میلے سے لکھا گیا باپ کو ایک خط
از نہاں خانہ دل
وقت زرد دوپہر
موسم خزاں میں لپٹی دھند
محترم ابا جان!
السلام علیکم!
ہم سب گھر والے خیریت سے ہیں اور امید کرتا ہوں کہ آپ بھی قبر میں خیریت سے ہونگے۔ ابا جان! آپ کو یہ خط اس واسطے لکھ رہا ہوں کہ امسال ہمارے یہاں بابا جی کا میلہ ، نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ آج میلے کو شروع ہوئے چار دن ہوچکے ہیں ، مگر دل میں ہمت نہیں تھی کہ آپ کو خط لکھ کر بتاؤں کہ اس بار یہ میلہ ہم آپ کے بغیر منا رہے ہیں۔
اماں نے محلے کے کئی لوگوں کے آگے منت کی،کہ وہ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ میلہ دکھانے لے جائیں، لیکن۔۔۔ ابا جی کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ چنانچہ اُن سب سے مایوس ہوکر، اماں نے ماموں راحت کو بلا بھیجا کہ وہ آئیں اور مجھے میلہ دکھانے لے چلیں۔ ابا جی! میں نے بہتیرا اصرار بھی کیا کہ مجھے چراغاں دیکھنے نہیں جانا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہاں جب آپ کو نہیں پاؤنگا، تو دل سے یہ منظر برداشت نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اماں اور ماموں کی ضد کے آگے ہار ماننی پڑی اور یوں پہلی مرتبہ آپ کے بغیر، آپ کا اکلوتا چشم و چراغ بابا جی کے مزار پہ چراغاں دیکھنے گیا۔
ابا جان! جب میں گھر سے ماموں کے ساتھ نکلا، تو انہوں نے میری انگلی بھی ویسے ہی پکڑی تھی، جیسے آپ مجھے انگلی سے پکڑے ہوئے چراغاں دکھانے جاتے تھے۔ ابا جان! وہ تمام راستے، گلیاں ، موڑ، اور کوچے، جہاں سے ہم گزر کر میلے کو جاتے تھے، وہ سب مجھ سے زبانِ حال سے بس یہی بات پوچھتے تھے کہ ” اس بار وہ چہرہ کہاں ہے، جو ان راہوں سے گرد اڑاتا، میلے کو جاتا تھا؟”، اور ابا جان میں بس چپ چاپ، اپنے آنسو اپنے اندر ہی ضبط کیے، اُن کو جواب دیے بنا آگے گزر جاتا۔بلکہ کئی بار تو ایسے بھی ہوا کہ میں کئی کوچوں سے آنکھیں اور کان بند کرکے گزرا، کہ کہیں سے پلٹ کے کوئی آواز، کوئی بازگشت، کوئی مانوس سایہ اگر دکھائی دے گیا، تو شائد میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔
ابا جان جب ہم بابا جی کے مزار پر پہنچے، تو وہاں کئی شناسا چہرے نظر آئے، جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے بچوں کی انگلیاں تھامے، اُنہیں چراغاں دکھانے آئے ہوئے تھے۔ بس ابا جان! ایک میں ہی وہ بدنصیب یتیم تھا، جس کی انگلی اس بار اپنے باپ کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ ابا جان! ہم کیونکہ وقت سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے، اور چراغاں ہونے میں بھی ابھی وقت تھا، سو ماموں مجھے میلے والی جگہ لے گئے، جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد میلہ دیکھنے آئی ہوئی تھی۔
ابا جان! مرکزی بازار بالکل پچھلے سال کی طرح سجایا گیا تھا جہاں ، جلیبی والے، کھلونوں والے، آم کے جوس والے، ٹھپے والیاں اور چائے والے اپنی اپنی مقرر کردہ جگہوں پر ٹھیے لگائے براجمان تھے۔سائیں یار محمد اس بار بھی دھول کی تھاپ پہ دیوانوں کی طرح بیچ بازار دھمال پہ دھمال ڈالےجارہا تھا، اور بچے بڑے سب اُس کی دیوانگی پہ آفرین کی صدائیں بلند کررہے تھے۔اگرچہ اس مرتبہ سٹال کم لگائے گئے ہیں، لیکن جو ہیں وہ پررونق ہیں۔ ایک جگہ چلتے چلتے میں اور ماموں اُس جگہ پہنچے، جہاں ہم نے بیٹھ کر جلیبی کھائی تھی اور آپ نے رومال سے میرا منہ اور ہاتھ صاف کیے تھے۔ میں نے وہاں جھک کر، آپ کی خدمت میں سلام پیش کیا تھا ۔
ابا جان! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بازار کے اختتام پر ایک وسیع و عریض میدان ہے، جہاں موت کے کنوئیں، کشتی اور جھولے والے اپنے اپنے سازو سامان کے ساتھ براجمان ہوا کرتے ہیں۔ ابا جی! مزے کی بات یہ ہے کہ کشتی وہی ہے، جس پہ آپ نے مجھے بٹھایا تھا اور ڈر کے مارے جس کے اندر ہی میں نے چھوٹا پیشاب کردیا تھا۔ اگرچہ مجھے ماموں کشتی پہ بٹھانا چاہتے تھے، لیکن میرا آپ کے بغیر دل ہی نہیں مانتا تھا، کیونکہ سوچتا تھا کہ اس بار اگر چھوٹا پیشاب نکل پڑا، تو ماموں جان ہنسنے کی بجائے مجھ پر غصہ کریں گے۔ سو یہ سوچ کر میں اُس پہ سوار نہیں ہوا۔
ابا جان! پچھلے سال یہاں چار موت کے کنوئیں تھے، مگر اس بار صرف دو ہی آئے ہیں ، جن پہ رش بہت زیادہ تھا۔ ابا جی مزے کی ایک بات بتاؤں کہ ایک بچہ اپنے باپ سے موت کا کنواں دیکھنے کی رو رو کر ویسے ہی ضد کررہا تھا، جیسے میں آپ سے کیا کرتا تھا۔ میں اُس بچے کی قسمت پہ رشک کرتے ہوئے، آنسوؤں کے ساتھ وہیں کھڑا آپ کو یاد کررہا تھا، کہ کاش آپ یہاں ہوتے، تو میں بھی آپ کے ساتھ ضد کرکے، موت کا کنواں دیکھتا۔
ابا جان! میلے میں بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ بس انسانی سر ہی دکھائی دیتے تھے، لیکن اس قدر بھیڑ میں بھی ، آپ کا یہ لاڈلا بیٹا، ایک کھوئے ہوئے بچے کی طرح آپ ہی کو تلاش کرتا رہا ، آپ ہی کو یاد کرتا رہا۔ میرا دل کرتا تھا کہ میں چیخ چیخ کر آپ کو آواز دوں ” ابا جی! ابا جی!” اور آپ دوڑتے ہوئے آکر، مجھے اپنے سینے سے لگا کر بھینچ لیتے، اور میرے بے سکون دل کو قرار آجاتا۔ لیکن۔۔۔ ابا جی! میں جانتا تھا کہ میں لاکھ چیخ لوں، لاکھ پکاروں، لاکھ آوازیں دے لوں، یہ آوازیں، یہ چیخیں یہیں اسی فضا میں گم ہوکر رہ جائیں گی اور آپ کا جواب نہیں آئے گا۔ ابا جان! میں کیا کیا لکھوں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ لکھنے کا حوصلہ ہی کہاں ہے ابا جی۔ یہ خط میں قلم کی سیاہی سے نہیں، بلکہ جگر کی سرخی سے لکھ رہا ہوں۔
ماموں جان تو وہاں ابھی اور بھی رکنا چاہتے تھے، مگر ابا جان! اب میرے اندر ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور اس میلے میں جہاں ہر شخص، ہر بچہ خوشی کے عالم میں سرشار تھا، وہاں میں اس قدر رو رہا تھا کہ میری ہچکی بند ہوگئی تھی۔ ماموں تو ابھی چراغاں دیکھنے اور قوالی سننے کا بھی کہہ رہے تھے، مگر میں پیٹ میں درد کا بہانہ بنا کر، اُنہیں واپس گھر لے آیا اور آکر ماں کے دامن سے چمٹ کر، جو رویا توماں بھی اس قدر پھوٹ پھوٹ کر رہوئی، کہ میں اپنا غم بھول گیا۔ ابا جی ! میلے میں سب کچھ وہی تھا، وہی رونق، وہی مزے، وہی چہل پہل، اگر کسی چیز کی کمی تھی تو وہ آپ تھے ابا جی، آپ۔
ابا جی! کیا میں ہر سال یونہی یہ میلہ آپ کے بغیر مناؤN گا؟ کیا آپ ایک مرتبہ بھی پلٹ کر نہیں آئیں گے؟ ابا جی میلہ تو ملن کا نام ہے، مگر یہ کیسا میلہ ہے، جس میں ملن کی خوشیوں کی بجائے جدائی کے آنسو ہیں۔ ابا جان! ایک بار تو آجائیں اور مجھے میلہ دکھا نے لے جائیں۔ بس ایک بار۔ میں قسم کھاتا ہوں آپ سے وہاں کھلونے لینے کی بھی ضد نہیں کرونگا۔ بس آپ کے ساتھ وہاں آپ کی انگلی تھامے، آپ کے ملن کا میلہ دیکھتا رہونگا۔
آپ کے جواب کا منتظر
آپ کا بیٹا
- محبت کی ایک کہانی - 20/09/2023
- اشفاق احمد۔ تعلیمات، اصلیت اور افسانہ - 14/09/2023
- بھول - 09/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).