گاہک کی منتظر ایک کال گرل کا باپ (ایک تجزیہ)
بدھا نے کہا تھا: بھکشو زندگی دکھ ہے۔
ایک تیرہ سالہ لڑکی کا تصور کیجیے، جو کلکتہ کے بدنام زمانہ ریڈ لائٹ ایریا میں نیم برہنہ، بستر پر لیٹی اپنے کلائنٹ کی منتظر ہے۔
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جس کی ماں کم سنی میں فوت ہو گئی، جس کا اکلوتا سہارا اس شفیق باپ تھا، مگر باپ کو فراڈ کے جھوٹے الزام میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ باپ کا سایہ نہ رہا، تو آسمان سے عفریت برسنے لگتے ہیں۔
مالی مسائل، سماجی الجھنیں اس خاندان کی سمت دوڑی چلی آئیں۔ اس بارہ سالہ بچی پر بوڑھی نانی اور چھوٹے بھائی کی ذمے داری ہے، وہ ٹائپنگ سیکھ رہی ہے کہ کسی آفس میں چھوٹی موٹی ملازمت کر سکے۔ ایسے میں اس کی بوڑھی نانی بیمار پڑ جاتی ہے۔ وہ علاج کے لیے پیسے مانگنے اپنے باپ کے پرانے پارٹنر کے پاس جاتی ہے۔ وہی بدبخت شخص، جس نے اس گھرانے کے ساتھ فراڈ کیا تھا۔
وہ شخص محض ایک دغا باز نہیں، بلکہ طبقہ اشرافیہ کا دلال ہے، جو اسے کم سن بچیوں کی ہوس میں مبتلا ایک منسٹر کو سونپ دیتا ہے۔ منسٹر اسے جنسی زیادتی کے بعد آگے فروخت کر دیتا ہے۔
اب وہ ایک کھلونا ہے، یا ایک برائے فروخت جنس۔
ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا خریدار۔ آخر پانچ ہزار روپے میں اسے کلکتہ کا ایک دلال خرید کر ریڈ لائٹ ایریا میں پہنچا دیتا ہے، جہاں وہ گزشتہ ایک برس سے، ہر رات، اپنے باپ کی عمر کے افراد کے ہاتھوں کچلی جاتی ہے۔ اس نرک میں اس کے پاس کے راحت کا اکلوتا امکان اپنے باپ کا وہ اسکیچ ہے، جو اس نے بنا کر دیوار پر چسپاں کر رکھا ہے۔
اور پھر ایک رات، جب وہ نیم برہنہ، پیٹ کے بل لیٹی اپنے گاہک کی منتظر ہے، دروازہ کھلتا ہے۔ آنے والا شخص کوئی اور نہیں، بلکہ اس کا باپ ہے۔
بھکشو، زندگی دکھ ہے۔
مگر ابھی کہانی تمام نہیں ہوئی۔ باپ، جو جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنی گم شدگی بیٹی کو کھوجتا ہوا یہاں پہنچا ہے، اسے چادر میں ڈھانپ کر، پرنم آنکھوں کے ساتھ، گود میں اٹھائے، وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، تو علاقے کے دلال اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ جسم فروش عورتیں بھی اسے اپنا دشمن سمجھ کر پل پڑتی ہیں۔ آدمی بنگالی زبان نہیں جانتا، اپنی بات سمجھانے سے قاصر ہے، بس گڑگڑائے جا رہا ہے۔
بالآخر ایک بوڑھی نائکہ سامنے آتی ہے۔ وہ آدمی کی دکھ بھری کہانی سنتی ہے، تو لڑکی کی سمت دیکھتی، چادر میں لپٹی، زخمی بچی تصدیق کرتی ہے، تو وہ نائکہ آدمی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے کہ صاحب، آپ اپنی بیٹی کو لے جائیں۔
ایسے میں دلال راستہ کی دیوار بن جاتا ہے کہ اگر بچی کو لے جانا ہے کہ تو اس کے پانچ ہزار روپے ادا کیے جائیں۔ زخمی دکھیارے باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں۔ وہ جیب میں موجود تمام رقم ان کے حوالہ کرنا چاہتا ہے، مگر بوڑھی نائکہ اسے روک دیتی ہے۔
”اپنی ہی بیٹی کو لے جانے کے لیے آپ کیوں پیسے دیں گے؟ یہ پیسے ہم دیں گے، چاہے ہمیں اضافی کام (جسم فروشی) کرنے پڑے۔“
وہ اپنے بلاؤز میں موجود رقم نکال کر زمین پر پھینک دیتی ہے۔ باقی عورتیں بھی اس کی تقلید کرتی ہیں۔ ان گرتے ہوئے نوٹوں کے درمیان ایک باپ، چادر میں لپیٹی اپنی بیٹی کو گود میں لیے بیٹھا رو رہا ہے۔ وہ اس نائکہ کے پیر چھو لیتا ہے۔
نائکہ روکتی ہے۔ ”آپ میرے پاؤں کیوں چھو رہے ہیں؟ ہمیں تو یہاں ہمارے بھائی، ہمارے باپ، ہمارے اپنے چھوڑ کر گئے۔ پہلی بار کوئی اپنا کسی کو لینے آیا ہے۔ آپ اپنی بیٹی کو لے جائیں۔“
بدھا نے کہا تھا، بھکشو۔
آدمی اپنی گم شدہ بیٹی کو لے آیا۔ وہ زندگی کی سمت لوٹنے کا خواہش مند ہے۔ مگر تب اسے خبر ہوتی ہے کہ اس کا تلخ ماضی اس کے تعاقب میں ہے۔ اس کے سابق بزنس پارٹنر نے اس پر قتل کا جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا ہے، گرفتاری پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ابھی آدمی اسی صدمے میں ہے کہ وہ نیند میں بڑبڑاتی، ٹراما کی شکار اپنی مظلوم بیٹی کی آوازیں سنتا ہے، جو خواب میں کسی درندے سے التجا کر رہی ہے کہ وہ اس کا جسم نہ نوچے کہ وہ اس کی بیٹی کی عمر کے برابر ہے، اسے چھوڑ دے۔
باپ پر جیسے بجلی کرتی ہے۔ غم اور صدمہ سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ وہ ڈھے جاتا ہے۔
زندگی دکھ ہے۔
پس منظر
صاحبو، جو کچھ اوپر بیان کیا گیا، وہ ایک حقیقی واقعہ بھی ہو سکتا ہے، اور ایک افسانہ بھی، مگر فی الحال یہ ایک فلم کا منظر ہے۔ ایک تامل فلم، جس نام ہے، ”مہاندی“ ۔ سن 1994 میں ریلیز ہونے والی اس نیشنل ایوارڈ یافتہ فلم کو معروف ہدایت کار، سانتھنا بھارتی نے ڈائریکٹ کیا تھا، اور اس کا اسکرپٹ لکھا تھا، اس بدنصیب باپ (کرشنا) کا کردار نبھانے والے اداکار نے، جس کا نام ہے، کمل ہاسن۔
اس فلم کو ممتاز بھارتی فلم کریٹک، بھردواج رنگن نے ”دنیا کی غمگین ترین فلموں میں سے ایک“ قرار دیا۔ دیگر سنجیدہ ناقدین نے بھی اس کے کرب ناک مناظر کے باعث اسے تامل فلم انڈسٹری کی سب سے افسردہ فلم ٹھہرایا۔
بچوں کی اسمگلنگ، کرپشن اور قانونی نظام کے سقم عیاں کرنے والی اس فلم میں مضمر پیغامات اس کے مناظر سے زیادہ گہرے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اخلاقی اقدار پر سنجیدہ سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔
کمل ہاسن کا اسکرپٹ اور اس کے سروکار:
کمل ہاسن نے ایک مفکر کے مانند، جو وہ ہے، خدا/بھگوان کے رائج تصور، اس کے بنائے ہوئے نظام، خیر کو شر پر فوقیت دینے کے روایتی اخلاقی و سماجی تصور سے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔ فلم میں کرشنا اور دیگر کردار بار بار یہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسا بھگوان ہے، جو صرف نیک اور کم زوروں کا امتحان لیتا ہے؟ اس کے سنسار میں ظالم اور بدعنوان کیوں آزاد گھوم رہے ہیں؟ کیوں بدی طاقت ور ہے اور خیر کم زور؟ یہ کیسا نظام ہے، جو مظلوم کو قصوروار ٹھہرا کر جیل میں ڈال دیتا ہے، مگر ظالم آزاد گھومتا رہتا ہے؟
( جو صاحبان کمل ہاسن کے تصور خدا اور اس کے فن اداکاری کے اسرار کو مزید سمجھانے کے خواہش مند ہیں، وہ اس کی کلٹ کلاسک ”ان بی شیوم“ دیکھ سکتے ہیں، وہ اتنی کرب ناک نہیں، بلکہ پرلطف ہے۔ اگر زندگی نے موقع دیا، تو اس کے تجزیے کی بھی کوئی صورت نکال آئے گی۔)
”مہاندی“ میں کمل ہاسن، ایک حقیقی ناقد کی طرح محض مذہب نہیں، بلکہ سماجی اسٹرکچر، بالخصوص جدید ہندوستانی اخلاقی نظام کی بنیاد تصور کی جانے والی گاندھی جی کی تعلیمات پر بھی سوال اٹھاتا ہے کہ اگر بدی ہی فاتح ہے، تو ہمیں نیک بننے کی تعلیم کیوں دی گئی، کیوں کہ ہمارے حصے میں تو محض کرب آیا۔
کرب، جو حقیقت ہے۔
کردار اور دریا:
یہ کہانی خیر کو بھی منظر کرتی ہے، مثبت کردار بھی ہیں، مگر وہ کم زور اور بے بس ہے۔ کرشنا کا سسر پنجاپیکشن السر سے جوجھتا ایک خوش اخلاق انسان ہے، جو کرشنا ہی کے مانند جھوٹے الزام میں جیل میں قید ہے۔ وہ سماجی ناہم واروں اور درپیش مسائل کا حل عبادات میں تلاش کرتا ہے، اور یقین رکھتا ہے کہ پراتھنا سے مشکلیں ٹل جاتی ہیں۔ یہ کردار ہندوستان کے ایک پڑھے لکھے، مڈل کلاس، مجبور شخص کا عکاس ہے، جو انتقام لینے کے بجائے دھیرج رکھنے اور معاملات کو افہام تفہیم سے حل کرنے کا خواہش مند ہیں، مگر درپیش مسائل کا اس کے پاس بھی کوئی حل نہیں۔
بدعنوان پولیس اہل کاروں کے درمیان ایمان دار پولیس افسر متوسوامی کا کردار کرپٹ نظام میں موجود ایک ایمان دار، نیک نیت، مگر مجبور انسان کی علامت ہے۔ اس کے ذریعے فلم میں یہ فلسفہ پیش کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کلی طور پر ایمان دار نہیں۔ تھوڑی بہت کرپٹ ہر شخص ہے۔
خود کرشنا کا کردار سماج میں کم زور انسان کی بے بسی اور بے چارگی کو منظر کرتا ہے، جو فلم کے آخر میں اپنے ساتھ برتی جانے والی نا انصافیوں کا بدلہ لینے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ البتہ یہاں وہ قانون میں موجود سقم ہی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اپنے ایک بازو کی قربانی دے کر زندگی کی سمت لوٹتا ہے۔
ایک دل چسپ امر یہ ہے کہ نہ صرف فلم کا ٹائٹل، بلکہ کئی کرداروں کے نام بھی دریاؤں پر ہیں، جیسے کرشنا (کمل ہاسن) کی ساس سرسوتی کا نام، یا اس کی بیٹی کاویری کا نام، یا پھر اس کی بیوی یمنا کا نام۔ یہ تینوں دریاؤں سی شانت اور نیک دل عورتیں فلم میں خیر کی علامت ہیں، جو ہر مرحلے پر اپنوں کے لیے قربانیاں دیتی ہیں، مگر اس نیک نیتی اور اچھے اعمال کے باوجود وہ ظلم و جبر کا شکار بنتی ہیں۔
فلم کے تھیم یا موضوعات:
یہ فلم بنیادی طور پر کمل ہاسن ہی کے ذہن کی اختراع تھی، جس کے پیچھے ایک ذاتی واقعہ تھا، جب اسے اپنے بیٹی کے اغوا کے منصوبہ کا علم ہوا، جس کے بعد اس نے فلم کے اسکرپٹ پر کام شروع کیا۔
یہ ایک حیران عمل ہے کہ جب کمل کے ہم عصر۔ جیسے رجنی کانت، چرن جیونی اور امیتابھ بچن۔ کمرشل فلمز بنا رہے تھے، کمل ہاسن اپنے کیریر کے عروج پر ایک کرب ناک، تلخ اور حقیقی کہانی بیان کرنے کی سعی کرتا ہے۔ ایک ایسی کہانی، جسے دیکھنا، سہنا ناظرین کے لیے کل بھی مشکل تھا اور آج بھی دشوار ہے۔ (جیل کی حقیقی، کریہہ منظر کشی کئی ناظرین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے : مصنف)
فلم کا تجزیہ سہل نہیں۔ البتہ اس میں ایک مضمر پیغام یہ بھی ہے کہ شہرکاری یا شہروں کے آباد ہونے کا مطلب محض ترقی نہیں، اس آباد کاری میں کہیں کہیں بہت گہری دراڑیں ہیں، دولت کا تعاقب سراب بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ فلم کے پیچھے موجود ذہن دیہی سادہ زندگی، زمین سے جڑت اور خاندان کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنے کی سعی کرتا ہے۔
”مہاندی“ پر ہمیں وکٹر ہیوگو کے ناول ”لیس مزربلز“ اور ہولی وڈ کی فلم ”ہارڈ کور“ کے بھی اثرات دکھائی دیتے ہیں، جسے کمل نے بھی تسلیم کیا، مگر ہر رنگ کو دھرتی کے خاکی رنگ اور حقیقی کرب سے یوں جڑا گیا ہے کہ مہاندی اپنے اندر ایک داستان بن گئی ہے۔
حروف آخر:
”مہاندی“ ایک تلخ، سست رفتار فلم ہے، جس کے پاس پیش کرنے کو چند خوشیاں اور بہت سا کرب ہے۔ یہ ہر دوسرے ناظر کے لیے نہیں۔
گو یہ تشدد کو تو سہولت سے منظر کرتی ہے کہ ایکشن کے ژانرا میں تشدد کی قبولیت موجود ہے، اور جیل کی غلاظت کو بھی کہ آرٹ فلمز (اگر آرٹ فلمز کی اصطلاح اب بھی متعلقہ اور درست ہے ) ، مگر جنسی تشدد اور زیادتی جیسے معاملات کو براہ راست دکھانے سے اجتناب گیا ہے، البتہ اس سے جڑے احساس کو پوری وقت سے درشایا گیا ہے۔ اور بہ قول معروف ہدایت کار، راجا مولی، یہ ایموشن یا احساس ہے، جو ناظرین کے دل تک رسائی پاتا ہے۔
یہ فلم ان احباب کو ضرور دیکھنی چاہیے، جو سنجیدہ فلم کے شایق اور تلخی سہنے کی قوت رکھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان ناقدین کو بھی، جو اب تک ساؤتھ انڈین سنیما کی تخلیقات اور فن کارانہ جہت تلاش نہیں کرسکے۔
ہندوستان ناقدین ”مہاندی“ کو کمل ہاسن کی بہترین کاوشوں میں سے ایک ٹھہراتے ہیں۔ اور وہ ایسے غلط بھی نہیں۔
- فکشن نگار، خاکہ نویس اور ٹی وی کی اسکرپٹ ہیڈ، سائرہ غلام نبی سے ایک مکالمہ - 31/08/2023
- گاہک کی منتظر ایک کال گرل کا باپ (ایک تجزیہ) - 20/08/2023
- جناب حاشر ابن ارشاد کا انٹرویو - 13/08/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).