درخانئی۔ مستقبل کی ملالہ یوسفزئی


درخانئی کی عمر بمشکل پانچ سال ہوگی۔ یہ سکول میں داخلہ لینے اور سکول جانے کی وہ عمر ہے جس میں بچے سکول سے چھٹی کرنے کے لئے ہر روز نیا بہانہ ڈھونڈنے کے درپے ہوتے ہیں مگر حیران کن طور پر علم سے محبت کے لئے پانچ سالہ بچی درخانئی کی تڑپ نے حجرے میں موجود درجن بھر افراد کو اشکبار کر کے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر شانگلہ گرلز سکول میں وہ کون سی کشش ہے جو اس پانچ سالہ بچی کو وہاں داخلہ لینے کے لئے منتیں کرنے اور رونے پر مجبور کر رہی ہے؟

میں، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی اور پروفیسر نورالامین یوسفزئی سوات کے دور افتادہ جنگلات سے بھرپور پہاڑی علاقے شاہ پور کے ایک حجرے میں بیٹھے تھے۔ دراصل ہم ملالہ فاونڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے شانگلہ گرلز سکول کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات اور یوم والدین میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ جو اگلے روز منعقد ہو رہا تھا۔ رات دس بجے کا وقت تھا، حجرے میں سکول انتظامیہ کے علاوہ چند ادبی اور صحافتی دوست بھی گپ شپ کے لئے آئے تھے۔

ہم مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ اس دوران ایک پانچ سالہ بچی کمرے میں داخل ہوئی۔ پہلے سب سے ہاتھ ملا کر سلام کیا۔ اباسین صاحب نے بچی کو گلے ملا کر پیار کیا۔ اس کے بعد وہ سیدھا سکول ایڈمنسٹریٹر مبشر حسن صاحب کے پاس گئی اور پشتو میں کہاں (اباسین صاحب ناست دے خو زہ تانہ ڈیرہ خفا یم) یعنی اباسین صاحب بیٹھے ہیں مگر میں آپ سے بہت ناراض ہوں۔ آپ نے مجھے اپنے سکول میں داخلہ کیوں نہیں دیا۔ مبشر صاحب نے جان چھڑانے اور وجوہات بتانے کی اپنی سی کوشش کی مگر بچی نے کہا۔

آپ نے سلمی، نتاشا اور فرشتہ کو داخلہ دیا مگر مجھے نہیں دیا۔ میں آپ سے نہیں بولتی اور روہانسی ہو گئی۔ بچی کے والد موسی خان یوسفزئی صاحب بھی ساتھ بیٹھے تھے انھوں نے بچی سے کہا میں اس سے بہتر سکول میں آپ کو داخل کراتا ہوں فکر مت کیجئے مگر درخانئی نے کہا نہیں مجھے اسی سکول میں پڑھنا ہے۔ اپنی بہن کا نام لے کر کہا کہ وہ مجھے بتاتی ہے کہ یہاں کس طرح پڑھایا جاتا ہے۔ درخانئی کی آواز اتنی واضح اور انداز اتنا پیارا، سنجیدہ اور دو ٹوک تھا کہ ہم سب ان کی باتوں کو انہماک سے سن رہے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ اس پانچ سالہ بچی میں ملالہ یوسفزئی کی روح حلول کر گئی ہے اور وہ تعلیم جیسے اپنے بنیادی حق کے لئے ابھی سے لڑنے مارنے پر تیار ہے۔ انھوں نے کہا مجھے اسی سکول میں داخلہ لینا ہے یہ کہتے ہوئے وہ اپنے والد کے گلے ملی اور پوٹ پوٹ کر رونے لگی۔ اس معصوم بچی کی علم سے محبت اور شانگلہ گرلز سکول میں داخلے کی تڑپ نے وہاں موجود ہر فرد کو اشکبار کر دیا۔ میں حیران تھا کہ آخر وہ کون سی کشش ہے جو اس پانچ سالہ بچی کو وہاں داخلہ لینے کے لئے لڑنے اور رونے پر مجبور کر رہی ہے۔ ان خوبیوں اور صفات کا مشاہدہ اگلے ہی دن سکول میں یوم والدین کی تقریب کے دوران ہم نے خود بھی کیا۔ اور میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ عالمی معیار کے اس سکول میں داخلہ کے لئے بچی کی تڑپ بے جا نہ تھی۔

ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی تقریب اسناد و انعامات اتنی منظم، دلچسپ اور معیاری تھی کہ تقریب میں تنگ ہونا باتیں کرنا یا ادھر ادھر ہونا تو درکنار، سب حاضرین ایسے منہمک تھے جیسے وہ ایک ایک لفظ کو حفظ کرنا اور ایک ایک کردار کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والی طویل تقریب کی تمام تر ذمہ داری سکول طالبات نے اٹھا رکھی تھی، پیشہ ورانہ انداز میں، خود اعتمادی کے ساتھ سٹیج کی ذمہ داری سے لے کر تقاریر، خاکے، نظمیں اور ہر قسم کی پرفارمنس لاجواب اور بے مثال۔

نہ کوئی بے ہودگی، نہ سستی جملہ بازی، نہ روایتی خاکے، ڈسپلن غیر معمولی، سنجیدگی اور مقصدیت ایک ایک عمل سے آشکارہ۔ سکول ایڈمنسٹریٹر مبشر حسن نے حاضرین کو بتایا کہ بیس کنال اراضی پر مشتمل اس سکول کو قائم ہوئے ابھی صرف چھ سال ہوئے ہیں۔ یہاں طالبات کی تعداد ساڑھے چھ سو سے زائد ہے۔ امسال پریپ میں صرف پچاس بچیوں کے داخلے کی گنجائش تھی مگر چار سو ساٹھ بچیوں کی درخواستیں موصول ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہمیں بادل ناخواستہ میرٹ کو سخت کرنا پڑا۔ جس کی زد میں چار سو نو اور بچیوں کے ساتھ ساتھ درخانئی بھی آ گئی۔

چونکہ سکول میں تعلیم سو فیصد مفت ہے۔ نہ صرف تعلیم بلکہ غریب بچیوں کے ٹرانسپورٹ یونیفارم، کتابیں حتی کہ اب چھوٹے بچیوں کے لئے ضروری خوراک پر مشتمل ناشتے کی فراہمی بھی شروع کر رہے ہیں۔ سکول وزٹ کے دوران ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہاں نہ صرف اعلی معیار کی سائنس اور کمپیوٹر کی لیبارٹریاں ہیں بلکہ لائبریری کے ساتھ ساتھ ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی نشو و نماء کے تمام لوازمات بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ انتہا پسندی اور روایات کے مارے اس دور افتادہ پہاڑی علاقے کے اس منفرد سکول کے لئے پاکستان بھر سے ماہر اساتذہ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جب سکول کی اکیڈیمک انچارج خاتون ٹیچر نے بتایا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی اور شوہر کو کراچی میں چھوڑ کر یہاں ہمارے بچیوں کو پڑھا رہی ہے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اباسین یوسفزئی اور پروفیسر نورالامین یوسفزئی نے قرآن و حدیث اور شعر و ادب کے ذریعے خواتین کی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور حاضرین سے داد وصول کیا۔ راقم الحروف نے سکول کے تعلیمی معیار کو دیکھتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ ملالہ یوسفزئی اپنے نوبل پرائز تقریب کے دوران کہے ہوئے الفاظ کو سچ ثابت کر رہی ہے کہ۔ ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم پوری دنیا کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اور یہ کہ ملالہ کے جلائے ہوئے اس شمع علم کی روشنی بہت جلد چار دانگ پھیل جائے گی۔ اس خوبصورت اور پروقار تقریب کے دوران مجھے بار بار محسوس ہو رہا تھا جیسے ملالہ یوسفزئی سامنے پہاڑی پر کھڑی اپنی اس کامیابی پر نازاں ہے اور زیرلب قوم پرست شاعر اجمل خٹک کا یہ شعر گنگنا کر محظوظ ہو رہی ہے کہ

اوس کہ نر وی نو غوگونہ دی خپل پرے کڑی۔ چی زما نغمہ سڑہ نہ شولہ سرہ شوہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments