کاکڑ صاحب کی وزارت اعظمی اور تجزیہ کاروں کی بے خبری


ایک وقت تھا کہ رات آٹھ سے نو بجے لوگ تفریح کے لئے ڈرامے اور دیگر دل بہلانے کے پروگرام نیشنل ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے۔ لیکن جب سے پرائیویٹ چینل کا ملک میں غلغلہ بن چکا ہے تو ساتھ ساتھ سیاست اور سیاسی گفتگو کا سلسلہ بھی اپنے عروج کو پہنچ گیا ہے۔ ہر چینل نے تفریح کے ساتھ ساتھ خبروں کے الگ سے چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر بھی اپنے اپنے چینلز کھولے ہیں۔

لیکن سب چینلز میں جو قدر مشترک ہے وہ سیاسی مذاکروں اور سیاسی تجزیوں کا طریقہ یا واردات ہیں جو ٹھیک آٹھ بجے سے نو بجے تک ہفتے میں چار دن اور مزید دو دن ان سے ملتا جلتا کوئی دوسرا سیاسی پروگرام کوئی الگ اینکر چلا رہا ہوتا ہے۔

تجزیوں پر تجزیے، تبصروں پر تبصرے اور بریکنگ نیوز پر بریکنگ نیوز میں عوام کو بہت مصروف رکھا ہوا ہے اور یہ تجزیوں اور تجزیہ نگاروں کی ایک بھرمار ہے، ماہرین کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے۔ کوئی چڑیا سے خبر دے رہا ہے تو کوئی چڑے سے، کوئی اندر کی خبر لا رہا ہوتا ہے تو کوئی بیرونی خبریں۔ کوئی اندر کا آدمی ہوتا ہے تو کوئی قلندر کا۔

کوئی دفاعی تجزیہ کار ہوتا ہے تو کوئی اطلاعات اور مواصلات کا ماہر۔

کوئی کس کا آدمی ہوتا تو کوئی کس کا اور عوام ہیں کہ ان سے اس حد تک متاثر ہو چکے ہیں کہ ہر بات اور ہر خبر یا اطلاع میں ان کو کوٹ کرتے ہیں اور ان کے کوٹ ہونے کا مطلب خبر یا اطلاع میں کوئی شبہ ہو ہی نہیں سکتا۔

شہباز شریف کے وزارت عظمی سے ہٹنے کے بعد جنرل اور سوشل میڈیا پر نگراں وزیر اعظموں کے ناموں کا ایک تانتا بنا ہوا تھا۔ کسی کو امریکہ تو کسی کو برطانیہ، کسی کو دوبئی تو کسی کو آئی ایم ایف سے ملایا یا جوڑا گیا۔

امکانات پر امکانات دیے جا رہے تھے کہ فلاں شخص وزارت عظمی کے لئے فیورٹ ہے۔ فلاں کا تعلق امریکہ سے، فلاں کا جھکاؤ برطانیہ کی طرف اور فلاں کے ڈانڈے آئی ایم ایف سے ملتے ہیں۔

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ کسی کو کوئی ککھ پتہ نہیں تھا اور چپکے سے انوار الحق کاکڑ وارد ہو کر وزارت عظمی کے پوٹ فولیو پر دھڑلے سے براجمان ہوئے۔ تب لوگوں کو پتہ چلا کہ میڈیا نے ان کو اپنی بے خبری میں کتنا بے خبر رکھا۔ اور پشتو ٹپے کی مصداق
ماوئیل چے زہ بہ ورتہ جاڑم
جانان د کورہ سترگے سرے راوڑینہ دینہ
میں سمجھ رہا تھا کہ میں ان کے سامنے روؤں گا
لیکن جاناں تو گھر سے آنکھیں لال کیے ہوئے آئے ہوئے ہیں۔

اب لوگ بھی سمجھ گئے کہ چینلز، تجزیہ کار اور ماہرین جو اتنے وثوق سے چڑیوں، اندر کی اور پکی خبریں دیتے ہیں وہ در اصل ان کے تکے ہوتے ہیں۔ لگ گئے تو خبر نہیں لگے تو افواہ۔ ہمیں انوار الحق نگراں وزیر اعظم سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ ان کو لانے والوں سے کوئی گلہ ہے۔ بس جو سمجھ آنا تھا وہ بہت اچھے طریقے سے آ گیا۔ اب بلا وجہ کسی تجزیہ نگار یا کسی ماہر یا پھر کسی اندر کے آدمی یا پھر مزید یہ کہ کسی چڑیا اور چڑے پر بھی تکیہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کہ اس بار سب باہر ہی رہیں کوئی اندرونی خبروں اور تجزیوں میں سچے اور کھرے نہیں تھے سب کو ڈاج دیا گیا اور سب ہی فیل ہو گئے ہیں۔

اب نگراں کابینہ پر تجزیے اور تبصرے ہو رہے ہیں دیکھتے ہیں اس میں کتنے تکے درست لگتے ہیں اور کتنے تکے خالی جاتے ہیں۔ عوام اب تجزیوں اور تبصروں کے بجائے پھر سے ڈراموں کی طرف رخ کر رہے ہیں کیونکہ اگر ڈرامے ہی دیکھنے ہیں تو پھر اصل ڈرامے کیوں نہ دیکھیں کسی بھی جذباتی منظر کے دوران یہ تو خود سے کہہ سکیں گے کہ یہ تو ڈرامہ ہے حقیقت تھوڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments