پاکستانی ڈراموں میں عورت کا کردار


پاکستانی کے بے شمار ٹی وی چینلز ہیں جہاں سلسلے وار سوپ ڈرامے چل رہے ہوتے ہیں۔ یہ سارے ڈرامے کمرشل نظریہ پر بنتے ہیں۔ بڑے بڑے چینلز میں ہم ٹی وی، اے آر وائی اور جیو سب سے بڑے نام ہیں۔ ڈرامے مختلف ہیں لیکن پھر بھی ایک ہی جیسے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ارے یہ تو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

جیسے جیسے ان چینلز کی مشروم گروتھ ہوئی ویسے ویسے تھوک کے حساب سے ڈرامے بننے لگے۔ ڈرامے بیچنے کے لیے بننے لگے۔ ان میں کہانی اور سبق ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ ایک ہی طرح کی کہانیاں، ایک ہی طرح کے کردار اور ایک ہی طرح کی خواتین۔ جی ہاں ہر ڈرامے میں عورت کا کردار آپ کو ویسا ہی دیکھنے کو ملے گا جو آپ پہلے ڈراموں میں دیکھتے آئے ہیں۔

اگر کوئی رائٹر کوئی اچھی بامقصد کہانی لکھ لے اور اس کا ڈراما بن جائے تو کہانی شروع میں تو دلچسپ اور ذرا ہٹ کے لگتی ہے لیکن چند قسطوں کے بعد وہ دھیرے دھیرے اسی پرانی ڈگر پر چل پڑتی ہے۔ اس میں سب سے بڑا ہاتھ ریٹنگ کا ہے۔ ریٹنگ کے چکر میں اچھی بھلی کہانی کا ستیاناس کر دیا جاتا ہے کہا جاتا کہ لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ عوام کی ذہانت پر ایک تہمت ہے۔ لوگ اتنے بھی احمق نہیں کہ ایک ہی طرح کی کہانیاں دیکھتے رہیں۔ کوئی مصنف اچھی کہانی لکھتا بھی ہے تو آگے جا کر اسے مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ پبلک کی ڈیمانڈ پر اس میں ایسا مواد ڈالیں جو دلوں کو گرما دے۔ اس قسم کے ڈرامے دیکھنے والوں کے دماغوں کو دھندلا رہے ہیں۔

اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ عوام یہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں تو کیا ڈرامہ انڈسٹری کا فرض نہیں کہ وہ معیار بلند کرے اور کچھ با معنی کہانیاں دکھائے؟ ریٹنگ سسٹم نے مصنفوں، پروڈیوسروں اور فنکاروں کے ذہنوں پر لگتا ہے تالا ڈال دیے ہیں ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ اور بے معنی قسم کے ڈراموں کی قسطیں بڑھائی جاتی ہیں اور کہانی کہیں کھو جاتی ہے۔

بات ذرا ادھر ادھر نکل گئی ہمارا موضوع ہے ڈراموں میں عورت کا کردار۔ اس پدرسری معاشرے میں عورت کا جو حال یہ ڈرامے بناتے ہیں وہ ہر ذی شعور عورت کو غم اور غصے سے دوچار کر دیتا ہے۔ ایک بات جو ہر ڈرامے میں مشترک ہے اچھی اور بری عورت کو پورٹریٹ کرنا ہے۔ اچھی عورت اپنے لباس سے پہچانی جاتی ہے یعنی شلوار قمیض اور دوپٹہ۔ جینز میں ملبوس نوجوان لڑکی کا تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ مرد سگریٹ نوشی کرے تو اس کے کردار پر انگلی نہیں اٹھتی بس ایک پٹی چلتی ہے ”سگریٹ پینا صحت کے لیے نقصان دہ ہے“ ۔ لیکن عورت سگریٹ پیے تو سالا کریکٹر ڈھیلا۔ بڑی عمر کی عورتوں کا کردار تو بہت ہی افسوسناک ہے۔ یہ یا تو بیٹھی سبزیاں کاٹ رہی ہوتی ہیں یا کھانے کی میز پر کھانے سرو کرتی ہیں۔ شوہر کے آنے پر پانی کا گلاس پیش کرتی ہیں۔ ”آپ ہاتھ منہ دھو لیں میں کھانا لگاتی ہوں“ یہ ہے وہ ڈائیلاگ جو ہر ڈرامے میں کہیں نا کہیں ضرور بولا جاتا ہے۔ گھر میں کسی اہم موضوع پر بات ہو رہی ہو اور وہ کچھ بولے تو شوہر کہتا ہے ”تم چپ رہو تمہیں کچھ نہیں پتہ“ یقین کیجیئے یہ جملہ بھی ڈراموں میں اکثر ادا ہوتا ہے اور اسے عورت کی توہین بھی نہیں سمجھا جاتا۔

وہ بے چاری عورت

یہ وہ عورت ہے جو تمام اقساط روتے دھوتے گزار دیتی ہے۔ ہر ظلم ہر بے عزتی برداشت کرتی ہے اور شکایت کا ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتی۔ یا سوتیلی ماں اس پر ظلم کرتی ہے یا پھر ظالم ساس اور شوہر۔ یہ ہر بات سہ جاتی ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ دیکھنے والے بھی شاید ایسی عورت کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ عورت جتنا روتی ہے اتنا ہی ڈرامہ ہٹ جاتا ہے۔ چونکہ وہ اچھی عورت بے زبان بھی ہے اس لیے اپنے حق کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھائے گی۔ اور دیکھنے والوں کو اس کی یہی ادا بھاتی ہے۔ اس کا دن گھر کے کاموں میں گزرتا ہے اور آدھی رات ساس یا شوہر کی ٹانگیں دبانے میں۔ یہ مار کھا کر بھی چوں نہیں کرتی۔ چوں کہ یہ اچھی عورت ہے اس لیے شلوار قمیض پہنتی ہے اور سر پر دوپٹہ بھی ہوتا ہے۔

وہ دوسری عورت

ایک حد سے دوسری حد تک جانا ضروری ہے۔ کہانی کو بیلنس کرنے لے لیے اس نیک پروین کے سامنے ایک چلتر عورت دکھائی جاتی ہے جو ہر وقت سازشوں میں اور دوسروں کی ٹوہ لینے میں مشغول ہے۔ لباس موڈرن اور میک اپ فل۔ اس منفی کردار عورت کا کام اس دکھی اور صابر شاکر عورت کی زندگی اجیرن کرنا ہے اور اس کا گھر تباہ کرنا ہے۔ کہیں وہ اچھی عورت کی بیسٹ فرینڈ ہوتی ہے اور کہیں اس کی سگی بہن۔ اس کا کام ”بے چاری“ کو عذاب میں مبتلا کرنا ہے کہیں تو اس حد تک کہ اچھی عورت کی جان پر بن جائے۔ لیکن فکر کی بات نہیں اینڈ میں یہی اچھی عورت معجزاتی طور پر سرخ رو ہوتی ہے اور بری عورت کا برا انجام ہوتا ہے۔ بری عورت ہو یا مرد انجام ان کا برا ہونے ہی چاہیے لیکن وہ اچھی عورت چپ کیوں رہتی ہے کسی غیبی مدد یا معجزے سے اس کی دنیا کیوں تبدیل ہوتی ہے؟

وہ مضبوط عورت

خدا رحم کرے اگر لکھنے والے کسی عورت کو ایک مضبوط کردار میں پیش کردے۔ وہ عورت جو اپنا حق لینا جانتی ہے جو ناانصافی پر اپنی آواز بھی بلند کرتی ہے۔ وہ صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسری عورتوں کو بھی آواز اٹھانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس جیسے کردار پر ڈرامے لکھنے کی کوشش ضرور ہوئی لیکن وہ راستے بدل گئے۔ سوال کرنے اور حق پر آواز اٹھانے والی عورت پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی۔ اسے معاشرے اور اقدار سے بغاوت دکھایا اور بتایا جاتا ہے۔ ۔ چند ہی اقساط آن ائر جانے کے بعد کہانی کو ایک بدصورت موڑ دے کر اس مضبوط عورت کو سمجھوتوں پر آمادہ کر لیا جاتا ہے اور وہ اپنی ”غلطی“ کو مان کر سیدھی راہ پر آجاتی ہے۔ یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ عورت باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے کے حوالے سے ہی پہچانی جانی چاہیے۔ اس کی الگ کوئی شناخت نہیں۔

ایسے کتنے ڈرامے ہیں جس میں عورت کا مضبوط اور باکردار دکھایا گیا ہے؟ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے بتاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پدر سری معاشرہ ہے۔ عورت پوری انسان نہیں۔ چلیے مان لیا کہ اصلی زندگی میں ایسا ہی ہے لیکن اس ذہنیت کو پروموٹ تو مت کریں۔

چینلز والے ذرا ہمت کریں اچھی کہانیوں کا انتخاب کریں۔ لکھنے والے بھی چینل مالکان سے سمجھوتے نہ کریں۔ اچھی بامعنی کہانیاں لکھیں۔ عورت کو اس کے مقام سے نہ گرائیں۔ گھریلو سازشوں اور شادی بیاہ کے جھنجھٹوں سے باہر نکلیں۔ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں انہیں ایڈرس کریں۔ ریٹنگ کو چھوڑ کر معیار کو اپنائیں۔ ڈرامے کا میڈیم بہت طاقتور ہے یہ سوچ بدل سکتا ہے۔ معاشرے پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ مضبوط اور خودمختار عورت سے مت ڈریں۔ اسے سر اٹھا کر جینے کی راہ دکھائیں۔ ملک کی نصف سے بیشتر آبادی کی تذلیل مت کریں۔ تاروں بھرے اس فلک میں کچھ ٹمٹماہٹ ان کے لیے بھی رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments