غریب اور امیر کی موت میں فرق


یوں ہی بیٹھا بیٹھا کچھ لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ سیاسی پہلوؤں پر بات کرو یا اس وقت لوگوں کو درپیش مسائل پر لکھو، لکھنے کو تو بہت کچھ تھا اس وقت جو ملک کے حالات ہے لیکن کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک ہی بحث جاری ہے امیر اور غریب کی موت سوچا کیوں نا اس کے پس منظر حقیقت کو بیان کرو۔ دو پاکستانی نژاد جو اپنی زندگی کی تفریح کے لیے سمندری سفر کا انتخاب کرتے ہیں اور 15 کروڑ کی ٹکٹس خرید کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ پختہ یقین ہے کہ موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے، اور بے شک ہر انسان نے لوٹ کر اللہ کی طرف ہی جانا ہے، تصویر کا دوسرا رخ دیکھے تو ایک غریب طبقہ چند لاکھوں روپے دے کر اپنے روشن مستقبل کی آرزو کرتے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، سالہا سال سے یہ دھندا جاری ہے کہ لوگ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے سہانے خواب سجائے اپنی جائیداد، مال مویشی، پیسے قرضے کے طور پر لے کر اپنے لخت جگر کو پر خطر سفر پر ڈال دیتے ہیں، ان دونوں کہانیوں میں کوئی زیادہ دیر نہیں لگی بس چند دن کے وقفے سے یہ دونوں افسوس ناک واقع رونما ہوتے ہیں۔

اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تقریباً 300 کے لگ بھگ لوگ ڈوب گئے جن میں ایک اچھی خاصی تعداد پاکستانیوں کی ہے بلکہ ایک ہی خاندان کے 12 لوگ بھی اس حادثے کا شکار ہوئے اور دوسری طرف صرف پانچ لوگ، لیکن 5 لوگوں کا اتنا چرچا کیوں؟ آپ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کو دیکھ لیں کوئی تنقید کرتا تو کوئی اس کی تردید کرتا نظر آئے گا، کوئی اسے شوق سے منسلک کرتا تو کوئی اسے تحقیق سے جوڑتا نظر آ رہا ہے، آپ کو اس حقیقت سے آشنا کرواتے ہیں کہ ٹائی ٹینک ڈوپ کیوں نہیں رہا؟

دس اپریل 1912 کو جب دن 12 بجے ٹائی ٹینک نے برطانوی بندرگاہ ساؤتھیمپٹن سے اپنا سفر شروع کیا تو اخباروں نے 882 فٹ لمبے اور 104 فٹ چوڑے اس جہاز کو ’ناقابل غرقابی‘ (unsinkable) کا خطاب دیا۔ جب 15 اپریل کو کینیڈا کے ساحل سے چھ سو کلومیٹر دور کھلے بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ٹائی ٹینک کا وائرلیس رابطہ منقطع ہو گیا اور لوگوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر سے معلومات لینے کی خاطر رابطہ کیا تو فرینکلن صاحب نے رات ساڑھے دس بجے کے قریب کہا:

’ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ یہ جہاز ناقابل غرقابی ہے۔ ہمیں مکمل یقین ہے کہ ٹائی ٹینک کسی بھی قسم کا نقصان برداشت کر سکتا ہے۔ ‘

لیکن بعد میں جب پتہ چلا کہ ٹائی ٹینک سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا ہے اور اس حادثے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو فرینکلن کے بیان کا خوب مذاق اڑایا گیا

ٹائی ٹینک 1912 میں سمندر میں ضرور ڈوبا، لیکن ایک صدی تقریباً گزر جانے کے بعد بھی عوام کے ذہنوں سے اس کے نشان مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ہر سال اس موضوع پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، فلمیں بنتی ہیں، ویڈیو گیمز تیار کی جاتی ہیں اور اخباروں میں نت نئے آرٹیکل چھاپے جاتے ہیں، یو ٹیوب، ٹک ٹاک اور دوسرے میڈیا پر قسما قسم ویڈیوز نشر ہوتی ہیں۔

دنیا میں ٹائی ٹینک سے بڑے بڑے حادثے ہو چکے ہیں۔ صرف 20 ویں صدی ہی میں کم از کم چار بحری جہازوں کے حادثے ایسے ہیں جن میں ٹائی ٹینک سے زیادہ لوگ مارے گئے، لیکن کسی کو ان جہازوں کے نام تک یاد نہیں۔

اس کے مقابلے پر دنیا کے کسی بھی علاقے اور خطے میں چلے جائیے، لوگ آپ کو ٹائی ٹینک کے حادثے کی ایک ایک تفصیل بتا دیں گے۔

سب سے مشہور کتاب ’اے نائیٹ ٹو ریمیبر‘ یعنی ’ایک رات جو یاد رہے گی‘ ہے۔ 1955 میں چھپنے والی اس کتاب کے 60 ہزار نسخے اشاعت کے صرف دو مہینے میں فروخت ہو گئے اور یہ چھ ماہ تک بیسٹ سیلر کی فہرست میں رہی۔ 1985 میں جب ٹائی ٹینک کا ملبہ دریافت ہوا تو کتابوں اور فلموں کا ایک طوفان سا آ گیا۔ اس طوفان میں کئی درجے کی شدت 1997 میں ’ٹائی ٹینک‘ فلم کی کامیابی کے بعد پیدا ہوئی

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1912 میں غرق ہونے والا جہاز آج تک لوگوں کے ذہن سے کیوں نہیں نکل رہا؟ آج تک لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے تو کیا فرنکلین کا یہ دعوی درست ہے کہ ٹائٹینک نہیں ڈوب رہا؟

تو اس کا میرے نقطہ نظر سے جواب یہ ہے کہ ٹائی ٹینک پر اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد سوار تھی۔ وائٹ سٹار کمپنی نے اس جہاز کی روانگی سے قبل جو اشتہار چلائے تھے ان میں اسے دنیا کا سب سے پرتعیش جہاز قرار دیا تھا۔ اس کی فرسٹ کلاس کا کرایہ 870 پاؤنڈ تھا، جب کہ اس وقت برطانوی سپاہی کی تنخواہ محض 20 پاؤنڈ سالانہ تھی۔ اس وقت ترسیل کے نت نئی ایجادات ہو رہی تھی تار کے ذریعے یہ خبر دنا بھر کے اخبارات کو بھیجی گئی تھی اور ہر اخبار کی سرخی بن گئی تھی، اور اس میں بچ جانے والوں کی جرات، بہادری کی داستاں لوگوں کے دلوں کو چھو گئی، دوسرا ٹائٹینک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد فوراً نہیں ڈوبا تھا بلکہ اسے دو گھنٹے 40 منٹ لگے اس سلو موشن کی غرقابی سے بچ جانے والوں کی کئی داستانیں سامنے آئی جو ایک فلم یا ڈرامائی رخ اختیار کر گئی حالیہ ہفتے ٹائی ٹینک کا نظارہ کرنے کے لیے جانے والی آبدوز ’ٹائٹن‘ کی گمشدگی کی خبر دنیا بھر کے میڈیا کا موضوع بننے کے پیچھے بھی شاید یہی کہانی ہے

دوسری طرف ملک کی معاشی حالات کی وجہ سے حالیہ کئی مہینوں میں پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد تمام خطرات کے باوجود انتہائی مشکل سفر پر روانہ ہو رہی ہے، زرمبادلہ کی کمی سے دوچار پاکستان کی 350 ارب ڈالر کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، افراط زر کی شرح ریکارڈ 38 فیصد کی سطح کو چھو رہی ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر اور بیرونی خسارے کی وجہ سے حکومت نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے گزشتہ سال کے دوران کئی سخت اقدامات کیے جن میں خام مال کی درآمد پر پابندی، ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ترقی اور ملازمتوں کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ موجودہ مالی سال میں صنعتی شعبہ تقریباً تین فیصد سکڑ گیا ہے جس سے تقریباً 23 کروڑ آبادی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں ہر سال 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو روزگار کی ضرورت ہوتی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار گزشتہ سال تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ افراد نے ملک چھوڑا جو 2016 کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔

لیکن قانونی طور پر مغربی ممالک جانے کے مواقع محدود ہیں اور بہت سے تارکین وطن ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اکثر انسانی سمگلنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔

انہیں مقامی طور پر ’ڈنکی‘ کہا جاتا ہے جو بہت سوں کے لیے ایک تیز، سستا یا یورپ پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب پانی سر سے گزر جائے تو پاکستان میں ایکشن لیا جاتا ہے، ان مافیاز ، ایجنٹوں کا اتنے سالوں سے کریک ڈاؤن کیوں نہیں کیا گیا؟ جب ہمارا نقصان ہو جائے تب ہی ہم کیوں حرکت میں آتے ہیں؟ بہرحال پاکستان کے اداروں کو چاہیے کہ ایسے مافیاز کو لگام ڈالیں ان کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کریں تا کہ آئندہ بچے یتیم نا ہو، ماؤں کے لال ان سے نا چھن جائے، بچے یتیم نا ہوں، سہاگنوں کے سہاگ نا اجڑیں، بہنوں کے بھائی نا بچھڑیں۔ اور حکومت کو بھی ہر طرح کا اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا تا کہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکیں۔

ٹائی ٹینک حادثے کے بارے میں کئی سوال ایسے ہیں جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ جہاز برفانی تودے سے کیوں ٹکرایا؟ ریڈیو آپریٹر نے بروقت واقعے کی اطلاع کیوں نہیں دی؟ وغیرہ۔ لوگوں کو ہمیشہ سے ایسے واقعات اپنی طرف کھینچتے ہیں جن سے کوئی پراسراریت یا معمہ منسلک ہو۔

ٹائی ٹینک کے حادثے کو قدرت کی جانب سے انسانی غرور پر طمانچہ قرار دیا گیا۔ جہاز ران کمپنی اور اس زمانے کے میڈیا نے جس طرح اس کی ٹیکنالوجی کی تشہیر کی، ناقدین اسی بات کو لے اڑے اور اس حادثے کو مذہبی رہنماؤں نے خاص طور پر اس بات کی دلیل کے طور پیش کیا کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے، وہ قدرت کے سامنے ہمیشہ بے بس رہے گا۔

ٹامس ہارڈی کی نظم ’جو انہوں نے ٹائی ٹینک‘ پر لکھی تھی۔ اس میں بھی ہارڈی نے انسان کے غرور پر طنز کیا ہے۔ نظم میں دکھایا گیا ہے کہ مچھلیاں، کیکڑے اور دوسرے سمندری جانور سمندر کی تہہ میں پڑے جہاز کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ ایک بند پیش ہے :

بجھے چاند جیسی آنکھوں والی مچھلیاں
قریب آ آ کر سنہری ساز و سامان دیکھتی ہیں
اور پوچھتی ہیں
’یہ تکبر یہاں کیا کر رہا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments