جمہوریت یرغمال بنائی جا چکی ہے!
حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے 9 اگست تک قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات منعقد کروانے کے لئے 90 دن کی مہلت ہوگی۔ اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کرنے کے باوجود بظاہر ابھی تک نگران وزیر اعظم کے لئے کسی نام پر ’اتفاق‘ نہیں ہوسکا۔ تاہم خبروں کے مطابق اس معاملہ پر اتحادیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن ملک میں جو ماحول بنایا جا رہا ہے، اس کی روشنی میں تو سیاسی قیادت کا کام ’یس سر‘ کہہ کر حاضری لگوانے اور نام کے ساتھ عہدہ لکھنے کی خواہش پوری کرنے کے سوا اور کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا۔
حکومت نے گزشتہ چند روز کے دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دھڑا دھڑ ایسے قوانین منظور کروائے ہیں جن سے شہریوں کے حقوق محدود اور اداروں کے اختیار میں اضافہ ہو گا۔ لیکن حکمران جماعتوں کی پھرتی اور عجلت کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی قاعدے یا ضابطے کو ماننے کی بجائے ملک میں ایک ایسا نظام مسلط کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے جس میں اس کے لئے سیاسی راستے کشادہ ہو سکیں۔ کسی کو اس کی فکر نہیں کہ ملک میں جمہوری نظام یا آئینی انتظام کے ساتھ کیا بیتے گی۔ سینیٹ میں بعض سینیٹرز نے عجلت میں کی گئی قانون سازی کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرور کوشش کی لیکن یہ آوازیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔ خبروں کے مطابق آج اتحادیوں کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جلد بازی میں قانون سازی کا شکوہ کیا لیکن ایسے شکوہ شکایت کا کیا فائدہ جس پر عمل نہ کیا جا سکے۔ پیپلز پارٹی اس قانون سازی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑی تھی اگرچہ اس کے بعض سینیٹرز نے ضرور قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کی دہائی دی۔
آج سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی حنا ربانی کھر نے ہی ’نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ ٹیرر فنانسنگ اتھارٹی بل‘ پیش کیا۔ یہ بل اس سے پہلے قومی اسمبلی میں منظور کیا جا چکا ہے۔ اگرچہ سرکاری ترجمانوں کے مطابق اس اقدام سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کیا جائے گا تاکہ پاکستان کے دامن سے پر دہشت گردوں کے لئے مالی سہولت کا ٹھکانہ بننے کا داغ مٹایا جا سکے اور مستقبل میں پاکستان کبھی اس ادارے کی گرے لسٹ میں نہ ڈالا جا سکے۔ یہ تکنیکی تفصیلات بتا کر جواز پیش کرنے والے وزرا کو البتہ اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس قسم کی قانون سازی کے لئے مناسب وقت فراہم کرتے تاکہ نہ صرف قانون سازوں کو معلوم ہوتا کہ وہ کس قانون کا مسودہ منظور کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں مناسب بحث کے علاوہ میڈیا میں قانون سازی کے حسن و قبح پر گفتگو بھی ہو سکتی۔ اور عوام کو بھی یقین ہوتا کہ جانے والی حکومت جو قانون نافذ کرنا چاہ رہی ہے، اس سے عام شہریوں کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔ البتہ یہ اہتمام کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔
اس سے پہلے آرمی ایکٹ اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے علاوہ درجنوں دوسرے بل بھی عجلت میں منظور کروائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ ڈیڑھ سالہ دور اقتدار کے خاتمہ پر عجلت میں ان قوانین کو منظور کروانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ حکومت نے تیزی سے مختلف بل منظور کروانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اور یہ مستعدی اس لحاظ سے پریشان کن ہے کہ ایک ایسی حکومت اس قانون سازی میں ملوث ہے جس کا دورانیہ پانچ روز میں پورا ہونے والا ہے۔ اور یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ یہی جماعتیں منتخب ہو کر ایون میں اکثریت حاصل کر لیں گی۔ گویا اس قانون سازی کے منفی اثرات کا کسی سیاسی لیڈر سے جواب طلب نہیں کیا جا سکے گا۔
ابھی تو خفیہ ایجنسیوں کو شہریوں کی گرفتاری اور ان کے گھروں پر چھاپے مارنے کے لامحدود اختیارات عطا کرنے والا ایک بل سینیٹ میں شدید احتجاج کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ ایسا ہی ایک قانون پرتشدد انتہاپسند گروہوں کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں بھی پیش کیا گیا تھا جسے چئیر مین سینیٹ نے واپس لے کر اسے دوبارہ پیش کرنے کی رولنگ دی تھی۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ باقی ماندہ چند روز میں حکومت ان قوانین کو منظور کروانے کی کوئی نئی کوشش نہیں کرے گی۔ سانحہ 9 مئی کے بعد صدر عارف علوی نے ایک مخالف نظریہ رکھنے والی سیاسی جماعت کے منظور کردہ قوانین کو ملتوی رکھنے کا رویہ تبدیل کر لیا ہے اور ’اچھے بچے‘ کی طرح اپنے آئینی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے منظور کردہ قوانین پر دستخط ثبت کرتے رہے ہیں۔
ملک میں جو ماحول قائم کیا گیا ہے اس میں یہ جاننا مشکل ہے کہ اس وقت اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ اس حوالے سے بھی بے یقینی موجود ہے کہ انتخابات منعقد ہو بھی پائیں گے یا انہیں بھی پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات کی طرح قومی ایمرجنسی کے نام پر غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے چند روز پہلے نئی ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کروانے کا عندیہ دے کر بے یقینی میں اضافہ کیا تھا۔ اب اتحادی پارٹیوں کے اجلاس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ مردم شماری کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو حتمی سمجھا جائے گا۔ البتہ اس وقت دو صوبوں میں منتخب حکومتیں موجود نہیں ہیں بلکہ نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں جن کی آئینی مدت زیادہ سے زیادہ 90 دن ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ حکومتیں گزشتہ آٹھ ماہ سے کام کر رہی ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ جن صوبوں کی اسمبلیاں توڑی جا چکی ہیں، مشترکہ مفادات کونسل میں ان صوبوں کی نمائندگی کون کرے گا۔ اگر نگران وزرائے اعلیٰ کی مشاورت سے اس کونسل میں مردم شماری اور انتخابات کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اسے کس حد تک عوام کی ترجمانی کا نام دیا جائے گا؟
شاید اس بارے میں حکومت یا ملک کی کسی بھی قابل ذکر سیاسی جماعت کو کوئی خاص پریشانی لاحق نہیں۔ ملکی فوج باقاعدہ ملکی سیاست سے علیحدہ رہنے کا عزم ظاہر کرچکی ہے تاہم 9 مئی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں سیاسی و انتظامی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ملکی عدلیہ بھی اس دباؤ کے سامنے سرنگوں دکھائی دینے لگی ہے۔ اگرچہ فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کے خلاف پٹیشنز پر غور کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چھ رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالت فوج کو ماورائے آئین کام نہیں کرنے دے گی۔ لیکن دو روز پہلے منعقد ہونے والی اسی سماعت میں مقدمہ کی کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی بھی کردی گئی۔ یوں بھی فوج نے کبھی بھی اس ارادے کا اظہار نہیں کیا کہ وہ ملکی آئین کو نہیں مانتی یا اس سے بالا کوئی اقدام کرنا چاہتی ہے۔
اس لئے اگر لفاظی کی حد تک سپریم کورٹ کے جج ریمارکس یا فیصلوں میں اس پہلو کی یاددہانی کروا بھی دیں تو کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن عملی صورت حال بہرحال یہی ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہزاروں لوگوں کو غائب کیا گیا اور عدالتوں نے متعدد بار اس صورت حال کو ختم کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا لیکن اسے تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ موجودہ حکومت کے دوران تو صحافیوں اور اینکرز کو اٹھانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہا ہے۔ ایک مشہور اینکر عمران ریاض کے بارے میں تو پوری سرکاری مشینری صاف انکار کرچکی ہے کہ انہیں اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ حالانکہ وہ سیالکوٹ ائرپورٹ سے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہوئے تھے۔ ایسے میں اگر فوج اور دیگر عسکری اداروں کو قانون و آئین کی پابندی کی یاددہانی کروائی جائے اور غیر قانونی کاموں کو روکا بھی نہ جا سکے تو نہ جانے کیسے آئینی بالادستی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہنے دیا کہ فوج ملک میں مختلف معاشی منصوبوں پر عمل درآمد کی ضامن ہے۔ وہ اسے اپنی اور فوج کی معاشرتی ذمہ داری قرار دیتے ہیں لیکن کوئی عدالت ان سے یہ سوال کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی کہ آئین کی کون سی شق کے تحت یہ ذمہ داری فوج کو تفویض ہو چکی ہے کہ وہ ملکی معاشی منصوبوں کی فیصلہ سازی میں شامل ہو اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے ضامن کا کردار ادا کرے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی ہر تقریر ’مدح سپہ سالار‘ سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر اس کی تان ٹوٹتی ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کا منصوبہ ہو، زرعی اصلاحات کے لئے بہتری کے اقدامات ہوں یا قرضے لینے میں سہولت کاری کا معاملہ، آرمی چیف کی خدمات کو بڑھ چڑھ کر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ گویا ملک میں نام نہاد منتخب آئینی حکومت لاچار و معذور ہے لیکن آرمی چیف مسلسل اسے پاؤں پاؤں چلنے کے لئے بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تو شہباز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ’مجھے طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے۔ ان باتوں سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مقصد صرف ایک تھا کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ مل کر ملک کو آگے لے کر جائیں‘ ۔ فوج کی صلاحیت و شراکت داری کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم اس کی آئینی حیثیت پر بات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اسی تناظر میں ممتاز صحافی، دانشور اور ’ہم سب‘ کے مدیر اعلیٰ وجاہت مسعود نے ایک ٹویٹ میں استفسار کیا ہے کہ اگر ’مقصد صرف یہ تھا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مل کر ملک کو آگے لے جائیں اور غربت و بے روزگاری کا خاتمہ کریں تو اپنے بیان اور‘ ون پیج ’کی ہائبرڈ رجیم کا فرق واضح کر دیں‘ ۔
وزیر اعظم کے پاس تو شاید ایک صحافی کے سوال کا جواب دینے کا وقت نہیں ہو گا لیکن تاریخ کے صفحات پر ضرور رقم ہو گا کہ ملک میں جمہوریت بچانے کا دعویٰ کرنے والے سیاسی لیڈروں نے اپنے مفادات کے لئے ملک کے جمہوری نظام کو یرغمال بنانے کا اہتمام کیا تھا۔
- تحریک انصاف کا جلسہ: ڈرتے کیوں ہو بھائی - 09/09/2024
- پاکستان کا پریشان، بدحال اور ناکام شہری - 08/09/2024
- یوم دفاع پر پاک فوج سے اظہار یک جہتی کیسے کیا جائے؟ - 07/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).