حیا ہے جو ہمیں اس مسئلے پر بات کرنے سے روکتی ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ اگر اس پر فوراً قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں اس سے جو مزید پیچیدہ مسائل پیدا ہوں گے ہمارے پاس ان کا آسان تو کیا مشکل حل بھی نہیں ہو گا۔

لہذا ہم سب کو اپنے کارخانوں میں، اپنے دفاتر میں، اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس مسئلہ کو صرف اجاگر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ضبط تولید کے طریقوں کی باقاعدہ تعلیم بھی دینی چاہیے۔ اس طرح ہم بہت کم عرصے میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو جو شہروں اور قصبوں میں مقیم ہیں اس پروگرام میں شامل کر سکتے ہیں۔ انہی لوگوں کے ذریعے ہم یہ تعلیم ان لوگوں تک بھی پہنچا سکتے ہیں جو براہ راست ہمارے رابطے میں نہیں۔ کارخانوں، دفاتر، یونیورسٹیوں وغیرہ میں اس پروگرام کی انجام دہی پر ان اداروں کی کوئی بہت زیادہ اضافی رقم بھی صرف نہیں ہوگی۔

ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم اور ہنر کی کمی ہے۔ حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اڑھائی کروڑ بچے پرائمری تعلیم بھی حاصل نہیں کر پا رہے۔ جو بچے سکول جاتے ہیں ان کی خاصی بڑی تعداد میٹرک سے بھی پہلے یا میٹرک کے بعد مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔ طلبا کی ایک بہت بڑی تعداد ایف اے کے بعد تعلیمی عمل سے باہر ہو جاتی ہے۔ چند فیصد طلبا جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے ایک معقول آمدنی کے حصول سے قاصر رہتا ہے۔ ہمارے بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ان مدارس کے فارغ التحصیل علماء کی ایک بڑی تعداد مسجدوں اور مدرسوں میں ہی خدمات انجام دینے کے قابل ہوتی ہے۔ لہذا مسجدوں اور مدرسوں کی تعداد میں ہر سال اچھا خاصہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔

ہمیں ان اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول بھیجنے کے لیے ان تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں جو تعلیم کے میدان میں عمدہ کام کر رہی ہیں۔ ہمیں اپنی زکوٰۃ، صدقات، خیرات اور عطیات کا ایک بڑا حصہ ان تنظیموں کو دینا چاہیے۔ ہمیں مدرسوں کو زکٰوۃ اور صدقات دینے کے لئے یہ لازمی شرط عائد کرنی چاہیے کہ وہ مدرسے میں زیر تعلیم بچوں کے لئے ہنر سکھانے کا بندوبست بھی کریں۔ سکلز ڈویلپمنٹ سینٹر ہر مدرسے کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔

وہ پیسے جو ہم ہر چوراہے پر پیشہ ور گداگروں کو دیتے ہیں وہ ان اداروں میں جانا چاہئیں۔ ہمارے ہاں کئی ادارے لوگوں کو مفت کھانا مہیا کرتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ برسر روزگار افراد بھی اس مفت کی ہنڈیا کے طلب گار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس خوراک پر پہلا حق ہمارے بچوں کا ہے۔ وہ ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کا صحتمند ہونا ضروری ہے۔ لہذا ان مخیر حضرات کی فیاضی کو ہمارے ان بچوں کے لیے وقف کر دینا چاہیے جن کے والدین اپنی غربت کے سبب انہیں سکول میں بھی داخل نہیں کروا سکتے۔ یہ لنگر انہیں بچوں کے اسکول میں کھلنے چاہئیں تاکہ ماں باپ کے لیے انہیں اسکول بھیجنے کی ایک ترغیب یہ بھی ہو۔

ہمارے چند کارخانہ دار اپنے کارکنوں کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے کارخانہ دار بھی اس ملک میں ہی رہتے ہیں اور ان کے بیشتر اثاثہ جات بھی یہیں ہیں۔ اس ملک کو رہنے کے قابل بنانے میں انہیں ایک قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ چیمبر آف کامرس کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر وہ باہمی اشتراک سے پورے ملک میں ایسے اسکول قائم کر سکتے ہیں جو نہ صرف ان کے ادارے کے کام آئیں گے بلکہ ہنرمند انسانی قوت کے بیرون ملک روزگار کا باعث بھی بنیں گے۔ وہ اگر معاملے پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس ضمن میں مثبت اقدامات کریں تو وہ اس تمام سرگرمی کو ایک سماجی انٹرپرائز میں تبدیل کر کے اسے ایک خود کفیل منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بے شمار تاجر تنظیمیں بھی ہیں وہ بھی اس زمن میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ وہ اپنی اپنی مارکیٹ کی سطح پر ان سکولوں کی ذمہ داری لیں اور ان سکولوں میں اپنی تجارت سے متعلقہ پیشہ ورانہ تعلیم اور ہنر کو فروغ دیں۔ یہ اقدامات جہاں ملک کو درپیش مسائل میں کمی کا باعث بنیں گیں وہی ان کے کے کاروبار کے فروغ اور منافع پر بھی ایک مثبت اثر ڈالیں گے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم آج کے دور میں نہایت ضروری ہے۔ یہ تعلیم انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سے لے کر پی ایچ ڈی تک حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان میں کچھ مختصر دورانیے کے کورس بھی ہوتے ہیں جو حصول ملازمت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کورسز کے حصول کے بعد بیرون ملک واقع کاروباری اداروں کو ملک میں رہتے ہوئے بہت سی خدمات مہیا کی جا سکتی ہیں جن کا معاوضہ ڈالروں میں حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی کئی ایسے ادارے کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے بہت سے بڑے کاروباری حضرات کی تاحال اس کاروبار کی طرف اتنی رغبت نہیں جتنی کے دنیا کے کئی اور ملکوں کے کاروباری حضرات کی ہے۔ اگر وہ اس کاروبار کی طرف توجہ دیں تو اس سے ہم اپنے بے ہنر نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دے کر برسرروزگار کر کے ان کے معیار زندگی کو بہت بہتر کر سکتے ہیں۔

تمدنی شعور کسی بھی خطے میں بسنے والے لوگوں کو ایک مہذب قوم بناتا ہے ترقی یافتہ ممالک اپنے بچوں میں تمدنی شعور پیدا کرنے کے لیے ان کے اوائل عمری سے ہی کام شروع کر دیتے ہیں اور یہ کام گھر کے علاوہ سکولوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے عام طور پر اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ ہمیں اپنے نصاب میں اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ملک کی معیشت میں زراعت کا ایک کلیدی کردار ہے اور ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس سے وابستہ ہے۔ ہماری زراعت کے دو پہلو ہیں ایک غذائی تحفظ اور دوسرا ملک کی صنعت میں بطور خام مال۔ ہماری زرعی پیداوار فی ایکڑ پیداواری تناسب میں دنیا کے بہت سے ممالک سے بہت کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس شعبے میں تحقیق کا فقدان ہے۔ ہمارے بڑے زمیندار، کاروباری حضرات اور صنعت کار اگر اس جانب توجہ دیں تو ملک کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

چند بڑے صنعتی گروپس نے باہمی تعاون سے اس میدان میں سرمایہ کاری شروع کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بقیہ کاروباری حضرات بھی زرعی تحقیق کے میدان میں اتریں اور ملک میں غذائی تحفظ اور غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت میں اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں ان کے یہ اقدامات کاشتکار کی بہبود کا باعث بنیں گے وہیں ان کے اپنے لئے کاروباری تحفظ اور منافع میں اضافے کا باعث بھی بنے گیں۔

مندرجہ بالا سطروں کا مقصد ملک کے تمام مسائل کا کوئی جامع حل پیش کرنا نہیں ہے نہ ہی میں اپنے آپ کو اس قابل سمجھتا ہوں۔ اس کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم بحیثیت قوم اس بات پر غور کریں کہ ہم کیسے اپنے اپنے انفرادی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کو رہنے کے قابل بنانے کے عمل میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔ میں ترقی کی بات بھی نہیں کر رہا کہ وہ تو اگلی منزل ہے پہلی منزل تو ہمیں پاکستان کو رہنے کے قابل بنانا ہے۔

میں ایک فرد کی زندگی میں حکومت اور ریاست کے کردار سے بھی انکار نہیں کر رہا میں صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ بجائے آپس میں لڑنے کے، ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کسی مسیحا کے انتظار کے آئیے ہم خود بغیر کسی بیرونی وسائل کے اپنے موجودہ وسائل کے ذریعے اپنی حالت بدلنے کی کوششیں شروع کریں اور اس کے بعد نصرت ایزدی کے لئے دعا کریں۔

صاحبو اس سے پہلے کہ آپ سب لوگ اسے یوٹوپیا، ناقابل عمل اور ایک دیوانے کی بڑ سمجھیں میں یہ عرض کردوں کہ یہ تمام کام ہم آج بھی کر رہے ہیں۔ سٹیزن فاؤنڈیشن، اخوت، کیئر فاونڈیشن، سنیفا ایگری سروسز، ایدھی، چھیپا، بحریہ دسترخوان، آغا خان فاؤنڈیشن اور بے شمار دیگر ادارے اس ضمن میں بہت اچھی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب ان اداروں کے دست و بازو بن جائیں۔ ایسے مزید ادارے قائم کریں اور ان تمام کوششوں کی صرف ایک سمت ہو اور وہ یہ کہ پاکستان کو رہنے کے قابل کیسے بنانا ہے۔

دوستو یاد رکھئے کہ پڑھے لکھے اور نسبتاً خوشحال لوگ ہی اپنے ملک میں ایک اچھی حکومت کے قیام اور اداروں کو ان کی حدود میں رکھنے کی پر امن جدوجہد کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ملک کی عمومی فضا ہیجانی نہیں بلکہ مثبت اور تعمیری ہو تو ملکی سطح پر بہتر فیصلہ سازی ہوتی ہے۔ جذباتی اور قوت عمل سے عاری اقوام کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔

ان تمام تمام کاموں کے کرنے کے لئے لئے ہمیں اپنے اوورسیز پاکستانی بھائیوں کے مالی اور تکنیکی تعاون کی ازحد ضرورت ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ کسی بھی ایسے منصوبے کے لیے ہمارے اوورسیز پاکستانی بھائی پہلے کی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ آئیے ہم سب ان کوششوں میں اپنا فکری اور عملی حصہ ڈالیں اور اپنے آپ کو مایوسی کے اس گڑھے سے باہر نکالیں جس میں ہم سر دست گرے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments