چراغ گل پگڑی غائب


عمران خان کے وسیم اکرم پلس سردار عثمان بزدار کی پی ٹی آئی سے علیحدگی اور سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان پر مبنی پریس کانفرنس نے بہت سے حلقوں کو چونکا دیا ہے تاہم اس سارے معاملے میں اس سے بڑھ کر کوئی بھی خبریت نہیں تھی کہ انہوں نے ”پریس کانفرنس کوئٹہ میں کی“ ۔

سردار عثمان بزدار کا وزیراعلیٰ بننا بہت سے حوالوں سے غیر معمولی تھا لیکن وہ وزیراعلیٰ بنے، اس دوران ان پر ہی نہیں عمران خان پر بھی کافی تنقید ہوتی رہی انہیں وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لئے عمران خان پر پارٹی کے اندر اور باہر سے جو دباؤ ڈالا جاتا رہا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے حتیٰ کہ مرکز میں اول اول پی ٹی آئی کے خلاف ان ہاؤس تبدیلی کی کوششیں شروع ہوئیں اور اس کا اثر پنجاب تک پھیلنے لگا تب جا کر ان کی جگہ اتحادی پرویز الٰہی کو دے دی گئی۔

گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی کی حکومت گئی تو بہت سارے لوگ تبھی سے کھسکنا شروع ہو گئے تھے نو مئی کے واقعات اور بعد ازاں ان واقعات پر پورے ملک سے آنے والے عوامی اور سرکاری رد عمل سے ان لوگوں کو موقع مل گیا اور ایک کے بعد ایک پارٹی کو خیر باد کہنے کا جو سلسلہ شروع ہوا سردار عثمان بزدار کی پریس کانفرنس بھی اسی سلسلے ہی کی ایک کڑی تھی البتہ اس میں خبریت کا پہلو یہی تھا کہ وہ کوئٹہ پریس کلب اچانک سے آئے اور پریس کانفرنس کر ڈالی۔ ان کی پریس کانفرنس اٹینڈ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اہم قبائلی اور سیاسی شخصیات پریس کانفرنس کریں گی۔

عام طور پر کوئٹہ پریس کلب میں اس نوع کی پریس کانفرنسز میں گنتی کے آٹھ دس صحافی ہی شریک ہوتے ہیں الیکٹرانک میڈیا کے لوگوز تو آ جاتے ہیں لیکن ایک آدھ کیمرہ مین ہی موجود ہوتا ہے کیونکہ مین اسٹریم میڈیا میں اس نوع کی پریس کانفرنسز کی جگہ نہیں ہوتی البتہ جو صحافی وہاں موجود ہوتے ہیں وہ بھلے کسی بھی ادارے سے ہوں وہ نجی چینلز کے رکھے گئے لوگوز کا پورا پورا فائدہ مالی امداد یا کمک کی صورت میں وصول کرتے ہیں سو اس روز بھی گنتی کے ہی چند صحافی پریس کلب گئے البتہ الیکٹرانک میڈیا کے بعض دیگر نمائندے بھی اس روز اس بناء پر گئے کہ کیا پتہ سچ میں کوئی اہم شخصیت ہوئی اور اس کا تعلق پی ٹی آئی سے اور پریس کانفرنس پی ٹی آئی کی علیحدگی سے متعلق ہوئی تو ہیڈ آفس والے کوسیں گے سو اس روز وہاں تھوڑی سی بھیڑ ضرور تھی لیکن تھے پھر بھی چند ہی صحافی۔

مجھے بتایا گیا کہ ”ہم لوگ پریس کانفرنس ہال میں پارٹی کے آنے کا انتظار کرتے رہے اسی دوران ایک شخص اندر داخل ہوا۔ چونکہ وہ انجان شخص ماسک لگائے ہوئے تھا اس لئے ہم میں سے کسی نے انہیں نہیں پہچانا حتیٰ کہ نووارد نے ماسک اتار کر قطار میں پہلے بیٹھے ہوئے صحافی سے ہاتھ ملایا تو قطار کے آخر تک آتے آتے کھسر پسر تیز ہو گئی تھی کہ یہ تو سردار عثمان بزدار ہیں“ ۔ الیکٹرانک میڈیا والوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ سردار صاحب نے پریس کانفرنس کی اور نکل آئے۔

سردار عثمان بزدار کی کوئٹہ یا اندرون بلوچستان موجودگی کی بھنک کسی بھی صحافی کو نہیں ہوئی تاہم ایک اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ لاہور سے آبائی علاقے میں آنے کے بعد وہ گزشتہ دنوں فورٹ منرو کراس کر کے موسیٰ خیل آئے ( بطور وزیراعلیٰ پنجاب بھی وہ پروٹوکول کے ساتھ موسیٰ خیل کے دور افتادہ اور انتہائی پسماندہ علاقے درگ ویلی آتے رہے ) پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر خان موسیٰ خیل ان کے دوست بھی ہیں اور (شاید رشتہ دار بھی ) سردار عثمان بزدار کی پریس کانفرنس کا آپ جس بھی زاویے سے تجزیہ کریں آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کی پریس کانفرنس کے پیچھے دکھائی نہ دینے والی قوتوں کے دباؤ سے زیادہ روایتی سیاسی حرص زیادہ کارفرما ہے یہ وہ رویہ ہے جو نواز شریف کو بھی ڈستا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان سے لے کر عمران خان تک ہر لیڈر اس رویے کا ڈسا ہوا ہے۔

یہ رویہ کیا ہے؟ مختصر ترین کنائے میں اس کی تعریف ”چراغ گل پگڑی غائب“ ہی کی جا سکتی ہے۔ بہت کم سیاستدان (مثال کے طور پر بلوچستان سے سردار یعقوب ناصر، اکرم شاہ لالا اور غلام نبی مری اس کی بین مثال ہیں جنہوں نے انتہائی مشکل اور کڑے وقت میں پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ) ایسے ہیں جو مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ منسلک رہتے ہیں۔ ابھی سردار صاحب ( عثمان بزدار ) کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا اور ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کو پیارے ہونے والے ہیں۔

چراغ گل پگڑی غائب والی سیاسی روش ہو سکتا ہے کہ پورے ملک میں ہو مگر بلوچستان میں یہ سب سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ایسے لوگوں سے راہ و رسم رکھی جو وفاداریاں بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ ان دنوں تو یہاں سردار عثمان بزدار کی پریس کانفرنس سے ملتی جلتی پریس کانفرنسوں، کارنر میٹنگز اور اجلاسوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا میں ان خبروں کے لئے جگہ نہیں حالانکہ کوئی رپورٹ کرنے والا اور ان رپورٹ ہونے والی خبروں کی کڑیاں ملانے والا ہو تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں آنے والی حکومت کس کی ہوگی؟

وزیراعظم شہباز شریف دو ہفتے قبل گوادر آئے توان کے ہمراہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی تھے اس دوران گوادر اور کراچی میں بلاول کے ساتھ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی ملاقاتیں اہمیت کی حامل ہیں بلوچستان عوامی پارٹی میں میر عبدالقدوس بزنجو کی مخالف لابی میں شامل رہنماء بعض صحافیوں کو پہلے یہ خبر فیڈ کراتے رہے کہ وزیراعلیٰ بزنجو بمع اپنے بعض وزراء اور اراکین اسمبلی کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں بعد میں اسی گروہ نے اس بیانیے کو تقویت دینا شروع کی کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوئے بعض اراکین اسمبلی جنہوں نے فلور کراسنگ کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی وہ پیپلز پارٹی میں بزنجو کا راستہ روکنے کی لابنگ کر رہے ہیں حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی ترجمان کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ ”ہمارے دروازے ان تمام افراد کے لئے کھلے ہیں جو آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، پیپلز پارٹی کی جانب سے میر عبدالقدوس بزنجو کو مسترد کرنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں پاکستان پیپلز پارٹی ایسے بیانات کی سختی سے تردید کرتی ہے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے درخواست کرتی ہے کہ ایسے بیانات چلانے سے قبل تصدیق کر لیا کریں۔

“ مئی کے آخری ہفتے میں جب وزیراعلیٰ بلوچستان کی پی پی میں شمولیت سے متعلق افواہوں کا بازار گرم تھا بی اے پی کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعلیٰ بزنجو اور چیئر مین سینٹ کی ہونے والی اہم ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ بی اے پی کو کسی جماعت میں ضم نہیں کیا جائے گا لیکن حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی ہی کی طرح بی اے پی کا شیرازہ بھی بکھر رہا ہے منتخب اراکین اسمبلی پی پی میں جا چکے ہیں یا جا رہے ہیں گزشتہ ہفتے اس جماعت کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری حسنین ہاشمی نے بی اے پی چھوڑ کر پی پی میں شمولیت اختیار کی گو کہ حسنین ہاشمی کوئی قابل ذکر سیاسی شخصیت نہیں لیکن ان کے انفرادی سیاسی فیصلے کو ان کے والد بزرگوار کی تائید و حمایت حاصل ہے۔

سعید احمد ہاشمی سینئر سیاستدان ہیں کسی زمانے میں سعید ہاشمی، نواب ذوالفقار مگسی اور شیخ جعفر خان مندوخیل پر مشتمل مثلث حکومتوں کی کمزوری ہوا کرتی تھی آج نواب ذوالفقار مگسی سعید ہاشمی، سردار صالح بھوتانی اور میر جان محمد جمالی اپنے صاحبزادوں کو سیاست میں اتار چکے ہیں اس وقت تک یہ سبھی بی اے پی کا حصہ ہیں لیکن یہ سبھی اپنے اپنے علاقوں کے عثمان بزدار ہیں یہ بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد سے ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں لیکن ان کے علاقے آج بھی پسماندگی و درماندگی کی بد ترین تصویر بنے ہوئے ہیں۔

بلوچستان کسی دور میں نظریاتی سیاست کا گڑھ اور مرکز رہا ہے یہ وہ دور تھا جب نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ نیپ کے انہدام کے بعد بننے والی قوم پرست جماعتوں نے کسی حد تک نظریے کا پاس قائم رکھا لیکن گزشتہ بیس برسوں کے دوران ایک بھی جماعت ایسی نہیں بچی جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اسٹیٹس کو کی حامی یا مددگار نہیں رہی ان میں ”چراغ گل پگڑی غائب“ کی نفسیات غالب ہیں اور یقیناً یہ بہت بڑا المیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments