کیا ڈاکٹر خالد سہیل خوشیوں کے ڈبل شاہ ہیں؟
گزشتہ چار پانچ برس سے میں ڈاکٹر خالد سہیل کے ادبی حلقہ احباب میں شامل ہوں۔ ہم سب ’کے توسط سے ان کے ساتھ میرا یہ تعلق مضبوط ہوا۔ وہ قابل احترام استاد بھی ہیں اور پسندیدہ ادیب بھی ہیں۔ ضرورت کے وقت ماہر نفسیات بھی ہیں اور فیملی فرینڈ بھی۔ ان کے کچھ رازوں کی امین تو یہ دعا کی خواستگار بھی ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل وہ انسان دوست ہیں جو ہر دم انسانوں کے دکھوں کو آدھا اور سکھوں کو دگنا کرنے کے آزمودہ نسخوں کی دکان کھولے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کی دوستی کے سنہرے اصولوں میں ایک تو یہ ہے کہ وہ ہر دم حاضر رہتے ہیں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی انہیں بلائے اور وہ اس کا جواب نہ دیں۔ وہ انتہائی ضروری مصروفیات کے باوجود کم سے کم ایک پیغام کی شکل میں دو الفاظ پر مشتمل جواب ضرور دیتے ہیں۔ رسپانس دوستی کا پہلا اصول ہے۔
میں نے اتنا حاضر سروس شخص اپنی پوری زندگی میں پاکستان میں نہیں دیکھا۔ ہمارے ہاں ایک خاص قسم کی مردم بیزاری اور اکتاہٹ پائی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کے پیچھے ہماری داخلی کیفیات اور ہمارے خارجی حالات ہوں۔ ایک خاص قسم کی سرد مہری جو ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ ایک خاص طرح کا کا تجاہل عارفانہ جو ہمیں روز بروز ایک دوسرے سے دور کر رہا ہے۔ ہم کبھی وقت پہ کسی کی دستک کا جواب نہیں دیتے۔ اگر ہمیں انکار کرنا ہو تو ڈھنگ سے انکار کرنا نہیں آتا۔ اگراقرار کرنا پڑے تو با امرمجبوری ٹھیکے پر کر لیتے ہیں۔
ہم معاشی اور معاشرتی طور پر ہشت پہلوی جھنجھٹ میں الجھے ہوئے لوگ ہیں۔ سوال ہے کہ کیا یہ جھنجھٹ ہمیں الجھائے ہوئے ہیں یا ہم نے شوقیہ پالے ہوئے ہیں۔ کہیں مقابلے کی دوڑ میں ہم ہارے ہوئے گھوڑے تو نہیں۔ کیا ہماری بہت سی محرومیاں ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتیں۔ کیا ہم ادھورے لوگ ہیں جو دوسروں کو پوری خوشیاں نہیں دے سکتے۔ جو دوسروں کو پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ اپنی ہی ذات کے دائروں میں الجھے ہوئے انسان کسی دوسرے کو اپنا کوئی بھی پل کیسے دے سکتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایک اور بات یہ ہے کہ ہم کسی کو اہمیت دیں اور ہمارا دوست یا سہیلی اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ہمارے مطابق نہ چل سکے تو ہم فوری طور پر غصے میں آ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس طرح کے ہر غصے سے اوپر ہیں۔ وہ اپنے دوست کے عذر کو قبول کرتے ہیں۔ انتہائی رد عمل یا عام رد عمل بھی کم ہی دیتے ہیں۔ وہ خوشدلی سے اپنے دوستوں کو ایسے مواقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی دوستی کا مقام متعین کر سکیں۔ وہ ڈیلیٹ اور رپیٹ کا راستہ بھی کھلا رکھتے ہیں۔ جانے والوں کو محبت سے خداحافظ کہتے ہیں اور ایک درویش کی طرح دل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ لگتا ہے ان کے ہاں کینہ اور بغض پالنے کا رواج نہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بے قدرے ہو چکے ہیں۔ ہم منتقم مزاج ہو چکے ہیں۔ ہم تساہل پسند ہو چکے ہیں۔ خیر ہمیں چھوڑیں ہم بات کرتے ہیں ڈاکٹر خالد سہیل کی سوچنے کی بات ہے ان کے وقت میں، جذبے میں ہمارے اللہ پاک نے اتنی برکت کیسے ڈال دی ہے۔ اتنے مریضوں کو دیکھنے کے بعد ان کی بشاشت کے پیچھے کون سے راز چھپے ہیں۔ زندگی کو کیسے بامعنی بنانا ہے۔ ظرف کو وسیع کر کے کس طرح اپنانا ہے کہ ہر طرح کا انسان برابری کی سطح پر بات کر سکے۔ ان کے کچھ کالمز سے اخذ کیا ہے کہ سطحی محبت کیا ہوتی ہے اور گہری محبت کیا ہوتی ہے۔
سطحی محبت جیسی کہ ہمارے ہاں دیکھنے میں عام ملتی ہے۔ جو آپ سے محبت کا دعویٰ کرے اس کے سارے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کر لو۔ اب اس شخص کو آپ سے اختلاف کا حق نہیں رہا۔ اب اس نے اپنی آزادی آپ کے قدموں میں رکھ دی ہے مگر خود وہ جو چاہے کرے۔
ڈاکٹر خالد سہیل کے ہاں اس کی ممانعت ہے۔ وہ ہر اس زمین زاد سے دامن بچاتے ہیں جو انہیں ییلو ذون میں دھکیل دے۔ وہ دوسروں کو بھی ایسی کیفیات سے آگاہی کے اسرار بانٹتے ہیں کیسے خود کو سرسبز یعنی گرین زون میں رکھنا ہے۔ کیسے اپنی انرجی کا تھرمامیٹر اپنی جیب میں رکھنا ہے۔ کتنی بار چیک کرنا ہے۔ اس میں داخل ہو جائیں تو اپنی گاڑی وہاں پارک نہیں کرنی جلد از جلد اس ممنوعہ علاقے سے واپس اپنے باغ کی جانب آنا ہے۔ ایک محبت کرنے والوں کی چھتری تیار رکھنی ہے جو کڑی دھوپ میں کھول لینی ہے۔ اپنے رشتوں میں گرین رنگ کیسے بھرنا ہے۔ مکالمے کو ہر اختلاف کی کنجی کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اپنے ساتھ ایسے ہمراز بنانے ہیں جن کے سامنے دل کی بات کھول کے رکھ لیں۔ اپنی سطح پر ایک سی دلچسپیاں رکھنے والا حلقہ احباب بنانا، خود کو اپنے قریب رہنے والوں سے بنفس نفیس ملنے کے مواقع مہیا کرنا اور دور رہنے والوں کو تسلسل سے رابطے کی کامیاب کوششوں میں اپنا قیمتی وقت اور احساس شامل کرنا۔ یہ وہ راز ہیں جو ڈاکٹر خالد سہیل آزماتے بھی ہیں اور دوسروں کو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔
ان کے فارمولے بتاتے ہیں کہ کیا نہیں کہنا، کب کہنا ہے اور کس لہجے میں کہنا ہے۔ ”میٹھے بول میں جادو ہے“ بھی ان کا ایک نسخہ ہے۔
دو چاہنے والوں کو بھی راہنمائی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ایک فرد دوسرے سے فراخدلی سے پیش آئے۔ ہر دو چاہنے والے اپنے شریک زندگی کی شخصیت کی نشو و نما کیسے کریں اور دو طرفہ انداز میں سب ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ایک انسان دیوتا یا برتر نہیں ہے۔ بہت سے خاندانوں میں تعلقات بحال کرانے والے ڈاکٹر صاحب سرجری کر کے تعلقات جب اس نہج پر آ جائیں جہاں خوشی خوشی نہ رہے، بات نہ بنے تو تعلقات قطع کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں مگر ادب و آداب ہاتھ میں رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے طلاق یافتہ جوڑے بھی آپس میں ایک تعلق یعنی رومانوی تعلق کاٹ کر انسانی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھ سکتے ہیں۔
ان کے زریں نسخے بتاتے ہیں کہ انسان کو اپنی ذات پر کام کرنا چاہیے۔ خاموشی تنہائی اور دانائی آپس میں گہری سہیلیاں ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل اپنے تمام قارئین کو ای میل سے سوال اور جواب کرنے کی سہولت دیتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے وہ ایک تسلسل سے اتنے بہت سے لوگوں کو کیسے جواب دیتے ہیں۔ اس میں ٹائم مینجمنٹ وقت کی تقسیم، نظم و ضبط یعنی ڈسپلن اور ہم احساسی جیسے انسٹرومنٹ استعمال کرتے ہوں گے۔ یقیناً ڈاکٹر صاحب ایسے ہی شفا یافتہ آلات سے مزین رہتے ہیں۔
بات تو یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ان کی پہلی ترجیح انسان اور اس کی زندگی کے الجھے ہوئے معاملات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جو باتوں باتوں میں اپنے قصے کہانیاں سناتے ہیں دراصل یہ ان کی اپنے مقصد سے محبت ہے۔ ان کا مقصد ہے کہ لوگ اپنی زندگیوں میں خوشیاں پیدا کریں۔ اب ہمارے یہاں کے لوگ جو ریاست کے جبر کا شکار ہیں وہ خوشی کیسے تلاش کریں۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں بڑی سہولت ہے ان کے ہاں دوسرے کے لیے احترام وافر مقدار میں ہے۔ ان کے ہاں مرد، عورت اور ٹرانسجیننڈر کی تخصیص نہیں۔ وہ سب کو ایک ہی میزان میں پرکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس خوشی تلاش کرنے کا ایک فارمولہ ہے۔ جیسے کہ بامقصد زندگی۔ جیسے کہ فیملی آف دا ہارٹ مطلب دوستوں کی ایک گولڈن چین جن کی دلچسپیاں آپس میں ایک ہوں اور جن میں تخلیقیت ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان اس حلقے میں اتنا خوش رہ سکتا ہے جتنا کہ بطخ پانی میں۔ ہمارا مسئلہ تو کچھ اور ہے۔ ہم سطحی محبت تو دور کی بات عمومی طور پر گہری بے حسی، گہری ذود رنجی اور گہری سرد مہری کا شکار ہیں۔ جو ان سے بچ جاتے ہیں وہ خود پسندی کے اسیر ہیں۔ جو اپنے ہاں نمبر ون پہ آ جاتے ہیں۔ انہیں ارد گرد سوائے اپنے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ہم اکٹھے ہو بھی جائیں گے تو ہمارے دلوں سے شکایات کے دفتر کیسے دور ہوں گے۔
ہم ٹانگ کھینچنے کے ماہر لوگ ہیں۔ ہمارے پاس دوسروں کی تخلیقات سننے، ان کو سراہنے ان کی ترویج کے لیے وقت کہاں ہے ہم تو خود ہی تیس مار خان ہیں۔ میرا سوال ہے کہ کیا واقعی ہم سب بھی ایسے ہی عادات اپنا سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم ڈاکٹر خالد سہیل کے بتائے ہوئے فارمولوں پر زندگی میں دکھ آدھے اور سکھ دگنے کر سکیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈبل شاہ کی طرح خوشیوں کو ڈبل کرنے کے آزمودہ فارمولے بتاتے ہیں۔
وہ ایک تکون بناتے ہیں، خدمت، محنت اور تخلیقیت کی جس کا حاصل عدد ایک ہی ہے یعنی انسانیت۔ ان کی خدمت میں خلوص ہے۔ ان کی محنت کے پیچھے ان کی لگن ہے اور ان کی تخلیقیت میں وہ سارے راز ہیں جو انسان کو انفرادی طور پر صحتمند اور مجموعی طور پر پرسکون معاشرہ بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
اگر وہ پچھلی صدیوں میں ہوتے تو شاید صوفی کہلاتے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر سوشل ورکر ہیں جو ایک سوشل ایکشن کے ذریعے ایک بہت بڑے سست ہجوم کی موبلایزیشن کرنے میں سوشل ایکٹر کا رول پلے کر رہے ہیں، جس کا مقصد ان کے فرمودات کے مطابق پر امن دنیا کا قیام اور حصول ہے۔
افراتفری کے دور میں ہمیں بھی ایسے ہی خوشیوں کے ڈبل شاہ فارمولے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے شاید ہمارے کرداروں کے بجھتے چراغوں میں خلوص کی لو روشن ہو۔
- ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر - 16/07/2024
- شاعر ،شاعری اور خواب در خواب - 13/07/2024
- ڈاکٹر خالد سہیل اور گرین زون - 30/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).