فرانز کافکا کا افسانہ: دستاویز


”دستاویز“ فرانز کافکا کا مختصر مگر شاندار افسانہ ہے۔ افسانہ نگاروں کا افسانہ نگار فرانز کافکا 1883 میں چیکو سلواکیہ کے شہر پراگ میں پیدا ہوا۔ پراگ کی عام زبان چیک تھی مگر وہاں جرمن بولنے والوں کا بھی ایک طبقہ تھا۔ یہودی خاندان میں جنم لینے کے باعث کافکا اس محدود جرمن حلقے کی نمائندگی سے بھی محروم ہو گیا۔ کافکا اقلیت در اقلیت تھا۔

کافکا کے فن کی اصل خوبی یہ ہے کہ ایک بار پڑھنے والا اسے دوبارہ ضرور پڑھتا ہے اور جو دوبارہ پڑھ لیتا ہے وہ تیسری مرتبہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کافکا کی تقریباً تمام ہی کہانیاں، افسانچے اور تحریریں اردو میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔

کہانی میں فلیش بیک کی تکنیک کو استعمال کر کے مصنف نے قصہ کو شاندار بنا دیا ہے۔ مختصر اڑھائی صفحات پر مشتمل کہانی میں، فکری و فنی پہلوؤں کو مصنف نے بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔

فطرت کا اصول ہے کہ جو شخص خود کے لیے محنت نہیں کرتا، وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتا یا تو وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے یا وقت اسے بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وقت انسان کی دھجیاں اڑا دے، خاک کے پتلے کو اپنی ریاست قائم رکھنے اور اپنی بقا کے لیے ضروری اقدامات اور دفاعی انتظامات وقت پر کر لینے چاہیے تاکہ بعد میں کوئی پچھتاوا نہ ہوں۔ کہانی کے اندر اسی پہلو کو واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ جب بستی کو وحشی درندوں نے آن گھیرا تو معلوم ہوا کہ ”ہماری بستی کے دفاعی انتظامات میں ابتدا سے کچھ کمزوری رہ گئی تھی جس کے باعث آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا ہے“ ۔

مثال کے طور پر پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں۔ ملک پاکستان کو آزادی 1947 میں ملی لیکن ملک میں قانون 1956 میں نفاذ ہوا اور وہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ جس ملک میں قانونی دستاویز کو نفاذ کرتے کرتے کئی سال لگ جائے وہ ملک نشوونما خاک کرے گا۔ جس ملک کے باشندے کاروباری معاملات میں اس قدر مستغرق ہوں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ملکی نظام چل کیسے رہا ہے؟ ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ تو اچانک بجلی کا بل دیکھ کر حیرت تو گی۔ کہانی سے اقتباس ملاحظہ ہوں :

”ہم اپنے روزمرہ کے کاموں میں اتنے مشغول رہے کہ اس طرف توجہ ہی نہ دے پائے لیکن گزشتہ چند دنوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس نے ہمیں مضطرب کر دیا ہے“

کہانی میں حکمران طبقے اور ملکی نظام چلانے والوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ کس طرح وہ نمودار ہوتے ہیں، ملک کو گوشت کی ہڈی سمجھ کر چباتے رہتے ہیں اور جب ان کے پیٹ بھر جاتے ہیں تو اپنے محلوں کے اندر گھس کر بیٹھ جاتے ہیں تو ان کے محلوں کی کشش وحشیوں کو دعوت بھیجتی ہے اور دوسری قومیں بری نظر سے ہمارے ملک کو دیکھتی ہیں، جب بھی ملک میں کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو اس میں حکمران طبقے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کہانی میں بھی یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وحشی بستی کے چوک میں ڈیرے لگاتے ہیں اور قیام و طعام کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہوں :

”وہ اپنی فطرت کے مطابق کھلے آسمان تلے قیام کرتے ہیں۔ سر پر چھتوں کی موجودگی سے انہیں وحشت ہوتی ہے صبح سے شام تک وہ اپنی تلواروں کو چمکانے، نیزوں کی نوکیں تیز کرنے اور شہ سواری کی مشق میں مصروف رہتے ہیں“

معاشرتی حقیقت ہے کہ چور رات کو چوری کے لیے نکلتا ہے نہ کہ مہمان نوازی کے لیے، جو ارادہ کر کے آئے، آج کچھ نہ کچھ لے کے ہی جانا ہے تو وہ کہاں کسی کی سنتا ہے۔ کہانی میں جب وحشی بستی پر وارد ہوتے ہیں تو ان سے گفتگو کرنا نا ممکن ہے۔ انہیں ہماری زبان سمجھ میں نہیں آتی اور ان کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی ہے۔ وہ آپس میں کوؤں کی طرح بات کرتے ہیں۔ انہیں ہماری اخلاقیات اور معاشرتی قدروں سے کوئی عرض نہیں ہے۔ یہ سب ان کی فطرت ہے اور وہ حرام خوری کے نشے میں خوب لوٹ مار کرتے ہیں۔ اقتباس!

”جو چیز بھی انہیں پسند آئے وہ لے جاتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں طاقت بھی استعمال نہیں کرنی پڑتی۔ وہ مطلوبہ چیز کی طرف بڑھتے ہیں اور ہمیں ان کا راستہ چھوڑ کر اپنی رضامندی کا اظہار کرنا ہوتا ہے“

ازل سے ایسا ہی ہے، طاقتور کے سامنے کمزور جھک جاتا ہے۔ لوگ ظلم برداشت کر لیتے ہیں لیکن آواز بلند نہیں کرتے، حکمران اپنے درباروں میں بیٹھ کر خوب مستی کرتے ہیں اور اپنے محلوں کی کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھتے ہیں کہ باہر کے حالات و واقعات کی کیا صورت حال ہے۔ یہ اشرافی طبقہ اپنے کمروں میں بیٹھ کر بڑے ٹھاٹھ لیتے ہیں جیسے ملک کو چلانے اور دفاع کرنے کا فریضہ کاریگروں، ہنرمندوں اور دھاڑی داروں کو سونپ دیا ہو۔

مختصر حکومتی ڈھانچے کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دینے کی بجائے کس طرح وحشیوں جیسا سلوک ملکی عوام اور ملکی نظام کے ساتھ کرتے ہیں اور خوب لوٹ مار کے بعد ملک کا بیڑا غرق کر کے خود ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments