افضال احمد سيد نثری نظم کے گرداب میں


میں کراچی آرٹس کونسل میں کافی عرصے سے آتا رہا ہوں اور کافی عرصے سے افضال احمد سید اور ڈاکٹر تنویر انجم کو ساتھ دیکھتا رہا ہوں لیکن ان سے آتے جاتے دعا سلام کے علاوہ کوئی شناسائی نہیں تھی اور نہ ان کی شاعری سے کوئی واقفیت تھی البتہ افضال احمد سید کے مقابلے میں ڈاکٹر تنویر انجم کو پڑھا اور ان کی ایک نظم پشتو میں بھی ترجمہ کی تھی جس کو ایک آن لائن پروگرام میں سنانے کا موقع بھی ملا۔

لیکن جب سے ریڈر اینڈ رائٹر کیفے کے پروگرام باقاعدگی سے شروع ہوئے اور میں اس میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا تو نہ صرف افضال احمد سید سے شناسائی ہوئی بلکہ ان کی شاعری سے بھی علاقہ پڑ گیا اور ایسا علاقہ پڑا کہ افضال احمد سید کی پوری کلیات ہاتھ لگ گئی۔

مٹی کی کان میں، میں ایک سرے سے داخل ہوا اور اس میں گھومتے گھومتے دوسرے سرے پر جا نکلا تب جا کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ مٹی کی کان نہیں بلکہ یہ تہذیب، ثقافت، رسومات اور روایات سے گریز پا اور رجوع بکار ہو کر جدید، جدید تر اور جدید ترین ادبی معدنیات کی طلائی کان ہے یہاں ادبی کیمیا گری کے خزانے چھپے ہوئے ہیں جس کے لئے کیمیا گر بننا پڑے گا لیکن کہاں میں اور کہاں کیمیا گری لیکن مٹی کی کان میں خاک چھاننے کا ہنر میرے پاس فطری تھا جس کا سہارا لے کر خاک گری سے کیمیاگری کی جانب اس طمع پر چل پڑا کہ چھاننے اور ادبی تیشہ گری کے اس فرہادی عشق میں مشق سخن کے جوئے شیر کے کیمیائی سوتوں کا ایک سیلاب امڈ کر آ سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔

مٹی کی کان میں مجھے سب سے پہلے چھینی ہوئی تاریخ کے آثار ہاتھ آئے جسے کرید کر ایسا بالکل نہیں لگا کہ یہ کوئی قدیم آثار ہیں بلکہ بالکل ترو تازہ اور عصر حاضر کے کسی ایسے فن کار کے فن کے آثار تھے جس نے زندگی اور ہمارے درمیان صرف فاصلہ کر دیا تھا ہم میں کسی چیز کا بھی کوئی جزو نہیں تھا ہم تھے ہی نہیں یا شاید ہمیں مارا نہیں گیا قسط وار تحلیل کے مضبوط اصول کے تحت ختم کر دیا گیا اور یہ یاد رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ ہم زندہ رہے تھے کیونکہ ریت کی چار بوریوں کی آڑ اور ایک چھینی ہوئی تاریخ ہمیں زندہ رکھنے کے لئے بہت کم تھی پھر بھی ہم براہ راست حملے سے بچ گئے تھے اور ہم نے شاید نہیں بلکہ یقیناً یہ نظریہ تسلیم کر لیا کہ ہم میں دوہری مزاحمت پیدا ہو گئی ہے۔

اس کے بعد قدیم تلواروں سے زنگ ہٹانے کی مشکل مشقت سے میرا واسطہ پڑ گیا جہاں مردہ رات پر پھیلی ہوئی دیوار کے نیچے ایک عورت اپنے اندھے بچے کوایک لوری اور ایک نارنگی دے رہی ہے جس کے ساتھ اس درخت کی پتیاں لگی ہوئی تھی جو کسی دل میں نہیں اگا۔ تم ملکہ تھیں یا نہیں لیکن شنید یہ تھی کہ تمھیں شہد اور قدیم تلواروں کے زنگ میں دفن کیا گیا تھا تمھاری شبیہ سے کسی آسمان کو نہیں سجایا گیا تھا مگر دلدلوں اور نو زندگیوں کے کھیل کے دوسری طرف اس غار میں دیوار پر کھدی ہوئی تمھاری آنکھوں سے یہ پیغام ٹپک رہا تھا کہ ہم ایک قتل عام میں ایک تہوار میں چٹانوں میں بنے ہوئے چھوٹے قلعے کی کوٹھڑی میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہوں گے۔

آگے چل کر مجھے برفانی چڑیوں کے قتل کی ایک کہانی سے سابقہ پڑا۔ یہ میں ہوں تم نے کہا اور آئینوں سے دھواں نکلنے لگا تم نے دنیا کی قدیم ترین زبان میں دعا مانگی جو ایک گیت اور جھوٹ دونوں طرح سنی گئی میں نے تم سے کہا مجھے اپنے بالوں کی دو لٹیں دو تمھارے انکار کے بعد میرے مارے جانے کی کہانی ہے۔ میں مار دیا جاؤں گا۔ افسوس کہ بہت سا وقت ان ہاتھوں کو ہموار بنانے میں ضائع ہو گیا جو ایک دن میرا گلا گھونٹ دیں گے جلد یا بد دیر میں مار دیا جاؤں گا، مار دیا جاؤں گا جیسے کہ تا دیوش روزے وچ کی نظموں کے کرداروں کو مار دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد میں ایک جنگل میں پہنچ جاتا ہوں مجھ پر نیند کی غنودگی تاری ہوتی ہے نیند کے پاس ایک رات ہوتی ہے اور میرے پاس کہانی اور جنگل کے پاس ایک عورت، عورت فطری تخلیقی کرب سے گزر رہی ہوتی ہے کہ عین اسی وقت ایک شکاری وہاں پہنچتا ہے اور بچے کی آنکھوں کے بدلے عورت کی مدد کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے عورت کی تخلیقیت سے شکاری کے ہاتھ آنکھوں کی دو جوڑیاں آتی ہیں بارٹر سسٹم کی وجہ سے ایک جوڑی آنکھ کے بدلے زندگی بھر کا سامان خریدا جاسکتا ہے۔ میں اس جنگ کو ایک ہیرو کی طرح جیتنا چاہتوں اور اس شکاری کو تلاش کرتا ہوں جو بچہ پیدا کرنے کے عوض اس کی آنکھیں طلب کرتا ہے اور اس ماں کو تلاش کرتا ہوں جو بغیر آنکھوں کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے، شکاری سے سودا کردہ شخص کو پہچان لیتا ہوں اور اس اندھے بچے کو اور اس بندے سے آنکھیں چھین کر شکاری کو ڈھونڈ نکال کر عورت کے پتے پر روانہ ہو جاتا ہوں۔ چلتے چلتے ایک تلوار کی ایک ایسی داستان سے جا ملتا ہوں جو بذات خود ایک اینٹ کا قصہ نہیں آگ پانی اور مٹی کا قصہ ہے۔ یہ ایک تلوار کی داستان ہے جس کا دستہ ایک آدمی کا وفادار تھا اور دھڑ ایک ہزار آدمیوں کے بدن میں اتر جاتا تھا یہ بستر پر دھلی دھلائی ایڑیاں رگڑنے کا تذکرہ نہیں ایک قتل عام کا حلفیہ ہے جس میں ایک آدمی کی ایک ہزار بار جاں بخشی کی گئی۔ لیکن پھر بھی فروخت کیے گئے انسانوں کی بغاوت میں میں حصہ بقدر جثہ شامل ہو گیا کیونکہ ہم جوان صحیح قامت، مضبوط اور پرکشش تھے قیافہ شناسی کی روسے آزاد رہنا ہمارا حق تھا۔ ایک معاہدے کے تحت جو ہماری پیدائش سے پہلے منسوخ ہو چکا تھا ہمارے آقاؤں اور عدالتوں کا تعین کیا گیا جہاں ہم پیش کیے گئے۔ ہمیں فنی نکات میں الجھایا گیا کیوں کہ انسانوں کی فروخت ایک منافع بخش کاروبار ہے اور ایک خفیہ فیصلے کے تحت ہمیں اس آدمی کی تحویل میں دے دیا گیا جس کے پاس ہمارے خریدے جانے کی رسیدیں تھیں۔ مجھے اس کان میں استعاروں، رمز و کنایوں، تشبیہات، علامات، جراءت، بے باکی، دانشوری، فلسفہ، عشق، جنون، رومانس، گلے شکووں، کردار نگاری، مکالموں، قصہ گوئی، تنقید، تاریخ، تلمیحات، استفہام، مخاطبوں، تمثال، منظر کشیوں، ابہام اور تشریحات کا وہ خزانہ ہاتھ آیا جو اگر ایک جانب مجھے علامتی جنت کے باغ عدن میں لے جاتا ہے تو دوسری جانب رمز کے تاترین جہنم کی سیر بھی کراتا ہے لیکن سب سے پہلے مجھے اس باغ میں جانے دو جہاں سیب توڑے جا رہے ہیں مسخروں کے خیمے اور اسلحہ خانے کی چھت سے گزر کر مجھے اس باغ میں جانے دو جہاں سیب توڑے جا رہے ہیں سستے سلے ہوئے لباس اور ٹوٹی ہوئی نیند میں مجھے اس باغ میں جانے دو جہاں سیب توڑے جا رہے ہیں۔ جہاں تم ایک حور صفت میزبان ہو کر میرے لئے سیب لے آتی ہو جس پر تمھارے دانت کے نشان ہوتے ہیں اور خون آلود انار اور ایک مترنم نظم اور ایک چھری جو چیزوں کو الٹا کاٹتی ہے۔

تمھارے بدن کا تہوار ختم ہونے کے بعد شبیہیں اور نقابیں اتار دی گئیں اور آئندہ ضیافت کا مقام رمز سے ڈھکا ہوا جہنم ٹھرا لیکن عالم برزخ سے گزرنے کے لئے مجھے جس قبر میں داخل کیا گیا وہاں ایک آدمی پہلے موجود تھا یہ وہی آدمی تھا جسے میں نے قتل کیا تھا جب قاتل اور مقتول ایک ہی قبر میں جمع ہو جائیں اصل جہنم وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ عذاب کے فرشتے سوال و جواب کے لئے قبر میں آ گئے، فرشتے ڈرے ہوئے تھے شاید دوہری قبر میں اترنے کا انھیں کوئی تجربہ نہیں تھا سوال شروع کرنے کے لئے فرشتے نے سکہ اچھالا ہارنے والے فرشتے نے سوالات شروع کرنا چاہے میں نے تلوار کھینچ لی فرشتے میری قبر چھوڑ کر بھاگ گئے میں نے قبر کی مٹی پر پڑا ہوا سکہ اٹھا لیا جو جہنم میں میری پہلی کمائی تھی۔ ایک دن ایک کام چور فرشتہ ہماری قبر میں چھپ کر آرام کرنے کو آ گیا میں نے اس کی گردن پر تلوار رکھ دی میں تمھیں قتل کر دوں گا تم مجھے قتل نہیں کر سکتے مگر تلوار ہٹا لو مجھے ڈر لگتا ہے مجھے باہر لے چلو یہ کبھی نہیں ہوا جواب میں میں نے عذاب کے فرشتے سے حاصل کیا ہوا سکہ کام چور فرشتے کے ہاتھ پر رکھ دیا فرشتے نے سر جھکایا میں قبر سے باہر نکلنے لگا پھر مجھے اپنے مقتول کا خیال آیا میں نے اسے آواز سے جھنجھوڑا باہر چلو مجھے باہر نہیں جانا ہے مجھے تمھارے ساتھ کہیں نہیں جانا ہے ”میں نے اس کے منھ پر تھوک دیا اور اپنی قبر سے باہر نکل آیا۔

یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں اگر کسی کو معلوم ہو جائے تو آمین و الوداع، اپنی امین میں نے الماری پر نہ پڑھیں جانے والی نظموں کی ایک کتاب کے نیچے رکھ دی تب مجھے معلوم ہوا بلکہ شدید احساس ہوا کہ زندہ رہنا اگر ایک جانب میکانکی اذیت ہے تو دوسری طرف زندہ رہنا ایک تصوراتی اذیت بھی ہے۔ کیونکہ زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی میرے دریا حریف کی صفوں سے گزر کر مجھ تک پہنچے، میں نے ہمیشہ جھوٹا پانی پیا، مجھے ایک موسم بارشوں کے نام پر خالی چھوڑنا پڑا، میرے لئے وصیت نامہ اس نے چھوڑا جو کبھی بارشوں میں ننگے پاؤں نہیں پھرا۔

مجھے نہیں معلوم کہ یا پتہ نہیں کب وہ دیوی جو اس شہر کی مالکہ ہے مجھے اپنی خوشنودی عطا کرے کہ میں ان کے لشکر کے ساتھ نہیں تھا جنھوں نے اس کی کارواں سرائیوں میں صرف ایک رات گزاری پھر بھی میں نے سمندر کے فاصلے طے کیے پر اسرار طور پر خود کو زندہ رکھا اور بے رحمی سے شاعری کی میرے پاس ایک محبت کرنے والے کی تمام خامیاں اور آخری دلیل ہے۔ لیکن ہماری سانسوں کی کوئی شناختی دھن نہیں اور ہمارے خون کو آبی صابن سے بہ آسانی دھویا جاسکتا ہے اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے اس میں ایک بازگشت شامل کرلو پرانی داستانوں کی بازگشت کیونکہ ہمارے زندہ رہنے کی تاریخ نکل چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments