آئی ایم ایف، عید قربان اور قوم کی کھال
میرا نیک پڑوسی عید کے دوسرے دن قربانی کا گوشت دینے آیا تو اس کے چہرے پر پھیلی خوشی دیدنی تھی۔ میں نے کہا، قربانی دینے والے کا روشن چہرہ بتا رہا ہے کہ رب کے یہاں اس کی قربانی منظور ہوئی۔ اس نے شرمیلے انداز میں بتایا کہ یہ خوشی مودی کے سینے پر لوٹتے سانپ کا سوچ کر چھائی ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ بھارتی وزیر اعظم پر ایسی کیا گزری؟
پڑوسی نے پر جوش لہجے میں بتایا، آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر کی (اسٹینڈ بائے) منظوری دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اب پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
"لیکن بھائی، اس خبر میں ایسا کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے سینے پر سانپ لوٹے؟”
بہ جائے اس کے کہ وہ سیدھا جواب دیتا، اس نے خشم گیں نظروں سے مجھے دیکھا۔ "آپ کو پتا بھی ہے کہ پاکستان کی ہر کام یابی پر ہندستان میں سوگ کی کیفیت ہوتی ہے!؟”
"قرض ملنا ایسی کام یابی ہے؟”
"تو اور کیا نئیں؟ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا!”
"ہاں یہ تو ہے۔ مگر یہ کہیے، پاکستان کو یہ قرض کس قیمت پر ملا ہے؟ پیٹرول، بجلی کی نرخوں میں اضافے کی شرط پر؟ کیا پہلے سے منہگائی کا طوفان کم تھا، جو مزید دیکھنا باقی ہے؟!” میں نے کچھ کچھ اپوزیشن کا سا لہجہ اپناتے کہا۔ پڑوسی نے کسی منطقی پروفیسر کے سے لہجے میں جواب دیا۔
"جو بھی ہے! ہم گھاس کھا لیں گے، لیکن بھارت کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے۔”
"گھاس کھانے والی تب کی بات تھی، جب اطراف میں گھاس وافر تھا؛ اب تو سبزے کے قطعوں کا قلع قمع ہوا، وہاں ہاوسنگ پراجیکٹ اُگے ہوئے ہیں۔”
"مانیں نہ مانیں، یہ پاکستان کی کام یابی تو ہے۔”
میرے پاس کج بحثی کو وافر وقت تھا۔ "اچھا یہ کہیے، کیا بھارت بھی ایسے ہی قرض کا امیدوار تھا جیسے ہم منت ترلا کر رہے تھے؟ کیا اسے ہم سے کم قرض ملا ہے، اور ہمیں زیادہ، جو ہم اس سے آگے بڑھ رہے ہیں؟”
"تو آپ کا کیا کہنا ہے، کیا ہونا چاہیے؟” پڑوسی پوری طرح بھنا چکا تھا۔
ایک گھر جس میں کھانے کے لالے پڑے ہوں، قرض کی مے پیتا ہو، دیوالیہ ہونے کے ڈراوے ہوں، وہ بجٹ کا بڑا حصہ دفاع کی مد میں مختص کرے تو کیا یہ سمجھ آتا ہے؟”
"آپ کہتے ہیں، ہم اپنی غیرت کا سودا کر لیں؟”
"غیرت؟”
"کمال ہے! آپ کو غیرت کا مطلب بھی نہیں معلوم؟” پڑوسی کو میری غیرت پر شبہہ ہونے لگا تو میں نے وضاحت کی۔
"غیرت کا مطلب معلوم ہے؛ لیکن یہاں غیرت کا کیا سوال؟”
"اچھا دیکھیے، آپ میری بات غور سے سنیے؛ فرض کرتے ہیں، ہم دیوالیہ ہو جاتے تو کیا ہوتا؟”
"کیا ہوتا؟” گھر میں تھا کیا جو تیرا غم اسے غارت کرتا۔”
"آپ نے غیرت کہا؟”
میں نے الف پر زور دیتے دہرایا، "غارت۔”
"غارت ہو بھارت۔ آپ نے سوچا، اگر ہم دیوالیہ ہو جاتے تو ہمارے ٹینکوں کے لیے فیول نہ ہوتا، اور بھارت ہم پر قبضہ کر لیتا!؟ اور یہ جو قربانی کا گوشت میں آپ کو دینے آیا ہوں، یہ قربانی بھی ایک خواب ہوتی۔”
میں نے تائید کی، "قربانی کا معاملہ تو سیریس ایشو ہے مگر ایک دیوالیہ ملک پر قبضہ کر کے بھارت کو کیا حاصل ہونا تھا؟”
اب پڑوسی کا شک یقین میں بدلتا محسوس ہوا۔ "مجھے لگتا ہے، آپ بھارت کے کچھ زیادہ ہی ہم درد ہیں۔”
"وہ کیسے؟”
"آپ نے جو کہا کہ دفاعی بجٹ تو میں خوب سمجھتا ہوں، آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو چاہتے ہیں، فوج ختم کر دی جائے۔”
"ایسا میں نے کب کہا؟”
"انسان کہے نا کہے، اس کی نیت کا پتا چل جاتا ہے کہ کتنا محب وطن ہے۔”
اب مجھے دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ "مجھے پاکستان سے اتنی ہی محبت ہے، جتنی آپ کو یا کسی بھی پاکستانی کو ہو سکتی ہے۔”
"آپ کو پتا بھی ہے، آئی ایم ایف نے کیا شرط لگائی تھی؟” میں حفظ مراتب کے تحت خاموش رہا تو اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ "یہ کہ فوجی بجٹ کم کیا جائے، لیکن ہمارے یہ سیاست دان لاکھ برے سہی، اس پر نہیں مانے۔”
"پھر؟”
"پھر کیا! وزیر اعظم نے کہا، ہم اپنا نقصان کر لیں گے، لیکن جمہوریت کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔”
"اب یہ جمہوریت کی بات بیچ میں کیسے آ گئی؟” مجھ سے رہا نہ گیا۔
"آپ تو بالکل ہی بے خبر ہیں؛ میں خوام خواہ آپ سے بحث کر رہا ہوں۔”
"کچھ سمجھائیے تو۔” میں واقعی نہیں سمجھا تھا۔
"دیکھیے بھائی! جمہوریت کی حفاظت کون کرتا ہے؟”
"جمہور۔ یعنی عوام۔” میں نے پورے تیقن سے کہا۔
"ٹھیک سمجھا تھا، میں؛ آپ بالکل ان جان ہیں۔” میرے متذبذب چہرے کو دیکھتے گویا ہوا، "جمہوریت کی حفاظت فوج کرتی ہے؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، بار ہا فوج نے اس بات پر زور دیا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، اور ہر حال میں اس کی حفاظت کریں گے۔”
"اچھا؟” میری حیرت میں طنز کا شائبہ تک نہ تھا۔
"اچھا کیا؟ آپ اتنی سامنے کی بات نہیں جانتے اور بے وجہ مجھے باتوں میں الجھا رہے ہیں!؟”
"میں الجھا نہیں رہا، سمجھنا چاہ رہا ہوں۔” میں عاجزی طاری کرتے منمنایا۔
"تو سجھ لیجیے، آئی ایم ایف ہو، یا کوئی عرب دوست ملک، وہ ہمیں قرض دیں یا مدد کریں، تو ہی ہم اپنے بجٹ کو مینیج کر سکیں گے۔”
"دفاعی بجٹ کو؟”
"ملکی بجٹ کو؛ اور دفاعی بجٹ بھی اسی میں شامل ہے۔ قوم کو قربانی دینا ہو گی۔”
"اور کھال؟”
"کون سی کھال؟”
"قوم کی کھال؟”
پڑوسی کا صبر جواب دے چکا تھا۔ "آپ نا صرف بے خبر ہیں، بل کہ بد تہذیب بھی ہیں؛ اور تو اور ہوش مند بھی نہیں۔” یہ کہتے، میرے ہاتھ سے گوشت کا پیکٹ جھپٹا اور یہ جا وہ جا۔
- آئی ایم ایف، عید قربان اور قوم کی کھال - 01/07/2023
- فلم اور ٹی وی کے لیے لکھتے ہوئے کیا خیال رکھنا ہے - 20/06/2023
- فلم میکنگ شارٹ کورس - 30/04/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).