پاکستان: نیوکالونیل ازم کے 76 سال
برطانوی کالونیل عہد کے سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ تقسیم ہند کے 76 سال بعد بھی ان تمام حقائق تک پہنچنا آسان نہیں۔ دراصل پاکستان کے پوسٹ کالونیل سسٹم میں رائج نظریہ علم اور تعلیمی نظام ان حقائق تک پہنچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نظریہ علم کی ترویج کے لیے کالونیل عہد کی طاقتیں آج بھی سرمایہ کاری کر رہی ہے تاکہ اپنی علمی بالادستی کے ذریعہ ایک مخصوص سانچہ میں ذہنوں کو ڈھالا جا سکے اور اپنے مفادات کے تحفظ پر مبنی ایک مخصوص عوامی بیانیہ کی تشکیل کی جا سکے۔ نصابی کتابوں میں جس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ بیان کی جاتی ہے وہ نہ صرف انتہائی ناقص اور جانبدارانہ ہے بلکہ حکمران طبقات کے نقطہ نظر کو دہرانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
نصابی کتابوں، اخبارات اور میڈیا کے ذریعہ کوشش کی جاتی ہے کہ علمی، سیاسی اور سماجی طور پر چھوٹے چھوٹے دماغ پیدا کیے جائیں تاکہ بقول فیض ان میں ”ہمت کفر“ (انکار اور نہ ماننے کی ہمت) اور ”جرات تحقیق“ جیسی خصوصیات پیدا نہ ہوں۔
ہماری قومی تاریخ کا بیانیہ محمد بن قاسم سے شروع ہو کر محمد علی جناح پر ختم ہوجاتا ہے اور اس پوری تاریخ میں سے برٹش کالونیل دور کو، اس دور کے مظالم کو ان کی معاشی غارت گری اور استحصال کو شعوری طور پر چھپایا جاتا ہے۔
اور اس نصابی بددیانتی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غلامی کے انگریزی نظام، بیوروکریسی کے تسلط، کالونیل ایجوکیشن سسٹم، ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد ازاں تاج برطانیہ کی لوٹ مار، ہندوستانی خزانوں کی برطانیہ منتقلی، کالونیل تعزیرات و سزائیں، وطن پرستوں کی جدوجہد اور ان کو موت کی سزائیں، قومی غلامی مسلط کرنے کے لیے کالونیل فوج کی تشکیل جیسے امور ہمارے شعور اور یادداشت سے کھرچ کر باہر نکال دیے گئے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 2019 ء میں جب پرنس ولیم اور کیٹ نے پاکستان کا دورہ کیا تو اہل پاکستان مرعوبیت کی کالونیل نفسیات کی وجہ سے ان کی تعریف و توصیف میں زمین آسماں ایک کر رہے تھے۔ 2022 ء میں ملکہ برطانیہ کی وفات پر جس طرح ان کے دورۂ پاکستان کی تصاویر قومی میڈیا میں شیئر کی گئیں وہ نوآبادیاتی مالیخولیا کی ہی ایک علامت تھی۔
اگر 1974 ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس نہ ہوتی تو ملکہ برطانیہ کا مجسمہ آج بھی پنجاب اسمبلی کے سامنے لگا ہوا ہوتا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کی وجہ سے مجبوراً ملکہ کے مجسمہ کو وہاں سے ہٹانا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ ایک قبضہ گیر استحصالی ملک کے ملکہ کے مجسمہ کو جو غلامی کی ایک علامت تھی (نام نہاد) آزادی کے بعد بھی اتنے برسوں تک کیوں نہیں ہٹایا گیا تھا؟
کالونیل دور کے بے رحم رابرٹ کلائیو، ثقافتی برتری کا شکار لارڈ میکالے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے ماہر لارڈ کرزن، ڈائر جیسے قاتل سفاک افسر اور چرچل جیسے نسل پرست عہدیداروں اور حکمرانوں کی مظالم سے بھری تاریخ ہمارے قومی بیانیہ سے غائب کی گئی ہے۔ ہمارے یہاں اس بات پر کوئی بحث نہیں ہوتی کہ کس طرح برطانیہ کی جانب سے 1765 ء سے لے کر 1938 ء تک 45 ٹریلین ڈالرز کی لوٹ مار کی گئی تھی جو آج کے دور میں 12 کھرب 796 ارب 357 کروڑ اور پانچ سو لاکھ روپے بنتے ہیں۔
پوسٹ کالونیل پاکستان کے تعلیمی اداروں اور نصاب کے ذریعہ نہ صرف ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ کی معاشی لوٹ مار، استحصال اور غارت گری کو چھپایا گیا بلکہ ان کا سافٹ امیج بنایا گیا ہے۔ برطانیہ نے تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان کو اپنے تزویراتی مقاصد اور مفادات کے تحت کامن ویلتھ نیشنز میں شامل کیا۔ تقسیم ہند کے نتیجہ بننے والا پاکستان 76 سال بعد بھی کالونیل عہد کے ورثہ اور باقیات کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
ان باقیات میں طبقہ اعلیٰ اور اشرافیہ پر مشتمل سیاسی نظام، استحصال اور منافع پر مبنی معاشی نظام، سماجی پسماندگی کی علامت جاگیرداری نظام، حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے والی عدالتی، فوجی، پولیس اور بیوروکریسی کا نظام اور عوام کو تنقیدی سوچ سے دور رکھنے والا انہیں نفسیاتی اور سماجی طور پر مغلوب رکھنے والا تعلیمی نظام۔ پاکستان کے باشعور نوجوانوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اور اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ پوسٹ کالونیل ازم اور نیو کالونیل ازم کو علمی طور پر چیلنج کریں۔ پاکستان کا پورا سماجی ڈھانچہ، سیاسی اور تعلیمی نظام ڈی کالونائز کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا طبقہ اشرافیہ پوسٹ کالونیل مفادات کا تحفظ کرتی رہے گی۔
- کشمیر : علاقائی قوم پرستی کا نوآبادیاتی تصور - 08/12/2024
- دھرتی کے گمنام ہیرو - 28/11/2024
- خاتون حر حلقہ زنجیر میں - 16/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).