پاکستان ایک بہت بڑا جڑانوالہ ہے


Loading

ضلع فیصل آباد کے شہر جڑانوالہ میں مسلمان ہجوم نے نبی اللہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ماننے والے مسیحیوں کے 5 عبادت خانے (چرچ) جلا دیے ہیں۔ اور مسیحیوں کی کئی درجن املاک کو لوٹا اور نقصان پہنچایا ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق شہر کے سنیما چوک پر دو مسیحی لڑکوں کو مقدسات اسلام کی توہین کا مرتکب پایا گیا۔ جس کے بعد پولیس نے ایکشن لیا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ شہر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جس کے بعد ہزاروں لوگوں نے مسیحیوں پر تشدد کیا۔ شہر میں حالات کشیدہ ہیں اور رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہریوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

سال 2021 ء میں 6 ماہ کی مدت تک کالعدم رہنے والی مذہبی تنظیم ٹی ایل پی، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت متحرک رہی اور ایسا تاثر دیا گیا کہ تنظیم نے لوگوں کو پرامن رہنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس حد تک تاثر دیا گیا کہ ضلع کے ڈی سی اور ایس ایس پی آپریشنز کو تنظیم کے نمائندوں نے اپنے ساتھ کھڑا کر کے بیانات جاری کرائے۔ حالانکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جانتے ہیں (بعد ازاں ہونے والی کافی گرفتاریوں سے بھی یہ بات ثابت ہو گی) کہ گستاخ کی سزا، سر تن سے جدا کا نعرہ بھی اسی تنظیم کا ماٹو ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں اس خبر کو سارا دن بریکنگ نیوز کا درجہ حاصل رہا۔ جبکہ ملک کے اندر بھی اس ظالمانہ اقدام کی مذمت کی گئی۔ مریم نواز صاحبہ کے لئے ایسے حملے ناقابل قبول ہیں۔ نگراں وزیراعظم کو جڑانوالہ کے مناظر نے دہلا دیا اور بلاول بھٹو کو لرزا دیا۔ جبکہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کا سر شرم سے جھکا دیا۔ راقم پُر یقین ہے کہ اسی طرح کے بیانات دیگر سیاسی اور مذہبی قائدین نے بھی دیے ہوں گے جو بوجوہ میڈیا پر نہ آ سکے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔

مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ ہوئے کسی بھی ظلم و زیادتی کے بعد ملک کی ٹاپ مذہبی / سیاسی لیڈرشپ کے بیانات (مثبت، منفی، حمایت میں، یا خلاف) کی حیثیت ردی کے ٹکڑے برابر بھی نہیں ہوتی۔ یہ بیانات صرف الفاظ کا زیاں اور میڈیا پر اپنا نام درج کرانے کے سِوا کچھ بھی نہیں ہوتے۔ کیونکہ پاکستان کی ساری مذہبی اور سیاسی لیڈرشپ کے لئے پاکستان کی مذہبی اقلیتیں رتی برابر اہمیت بھی نہیں رکھتی ہیں۔ اس صدی کے گزشتہ 23 سالوں کی چار اسمبلیوں نے ہر اس قانون کو پوری تندہی سے منظور کیا کہ جس نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے لئے حالات مخدوش کیے۔ اور ہر ایسی قانون سازی کا راستہ روکا جو مذہبی اقلیتوں کے مسائل کم کر سکنے میں مددگار ہو سکتی تھی۔ لہذا ملک کی اقلیتی آبادی بالخصوص اور عوام بالعموم مذہبی اور سیاسی لیڈروں کے بیانات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

دوسری طرف اگر ملکی قوانین کو دیکھا جائے تو کاغذ پر لکھی تحریر کی حد تک تو بہت فینسی اور اقلیت دوستانہ قوانین کی بھرمار ہے۔ جبکہ حقیقی زندگی میں ان قوانین کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ گزشتہ 23 سالوں میں اقلیتوں کے ساتھ گزرے ہر سانحے کے بعد سخت قوانین بنانے اور ان پر حقیقی عملدرآمد کرانے کے بلند بانگ دعوے کیے گئے مگر معاملہ رات گئی بات گئی تک محدود رہا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بین المذہبی منافرت اور فرقہ ورانہ تشدد نے اس ملک کو ایک بہت بڑا جڑانوالہ بنا دیا ہے کہ جس میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو مذہبی بنیاد پر قتل کر سکتا ہے اور پرتشدد ہجوم آبادیوں اور عبادت گاہوں کو جلا سکتا ہے۔ اگر کوئی بھی اس منافرانہ تقسیم کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔ راقم گزارش کرتا ہے کہ کور کمانڈر لاہور کے جلے گھر کی طرح جڑانوالہ کے ان جلے چرچوں کو بھی اسی حالت میں محفوظ کر کے پاکستان کے شہریوں کو دکھایا جائے کہ سیاسی اور مذہبی فسطائیت نے اس ملک کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments