رفعت عباس کا ناول: نمک کا جیون گھر


یہ ایک گمبھیر اور منفرد ناول ہے۔ یہ کسی ایک انسان اور اس کے معاشرے کی کہانی نہیں ہے۔ یہ اس وقت سے لے کر جب سے انسان نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے اور اب انسان جس مقام پر ہے یہ تب تک کی کہانی ہے۔ انسان کے زمین پر بسنے کی داستان سے لے کر اکیسویں صدی تک کے سفر میں انسان سے ایسی کیا غلطی ہوئی کہ خدا، جنگ اور موت انسان کے لئے لازم و ملزوم ٹھہر گئے۔ ان کی موجودگی نے شہروں اور ان کے لوگوں کو کیسے متاثر کیا۔ اگر کسی معاشرے میں جنگ اور موت نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسا ہو گا؟ کیا ان کے بنا انسان اور معاشرے کا وجود ممکن بھی ہے؟ کیا مذہب اور سیاست کی بجائے آرٹ سے کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے؟ آرٹ کب تک آرٹ رہتا ہے اور کب مذہب کا روپ دھار لیتا ہے۔ اس ناول میں ایسے ہی بڑے بڑے اہم نکات کو اٹھایا ہے کہ کیسے انسان نے آرٹ کا استعمال کر کے مذہب بنا لیا جبکہ آرٹ کو فقط آرٹ رہنا چاہیے۔

ناول کی سیر کرنے سے پہلے کچھ بیان ناول نگار کا بھی ضروری ہے۔ رفعت عباس کون ہے، یہ کون سی تہذیب کا نمائندہ ہے۔ زبان بھی تو تہذیب ہے اور ناول نگار سرائیکی زبان کا مشہور شاعر ہے، جس کی شاعری میں استعماریت اور عام آدمی کے استحصال کے خلاف مزاحمت ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ ایک شاعر، شاعری کی خیام گاہ سے نکل کر فکشن کے میدان میں آن کھڑا ہوا اور اس انداز سے آیا کہ اپنا جھنڈا گاڑ گیا۔ شاید اسی لئے کہ ناول اکیسویں صدی میں آرٹ کی وہ اہم شکل ہے جس میں بات ڈھب سے کہی جائے تو اپنا اثر رکھتی ہے اور سوچ کے نئے دریچے بھی وا کرتی ہے۔ عکس پبلشرز نے جو ناول شائع کیا ہے وہ منور آکاش کا کیا ہوا اردو ترجمہ ہے، جسے سرائیکی سے منتقل کرتے ہوئے انہیں ناول نگار رفعت عباس کی بھرپور مدد حاصل رہی ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ترجمہ ہے جسے ناول نگار کی تائید حاصل رہی اور اس کا اس ترجمے پر اطمینان ہے۔

کسی بھی ناول نگار کے لئے اپنے معاشرے اور اس کے معاملات کو فکشن میں پیش کرنا سہل نہ سہی مگر مشکل بھی نہیں ہے۔ وہ فکشن نگار جو اپنے ناول میں تخیل کی آنچ سے ایک نئی دنیا آباد کرے جو اس کی موجودہ دنیا جس میں وہ رہ رہا ہے اس سے مختلف ہو یقیناً ایک اہم واقعہ ہے۔ رفعت عباس نے یہی کارنامہ کیا ہے۔ ایک ایسے شہر کی تخلیق جو چار ہزار قبل مسیح میں سانس لیتا ہے، اس شہر کا نام ”لونڑی“ ہے جو لفظ لون یعنی نمک سے نکلا ہے۔ نمک مقامیت کو پیش کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ ناٹک کھیلتے ہیں، سوانگ رچاتے ہیں۔ شیشے بناتے ہیں، یہاں بادل گاڑیاں ہیں۔ یہاں کسی انسان کو موت نہیں آتی۔ یہاں کے شہریوں کے پاس نہ خدا ہے اور نہ ہی جنگی آلات۔ ناٹک گھر اس شہر کی پارلیمنٹ ہے۔ وہ اپنے اور اس شہر کے تمام فیصلے ناٹک کے ذریعے کرتے ہیں۔ انہوں نے اسی ناٹک گھر میں موت کے ساتھ کھیل کھیلا اور اسے شکست دی۔ ناول کی کہانی ”لونڑکا“ کی گمشدگی سے شروع ہوتی ہے۔ وہ لونڑی شہر کا ایک عام سا شہری ہے اور ایک دن اچانک کھو جاتا ہے۔

لونڑکا کی گمشدگی کے واقعے سے لونڑی شہر کی تاریخ آگے کی جانب بڑھتی ہے۔ لونڑی کے واسی لونڑکا کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ناول نگار نے دو متوازی جہان آباد کیے ہیں۔ ایک لونڑی شہر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام ادوار ساتھ چلتے ہیں۔ لونڑی کے شہری اپنے کتاب گھر میں رامائن، گیتا اور مہابھارت لا کر پڑھتے ہیں اور اپنے شہر سے باہر کی دنیا کو سمجھتے ہیں۔ اس دور میں وہ یہ جانتے ہیں کہ ایک شاعر کی کتاب سے کرشن وشنو کا آٹھواں اوتار اور بھارت کا نیا بھگوان بن گیا تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ”ہم اس شاعری سے گریزاں ہیں جو دیوتاؤں کو جنم دے۔“ لونڑکا کی گمشدگی کے بعد ایک شیشے کے کاریگر نے مجسمے میں لونڑکا کا نقش ابھارا تھا مگر لونڑی واسیوں نے نہ ہی اس مجسمے کی پوجا کی اور نہ لونڑکا کو دیوتا سمجھا کیونکہ وہ آرٹ کو محض آرٹ سمجھنے کا فن سیکھ چکے تھے۔

ناول کا سب سے دلچسپ موڑ تب آتا ہے جب دسویں دری یعنی دسویں باب میں تاریخ 712 سن عیسوی تک پہنچتی ہے اور محمد بن قاسم کو لونڑی شہر بارے معلوم ہوتا ہے۔ محمد بن قاسم کا ایک فرستادہ حکم نامہ لے کر لونڑی داخل ہوتا ہے۔ سارنگ جو عام شہری ہے اسے کہتا ہے ”اس شہر میں جنگ کے ہتھیار نہیں بنتے۔ اس شہر میں حاکم ہے، سپاہ ہے نہ مذہب ہے۔ ہماری طرف سے اسلام کے لئے نیک خواہشات۔ اللہ اور اس کے رسول کا احترام۔“ فرستادہ سارنگ سے جواب میں کہتا ہے :

”اسلام تمہیں تین میں سے ایک بات کا انتخاب دیتا ہے۔ اسلام قبول کرو، جزیہ دو یا پھر جنگ کے لئے تیار رہو۔“

لونڑی والے اس کی یہ تمام شرائط ٹھکرا دیتے ہیں اور اپنی کلا سے اپنے شہر کو عربوں کی نظروں سے غائب کر دیتے ہیں۔

وقت کا دھارا یونہی بہتا رہتا ہے اور بہتے بہتے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے ہوتا ہوا انیسویں صدی تک انگریز ہندوستان تک پہنچتا ہے جہاں وہ سوداگر کے روپ میں خدا، مذہب اور جنگ کی آڑ میں اپنا تسلط ہر شہر پر قائم کرتے جا رہے تھے۔ سن 1889 ہے اور برطانوی کیپٹن اولیور رابرٹس کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شہر ہے لونڑی وہاں بھی برطانوی راج قائم کیا جائے۔ ریل بچھائی جائے، تجارت کی جائے۔ وہ اپنی شرائط لے کر لونڑی حاضر ہوتے ہیں۔ کیپٹن کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ جنگ نہیں لڑتے مگر برطانوی تسلط بھی اہم ہے۔ لونڑی کا ایک شہری جب کیپٹن کو ناٹک کے ذریعے ناٹک گھر میں جنگ لڑنے کی دعوت دیتا ہے تو کیپٹن حیران رہ جاتا ہے۔ برطانوی فوج اسے مضحکہ خیز قرار دیتی ہے مگر وہ برطانوی پارلیمان سے رائے شماری کے ذریعے لونڑی کے ناٹک گھر میں ناٹک کے ذریعے جنگ لڑنے کا فرمان لے آتا ہے۔ ناول نگار نے حقیقی واقعات کو افسانے کا رنگ دیا ہے اور افسانے کو حقیقت میں ڈھال دیا ہے۔ ناٹک تین روز پر مشتمل ہو گا۔ تیسری رات فیصلہ کن ہوگی۔

”بمبئی آرمی کے بینڈ کی دھنیں تیز ہو گئی تھیں۔ لفٹیننٹ جارج گریوس کے ساتھ ملٹری اور سول افسران اور بمبئی شہر کے مدعوین پنڈال میں پہنچ گئے تھے۔ بمبئی کے سمندر اور آسمان کی گواہی میں انسانی تقدیر سے ابھرنے والی اس تقریب میں ایک نیا خیال ابھر رہا تھا:

”جنگ صرف ناٹک ہی میں لڑی جا سکتی ہے۔“
ایک نئی تصویر چمک رہی تھی:

”جنگ میں مرنے والا ہمیشہ کے لئے مر جاتا ہے لیکن ناٹک میں مرنے والا دوبارہ جی اٹھتا ہے۔ وہ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ محبوبہ سے باردگر مل سکتا ہے۔ کبوتروں کو دانہ ڈال سکتا ہے۔ کشتی کو روغن کر سکتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments