میاں، زرداری اور عمران کے لئے ڈائیلاگ واحد آپشن ہے


ذوالفقار علی بھٹو شہید کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں تختہ دار تک پہنچانے والے جنرل ضیاء کے معاون سیاستدانوں کو بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے ضیاء مارشل لاء کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ بیگم صاحبہ مرحومہ نے بحالی جمہوریت کی خاطر یہ بھلا دیا کہ وہ ان سیاستدانوں سے اتحاد کرنے جا رہی ہیں جنہوں نے بھٹو حکومت کے خاتمے اور ضیا مارشل لا کی راہ ہموار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ان میں سے کچھ سیاستدان تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کرتے رہے تھے۔

یاد رہے کہ 1977 میں نو سیاسی جماعتوں، جن میں ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کی پیش رو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، مفتی محمود کی جمعیت العلماء السلام، مولانا نورانی کی جمعیت العلماء پاکستان، پیر پگاڑا کی مسلم لیگ، جماعت اسلامی، ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال اور نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی وغیرہ شامل تھیں، نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی وجہ سے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے سیاسی محاذ آرائی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جولائی 1977 میں بھٹو کو اقتدار سے محروم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اپریل 1979 میں مارشل لا حکومت نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے ذاتی دکھوں اور سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے سیاسی حکمت اور ملک کے وسیع تر مفاد میں تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں کو تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی کا حصہ بنایا تھا۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بھٹو دور حکومت میں کئی سال جیلوں کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ولی خان، غوث بخش بزنجو، معراج محمد خان، نوابزادہ نصر اللہ خان، ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان کی جماعتوں نے پی پی پی کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر ضیا مارشل لا کے خاتمے کے لئے تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ ان راہنماؤں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے ضیا مارشل لا میں بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

1990 کی دہائی میں مقتدرہ کے زیرسایہ نواز شریف کا ظہور ہوا اور ان کی سیاست پروان چڑھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی دونوں حکومتیں اسٹبلشمنٹ اور نواز شریف کی ملی بھگت کا شکار ہوئیں۔ بالآخر میاں نواز شریف بھی مقتدرہ کی ریشہ دوانیوں کا تر نوالہ بننے سے نہ بچ سکے، تین بار اقتدار سے محروم کیے گئے، جیل بھیج دیے گئے اور جلا وطن بھی کر دیے گئے۔ میاں نواز شریف کو جنرل مشرف نے جلا وطن کر دیا۔ بیگم نصرت بھٹو کی روایت پر چلتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف آمریت کے خاتمے اور بحالی جمہوریت کے لئے میاں نواز شریف کی طرف اتحاد کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے تاریخی دستاویز میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ بعد ازاں اسی میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق پی پی پی اور نون لیگ نے پارلیمنٹ سے آئین میں اٹھارہویں ترمیم منظور کرا کے فوجی آمروں کے بگاڑے ہوئے 1973 کے آئین کو بڑی حد تک اصل شکل میں بحال کیا۔

غیر جمہوری سوچ کو سیاسی جماعتوں میں مکالمہ اور مفاہمت کی فضا ایک آنکھ نہ بھائی تو ایک نئی سیاسی قوت کو پروان چڑھانے کی ٹھانی گئی تاکہ سیاسی محاذ آرائی اور مخاصمت کا بازار کبھی ٹھنڈا نہ ہونے پائے اور اسٹبلشمنٹ کو کھیل کھیلنے کا کھلا میدان ملتا رہے۔ ایسے حالات ہائی برڈ سیاسی بندوبست یعنی اسٹبلشمنٹ کی سیاسی و حکومتی معاملات میں مداخلت اور اثر و نفوذ بڑھانے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ 2011 کے بعد سے ایک بار پھر سیاسی محاذ آرائی کا چلن برپا ہو گیا۔ پی ٹی آئی نے اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے سیاستدانوں اور جمہوری سیاسی نظام کو نشانے پر رکھ لیا تھا۔ 2008 اور 2013 کی پی پی پی اور نون لیگی حکومتوں نے اپنی تمامتر خامیوں کے باوجود آئین کو بحال کیا اور جمہوری کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔

مقتدرہ کا عمران مشن 2018 میں کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔ عمران خان وزیر اعظم بن گئے اور پی ٹی آئی کی ہائی برڈ حکومت قائم ہو گئی۔ سیاسی اختلاف کو نفرت اور دشمنی میں بدل دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ نون لیگ اور پی پی پی کے کئی راہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ عمرانی ہائی برڈ بندوبست چار سال بھی مکمل نہ کر پایا اور دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ جیل یاترا والے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔ نون لیگ کے صدر شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم بن گئے اور ہائی برڈ وزیر اعظم عمران خان کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

اب عمران خان اور پی ٹی آئی ریاستی کریک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے لیڈروں نے عمران خان سے چھٹکارا پانے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ پی ٹی آئی کے بطن سے پنجاب میں استحکام پارٹی اور خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کا جنم ہوا۔ بچے کچھے جان کی امان پا کر گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں یا جیلوں کی سختیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں جیلوں کی سختیاں برداشت کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی پر ریاستی جبر پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بلکہ اس میں ان کی رضا مندی شامل حال کہی جا سکتی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی قوتوں کے ما بین سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے ریاستی اور حکومتی پالیسیوں پر اسٹبلشمنٹ کی گرفت مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ جمہوری ادارے پسپائی اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ 2008 کے بعد آئین کی بحالی سے منتخب قوتوں کی حاصل کردہ سیاسی سپیس پر مختلف سمتوں سے مقتدرہ کی پیش قدمی جاری ہے۔

عمران خان کا المیہ یہ کہ وہ اب بھی مقتدرہ سے ماضی کی طرح غیبی مدد حاصل کرنے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں عمران خان اپنے مخالفین سے سیاسی ڈائیلاگ کرنے سے گریزاں ہیں۔ مقتدرہ کے طالع آزماؤں کی پشت پناہی سے عمران خان نے پاکستانی سیاست کو ذاتی دشمنی اور نفرت کی جس بلند سطح پر پہنچا دیا ہے، وہاں سے نیچے لانے کے لئے عمران خان کو خود عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جیل یاترا، مقدموں کی بھر مار، سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاری اور پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ عمران خان کے سیاسی قبلہ کی سمت درست کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

جتنی جلدی ممکن ہو عمران خان کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ان کی اور ان کی پارٹی کا مستقبل صرف اور صرف سیاسی و جمہوری قوتوں کے طاقتور ہونے میں ہے۔ سیاسی جماعتوں سے نفرت اور محاذ آرائی کی سیاست ترک کر کے اور مقتدرہ کی بیساکھیوں کا سہارے کے لئے تگ و دو چھوڑتے ہوئے عمران خان کو سیاسی و جمہوری قوتوں سے رشتے استوار کرنے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ عمران خان جن حالات میں گھرے ہوئے ہیں وہ تقاضا کرتے ہیں کہ عمران خان آئین و قانون کی حکمرانی اور سول بالادستی کے لئے سیاسی قوتوں کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔ ایسا عمران خان پہلی بار نہیں کریں گے۔ چند سوالات پوچھنے سے شاید عمران خان کی یاداشت تازہ ہو جائے۔ کیا عمران خان دوسری نواز حکومت کے خلاف پی پی پی، جے یو آئی، نوابزادہ نصر اللہ مرحوم اور دیگر جماعتوں کے ساتھ متحد ہو کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ نہیں بنے تھے۔ کیا عمران خان نے مشرف دور کی پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمان کو وزیر اعظم کے انتخاب میں اپنا ووٹ نہیں دیا تھا۔ کیا عمران خان نے لندن میں نواز شریف کی قیادت میں مشرف مخالف اجلاس میں شرکت اختیار نہیں کی تھی۔ کیا عمران خان اور نواز شریف نے متحد ہو کر پی پی پی حکومت کے خلاف جسٹس افتخار بحالی تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کیا نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر خورشید شاہ کے ساتھ مل کر پریس کانفرنسیں نہیں کرتے رہے۔

پی پی پی، نون لیگ، اے این پی، جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور مکالمہ کا فقدان، باہمی الزام تراشی اور منافرت کی سیاست کا چلن اسٹبلشمنٹ کے کھیل کو آسان بنا دیتا ہے۔ یہ سوچ جمہوریت کو نہیں پنپنے دے گی جب تک یہ کہا جائے گا کہ کل ہم اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا شکار تھے، آج عمران خان کی باری ہے۔ ہم کیوں بولیں کریں۔ یہ محض ایک غلط فہمی ہو گی۔ یاد رکھئے عوام میں طاقت پکڑتی کوئی بھی سیاسی جماعت کسی وقت بھی اسٹبلشمنٹ کی نظر کرم کا شکار ہو سکتی ہے۔

عمران مخالف سیاسی قوتوں کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عمران خان کی طرف سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہے۔ آ صف علی زرداری، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو پی ٹی آئی دور کے مظالم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، نئے حالات کے تقاضوں، اسٹبلشمنٹ کے ماضی اور حال کو سامنے رکھتے ہوئے پی پی پی، نون لیگ، پی ٹی آئی، جے یو آئی، اے این پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے درمیانہ مذاکرات کے لئے مناسب ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ تاکہ آئندہ الیکشنوں کو ممکن، غیر متنازعہ اور منصفانہ بنانے کے لئے ایک وسیع سیاسی متحدہ محاذ کے پرچم تلے متفقہ فیصلوں تک پہنچنے کی کوشش کی جا سکے۔ اگر سیاسی قوتیں منقسم اور محاذ آرائی پر کار بند رہیں تو آج ایک کی باری تو کل دوسرے کی۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ مگر پاکستان کے عوام سے خوشحالی مزید دور ہوتی جائے گی۔ جمہوریت، جمہوری آزادیاں، آئین و قانون کی حکمرانی اور سولین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا، ان حالات میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments