فلم اور ٹی وی کے لیے لکھتے ہوئے کیا خیال رکھنا ہے



داستان گو جس سے مخاطب ہے، اس کا ہاتھ ان سامعین/قارئین/ ناظرین کی نبض پر ہونا چاہیے۔ کمرشل رائٹر بننے کے لیے سب سے پہلے ٹارگٹ آڈینس کو سمجھنا ہے کہ ہم جو لکھ رہے ہیں، وہ کس کے لیے ہے۔ مثال کے طور پر ہم اردو میں لکھتے ہیں تو یقیناً اردو بولنے والے قارئین/ناظرین کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ وہ مصنف جو پاکستانی ٹیلے ویژن چینلوں کے لیے لکھتے ہیں، انھیں پاکستان کے شہریوں کے رسم و رواج و آداب، طرز زیست، بود و باش، تہذیب و ثقافت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ ٹیلے ویژن کے لیے لکھتے سمجھنا ہو گا کہ ٹیلے ویژن کے میڈیم پہ ہم کیا اور کتنا دکھا سکتے ہیں۔ کتنا یا کیا ہم نہیں دکھا سکتے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس بات پر غور کیجیے کہ شو بز میں "بز”، بزنس ہے؛ کار و بار سرمائے کا محتاج ہے، نیز سرمایہ تحفظ مانگتا ہے۔

پاکستان میں رہتے، فوج کے خلاف نہیں لکھنا۔ اس لیے نہیں کہ ہم ڈرتے ہیں یا گھبراتے ہیں، یا فوج ایسا سرکاری محکمہ ہے، جو تنقید سے مبرا ہے، بل کہ اس لیے کہ ہمارے ٹیلے ویژن چینل سے ایسا پروگرام نشر نہیں ہو سکتا، جس میں فوج پر جائز تنقید بھی ہو۔ پھر یہ خیال رہے کہ عدالت کے خلاف نہیں لکھنا۔ اس لیے کہ کوئی ٹی وی چینل توہین عدالت کے جرم میں چینل پہ پا بندی لگوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو عمومی ہیں اور لگ بھگ سب کو معلوم ہیں۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ میں آپ کو بز دلی کی تعلیم دے رہا ہوں یا نا انصافی کا سبق پڑھا رہا ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں آپ کو حقیقت احوال بتا رہا ہوں۔ اگر آپ کچھ ایسا لکھیں گے، جو ان ہدایات کے مطابق نہیں اور وہ ٹی وی چینل کو بھیجیں گے تو بھی ٹی وی چینل انکار کر دے گا۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب سمجھا جا سکتا ہے۔

مذہبی حوالے سے کوئی ایسی متنازع بات نہ لکھیں، جو بین المذاہب یا بین المسالک تفرقہ اور جھگڑا پیدا کرے۔

جب کسی ٹی وی چینل کے لیے لکھتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس ٹیلے ویژن چینل کی پالیسی کیا ہے؛ وہ کس نوعیت کے پروگرام دکھاتے ہیں۔ ’جیو ٹی وی‘ کے لیے لکھ رہے ہیں تو سمجھنا ہے کہ وہ کس طرز کے پروگرام دکھاتا ہے۔ ’ہم ٹی وی‘ کے لیے لکھتے یہ جاننا ہو گا کہ ہم چینل کیا دکھاتا ہے۔ الغرض، ہر ادارے کی پالیسی سمجھنا ہوتی ہے۔ چینل کی پالیسی سمجھنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں، زرا سی توجہ دیں تو سمجھ آ جاتی ہے۔

ایسے مناظر مت لکھیں، جن میں ایسی زبان استعمال کی گئی ہو، جسے سن کے اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ناظرین، آپس میں ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگیں۔ ٹیلے ویژن کے لیے کام کرتے ہیں تو ہمارا وہ احوال ہوتا ہے، گویا کسی کے گھر مہمان ہیں۔ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو اس گھر کی قدروں، گھر والوں کے آداب کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔

ہم کسی کے گھر جاتے ہیں، تو یہ نہیں کہتے کہ اس گھر میں ایسا ہونا چاہیے، جیسا میں چاہتا ہوں؛ بل کہ اس گھر کے مکینوں کے طور طریق کا خیال رکھنا ہوتا ہے؛ اپنی پسند و نا پسند ان پر نہیں تھوپی جا سکتی۔

تصور میں لائیے کہ ٹی وی مانیٹر کے سامنے بہن بھائی، والدین موجود ہیں؛ گھر کا چھوٹا بڑا ایک ساتھ بیٹھا، ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ گھر کون سا ہے، اسے جان لیں۔ ٹی وی پروگرام دیہ میں، قصبے میں، اور شہروں میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ ایک شہر ہی میں مختلف طبقوں کی بستیاں اور افراد ہیں، جو متنوع فکر کے حامل ہیں۔ ان کی اخلاقیات ایک جیسی ہوتے ہوئے بھی الگ ہیں۔ پاکستانی مصنف، ہدایت کار اور پیش کار کو خیبر تا کراچی تمام ناظرین کے آداب و عقائد و جذبات کا خیال رکھنا ہے۔

فلم بین مووی دیکھنے سے پہلے یہ معلومات لیتے ہیں کہ اس فلم کا ژانرا کیا ہے۔ سنیما ہال جانے سے پہلے پتا کر کے جاتے ہیں کہ آیا یہ فلم اہلیہ کے ساتھ دیکھیں، بھائیوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، یا سنیما ہال میں بچوں کو لے جانا چاہیے یا نہیں۔ وغیرہ۔

فِلم میڈیم میں کام کرتے قدرے آزادی ہے، لیکن بے انتہا آزادی یہاں بھی نہیں۔ سنیما ہال میں موجود ناظر، گویا آپ کے گھر آیا ہے۔ ناظر سنیما ہال میں یہ سمجھ کے آتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں نہیں ہے، اس لیے یہاں اس کے گھر کے آداب لاگو نہیں ہوتے لیکن اجتماعی معاشرتی آداب کا اطلاق بہ ہر حال یہاں ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں کتنے شہری ہیں جو انگریزی زبان سمجھتے ہیں؟ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اُردو زبان میں ڈراما لکھتے، انگریزی زبان کے طویل مکالمے لکھنے سے گریز کیجیے۔ آپ ایسا نہیں کرتے تو اکثر ناظرین کی توجہ بٹ جائے گی، جو انگریزی زبان سے نا آشنا ہیں۔

ٹیلے ویژن کی طرح، فلم میں بھی مذہبی حوالے سے کوئی متنازع بات نہیں دکھا سکتے، کیوں کہ سنیما اونر کے لیے مسئلہ اٹھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ مذہب یا مسلک سے متعلق متنازع مکالمے، یا مناظر عوام کو اشتعال دلا سکتے ہیں۔ مشتعل ہونے والے سنیما ہال کو پہلے جلائیں گے اور پوچھیں گے بعد میں کہ اصل معاملہ تھا کیا۔

فلم میکر کو گیلری میں بیٹھے فلم بین سے لے کر فرسٹ کلاس کے ناظر کے شعور، تعلیم، اس کی ذہنی بلوغت کے مطابق، مکالمے لکھنے ہیں، استعارے چننے ہیں۔ پہلی قطار میں بیٹھے کو جو بات سمجھ آئے، گیلری میں بیٹھے ہوئے کو بھی وہ بات سمجھ آنی چاہیے۔ ذہین فلم میکر معاشرے کے ہر فرد کو ساتھ لے کر چلتا ہے؛ کسی کی دل آزاری اُس کا مقصد نہیں ہوتا۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک فلم میکر کو، ایک ایسے ناظر کے لیے جس کی ذہنی بالیدگی کم تر ہے، کی سطح پہ چلے جانا ہے؟ کیا فلم میکر پست سطح پر اتر آئیں؟ اسے سمجھنے کے لیے تاریخ پہ اک نظر کرتے ہیں۔ صوفی شعرا جیسا کہ بلھے شاہ، بابا فرید، سچل سرمست ہوں یا دیگر صوفیا، ان میں سے کوئی کہیں سے آیا تو کوئی کہیں سے، مگر آپ ان کی شاعری پڑھیں، سنیں، ایسا نہیں لگے گا کہ وہ عرب تھے، یا کہیں گیلان سے آئے تھے۔ وہ پنجاب سے سندھ میں یا مکران سے پوٹھوہار میں آ بسے تو انھوں نے مقامی لوگوں کی زبان کو سیکھا؛ ان کی ثقافت کو سمجھا۔ مقامی بولیوں کی علامتوں کو برتا، یہاں کے استعاروں کو اپنے کلام میں جگہ دی اور اس دھرتی کے باسیوں کے دل کو چھو لینے والا لب و لہجہ اپنایا۔

شاعر ہفت زبان خواجہ فرید کے بول ’پیلو پکیاں نیں‘، سے وہ خوب لطف اندوز ہوتا ہے، جو وسیب کا باشندہ ہے۔ پیلو جنوبی پنجاب، پاکستان میں پایا جانے والا ایک عام پھل ہے۔ خواجہ فرید اپنے ان اشعار میں پیلو کو جوانی سے تشبیہہ دیتے ہیں: پیلو پک گئی ہیں، آؤ دوست، رل مل کے چنتے ہیں؛ یعنی جوانی کے ثمرات سمیٹتے ہیں۔

فن کار جس دھرتی میں بستا ہے، اس دھرتی سے جڑا ہوتا ہے۔ ان کی اپچ سے آگاہی رکھتا ہے، جن سے مخاطب ہے۔ صوفی شعرا جس علاقے میں آن بسے، اس علاقے کے لوگوں کی فہم کے حساب سے اپنا پیغام دیتے رہے۔ انھی کی زبان میں، ان کی سمجھ کی سطح پر اتر کے مخاطب ہوئے۔ ان صوفیا سے سیکھنے کی بات یہ ہے کہ ناظر/قاری کی سمجھ بوجھ کی سطح پہ تو اترنا ہے، لیکن اس کو سمجھانے کے لیے، نا کہ اس جیسی باتیں کرنے کے لیے۔ ایک کم سن کو تجربے کی بات سمجھانے کے لیے، اس کی ذہنی سطح پہ آ کے سمجھانا ہوتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نو عمر کو نا پختہ مشورہ دیا جائے۔ سادہ لفظوں میں، سادہ بیانی میں دانش کی بات کہنا، یہ صوفیا کا چلن رہا ہے۔ مجھے فلم/ٹی وی ڈراما لکھتے، سادہ بیانی کی یہی راہ سجھائی دیتی ہے۔ سادگی سے گیرائی و گہرائی کو بیان کرنا، یہی عوامی ہونا ہے۔ غور کیجیے، ان صوفیا کا کلام آج بھی عام و خاص میں زندہ ہے۔
غالبؔ اُردو شاعری کا نمایاں نام ہے۔ ان کی زبان ایسی سادہ نہیں کِہ ہر کس ان کے اشعار کے مفہوم تک رسائی رکھتا ہو۔ غالب کو پڑھنے کے لیے بار ہا لغت دیکھنا پڑتا/پڑتی ہے۔ دسیوں با ذوقوں سے پوچھنا پڑے گا، پھر جا کر کے کہیں ان کا شعر سمجھ آئے گا۔

؎ تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن، اسد
سرگشتہ خمار رسوم و قیود تھا

اس شعر کی تفہیم کے لیے شیریں فرہاد کی داستان سے آگاہی ہونی چاہیے۔ شیریں فرہاد ایرانی لوک داستان ہے۔ اس کے برعکس آپ دیکھیں، صوفیا کی شاعری میں پوشیدہ پیغام عام فرد کو بھی آسانی سے سمجھ آ جاتا ہے۔ اس لیے بھی کہ انھوں نے مقامی داستانوں سے استعارے و تشبیہات لیں۔

؎ رانجھا میرا رج کے سوہنا
کوجی ہیر سیال

ہیر رانجھا، سسی پنوں، نوری جام تماچی، سوہنی منہیوال اور دیگر لوک داستانیں، جن سے ایک ان پڑھ بھی واقف تھا/ہے، کیوں کہ یہ قصے کہانیاں، چوپالوں میں، میلوں میں عام سنی سنائی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں اور صدیوں پہلے کہے اشعار، آج بھی زندہ ہیں۔ صوفی شعرا نے مقامی استعاروں، علامتوں، تشبیہوں کو استعمال کیا، اور سادہ لفظوں میں، عام فہم انداز میں مقامی زبان میں بیان کر دیا؛ نا کہ اپنی بات کہنے کے لیے لغت سے مشکل الفاظ ڈھونڈے۔ سہل لفظوں میں زندگی کا گہرا تجربہ، مشاہدہ، عالی فکر کی وجہ سے، ان کا لفظ لفظ آج بھی باقی ہے۔ مدعا یہ نہیں کہ غالب کم تر درجے کا شاعر ہے، بل کہ یہ کہا گیا ہے، غالبؔ عوامی شاعر نہیں، تربیت یافتہ اذہان کا شاعر ہے۔

ایک عامی اقبال کے کرافٹ کو، غالب کے فن کی باریکیوں کو نہیں سمجھ پائے گا، لیکن بلھے شاہ کا ذکر ہو، سچل سرمست یا شاہ عبدالطیف بھٹائی کی بات کریں، خواجہ فرید کا نام لیں تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو سمجھنے کے لیے، ایک عالم کی، ایک استاد کی ضرورت ہے۔ ان کے کلام میں ایسی باریکیاں، ایسے شعری محاسن بھی ہیں، جن سے تربیت یافتہ اذہان، ایک عامی کی نسبت الگ طرح سے حظ اٹھاتے ہیں۔ جب کہ صوفیا کا کلام اپنی خوبیوں کے باعث، ایک کسان سے لے کر ایک صاحب مطالعہ تک کے ذوق کی تسکین کرتا ہے۔

آپ فلم بناتے ہیں یا ٹیلے ویژن کے لیے لکھتے ہیں تو آپ جنرل پبلک سے مخاطب ہیں۔ مکالمہ لکھ رہے ہیں، یا کوئی علامت لا رہے ہیں تو خیال رہے، اسے ایک کسان بھی سمجھ لے جو ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہے، ایک عالی شان بنگلے کا مکین، جس نے دنیا بھر کی سیر کر رکھی ہو، یا وہ جس نے ملکی و غیر ملکی ادب پڑھ رکھا ہے، حتا کہ وہ بھی لطف اندوز ہو، جس نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ ایسی مہارت توجہ، کوشش، اور مسلسل ریاضت سے آتی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments