اب ”صحافت“ کی ساکھ لٹنے کی دہائی کیوں


کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاﺅں۔ چند شاعروں کے کچھ مصرعے ذہن میں فوراََ  گونجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی مصرعوں میں مرحوم باقی صدیقی کی لکھی اس غزل کا وہ مصرعہ بھی ہے جسے اقبال بانونے گاکر شاہکار بنادیا ہے۔جی ہاں ”داغ دل ہم کو یاد آ نے لگے“۔

رزق کے حصول کےلئے مزید ذرائع ڈھونڈنے کی کاوش میں پیر کے روز ایک شام اور دو روز کے لئے لاہور گیا تھا۔اپنا کام نمٹاکر منگل کی رات واپس آیا ہوں۔تھکن سے نیند پوری نہیں ہوپائی۔ مزید کی ضرورت ہے۔ اس کے حصول سے قبل مگر ضروری تھا کہ بدھ کی صبح اخبار میں چھپاکالم سوشل میڈیا پر پوسٹ کردینے کے بعد جمعرات کی صبح چھپنے کے لئے کالم بھی لکھ ڈالتا۔ مذکورہ مشقت سے گزرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا۔ کالم پوسٹ کردینے کے بعد ٹویٹر اور دیگر ا کاﺅنٹس کا پھیرا لگایا تو ہمارے ایک نامور سیاستدان کے ”قوم سے خطاب“ کی جھلکیاں مختلف کلپوں کے ذریعے وائرل ہورہی تھیں۔ان میں سے ایک کلپ کو تین چار بارسنتے ہوئے ”داغ دل …. یاد آنے لگے“والا مصرعہ ذہن میں گونجنا شروع ہو گیا۔

یاد ماضی مجھ جیسے بدنصیبوں کے لئے عموماً”عذاب ہے یا رب“ بھی ہوا کرتی ہے۔ سن 2014 کے مناظر یاد آنا شروع ہوگئے۔ان دنوں ”سیاست نہیں ریاست بچانے“ کو بے قرار گفتار کے ایک غازی کینیڈا کے مستقل رہائشی ہونے کے باوجود پاکستان تشریف لے آئے۔ ان سے قبل ایک اور سیاسی جماعت بھی 2013 میں ہوئے انتخابات میں ”35 پنکچر“ کی بنیاد پر ”دھاندلی“ کے الزامات کی دہائی مچانا شروع ہوچکی تھی۔دونوں جماعتوں کے رہ نما ایک دوسرے کے ”کزن“ بن گئے۔پگڑی بدل بھائیوں کا ذکر تو سنا تھا۔ قربتوں کا ”کزن“ میں بدلنا مجھ دیسی کو ذرا عجیب لگا۔

بہرحال فیصلہ ہوا کہ 14اگست کے روز تازہ تازہ ”کزن“ ہوئے رہ نما اپنی قیادت میں حامیوں سمیت لاہور سے اسلام آباد کی جانب لشکر کی صورت روانہ ہوجائیں گے۔یہاں پہنچ جانے کے بعد وہ اپنے مطالبات منظور ہوجانے تک ”دھرنا“ دئے بیٹھے رہیں گے۔ میں ان دنوں ایک ٹی وی پروگرام کا میزبان بھی تھا۔ کینیڈا سے تشریف لائے صاحب میرے ”دل یزداں“ میں بہت کھٹکتے تھے۔ ان کی سیاست کا آغاز بطور متحرک رپورٹر دیکھ ر کھا تھا۔ سیاسی رہ نما کے بجائے ہمیشہ ”شعبدہ باز“محسوس ہوئے۔ میں اپنے پروگرام میں ان کی بھد اڑانا شروع ہو گیا۔

موصوف کے ”کزن“ کی بابت میرے جذبات ملے جلے تھے۔ کرکٹ نے انہیں کرشمہ ساز ہیرو بنادیا۔بعدازاں اپنی والدہ کی یادمیں کینسر کا جدید ترین ہسپتال قائم کرنے کے لئے نہایت لگن سے چندہ جمع کیا۔ لاہور کے چند مشترکہ دوستوں کی بدولت میری ان سے تھوڑی شناسائی بھی تھی۔ دل میں ہمیشہ یہ خیال آتا کہ کاش وہ سیاست سے دور رہ کر فلاحی کاموں ہی میں مصروف رہتے۔

ان کے پرستاروں کو میری سوچ نے مشتعل بنادیا۔ انٹرنیٹ کے ہنر پر اپنی گرفت کی بدولت مجھے ”لفافہ اور بدکار“ ثابت کرنا شروع ہو گئے۔ ”آتش“ ان دنوں توانائی کے آخری لشکارے ماررہا تھا۔ نہ صرف اپنے ٹی وی شو بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ضرورت سے زیادہ وقت ضائع کرتے ہوئے ”حساب برابر“ کرنے کی علت میں مبتلا ہوگیا۔ میرے صحافیانہ تجربے کی بدولت توقعات کے عین مطابق دو سیاسی جماعتوں کا دھرنا لاہور سے اسلام آباد پہنچ جانے کے چند دن بعد ”ٹھس“ ہو گیا۔ ”کزن“ مگر ڈٹے رہے۔ دھرنا دئے حامیوں سے دھواں دھار خطاب فرماکر ان کے دل گرماتے رہے۔

رات سات بجے سے بارہ بجے تک ٹی وی چینلوں کے جو شوز ہوتے ہیں ان کے وقفوں کے درمیان دکھائے اشتہارات کئی ماہ پہلے ”بک“ ہو چکے ہوتے ہیں۔ان کی وجہ سے پرگراموں کے میزبانوں کو بار بار متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کئی ماہ پہلے بک ہوئے اشتہارات کی تشہیر یقینی بنانے کے لئے پروگرام کا وقفہ لینے میں ایک سکینڈ کی تاخیر بھی نہ کریں۔اینکر اگر اس ضمن میں ناکام ہوتا تو اس کی گفتگو اچانک کاٹ کر اشتہاروں کی تشہیر شروع ہو جاتی۔

”کزنز“ کا لایا دھرنا مگر ٹی وی تاریخ کا عجب واقعہ تھا۔ ٹی وی چینلوں کی ریٹنگز کو یقینی بنانے والے شوز بھی عین اس وقت روک کر دھرنے کے مقام پر لگائی ڈی ایس این جی سے آئی فیڈ چلنا شروع ہوجاتی جو ”کزنز“کو کنٹینر پر چڑھ کر حکومت کو للکارتے ہوئے دکھارہا ہوتا۔ٹی وی کا طالب علم ہوتے ہوئے بچپن سے یہ سیکھ رکھا تھا کہ کیمرہ فقط ایک منظر پر فوکس رکھنا غلط عمل ہے۔ ٹی وی سکرین کو ”دلچسپ اور ڈرامائی‘ ‘ بنانے کے لئے لازمی ہے کہ کسی صاحب کے خطاب کے دوران اسے سنتے ہوئے لوگوں کا ”لانگ شاٹ“ دکھاتے ہوئے ناظرین کو ان کی ممکنہ تعداد کا تخمینہ لگانے کا موقعہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ شاٹس کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے۔ اسے Insertion کہا جاتا ہے۔ مقصد اس کا مجمع میں موجود چند افراد کے چہروں کا کلوزاپ لے کر ان کے دل میں خطاب کی بدولت ابھرے جذبات دکھانے کی کوشش ہوتی ہے۔

ٹی وی دھندے کی معاشیات سے قطعاََ نابلد میں اکثر یہ سوچتا کہ میرا ”ریگولر“ پروگرام روک کر ”دھرنے“ کی ”لائیو“ کوریج کیوں شروع ہو جاتی ہے۔ بخدا اپنا پروگرام رکنے کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔ پیدائشی کاہل ہونے کی وجہ سے بلکہ خوش ہوتا کہ ”مشقت ٹلی“۔ تاہم یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا کہ ٹی وی مالکان اپنے ریگولر پروگرام روک کر ”دھرنا“ میں کنٹینر سے ہوئی تقریر مجمع دکھائے بغیر ”براہِ راست“ چلانا کیوں شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اشتہار کھودینے کا مالی نقصان کیوں برداشت کرتے ہیں۔

اپنی فکر مندی میں نے ایک ٹی وی چینل کے ماریکٹنگ کے حوالے سے ”گرو“ تصور ہوتے صاحب کے روبرو تنہائی میں ہوئی ملاقات میں رکھ دی۔وہ میری ”سادگی“ پر حقارت بھری طنز سے مسکرائے اور اشاروں کنایوں میں بتادیا کہ دھرنے کی ”براہِ راست نشریات“ دکھانے کی بدولت ہوا نقصان ہمارے چند ”فیاض“ ادارے کیسے ”پورے“ کر دیتے ہیں۔

کالم کی ابتداءمیں جس کلپ کا ذکر کیا تھا اس میں ”قوم سے خطاب“ کرنے والے رہ نما ہی نے 2014 میں دریافت ہوئے مذکورہ حربے کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا تھا۔ انہیں اب ”صحافت“ کی ساکھ لٹ جانے کی دہائی نہیں مچانا چاہیے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments