ڈاکٹر عابد عباسی کی “بے تاب بیتی” اور ایک بے تاب قاری
جب آپ کسی سے تاریخ کے خشک واقعات کو دلچسپ کہانی کے سے حساب سے سنیں تو یقیناً ایک عام سا طالب علم جو علم کے ”ع“ کے واقفیت کے تگ و دو میں ہے اس شخص کو شاہکار قصہ ساز ہی تصور کرے گا جو یہ کام سرانجام دے، بالکل یہی کچھ کم و بیش 4 مہینے پہلے میرے ساتھ بھی ہوا، جب تاریخ کے کلاس میں ایک خوش لباس شخص اندر داخل ہوا، دل و دماغ تو پہلے سے تیار تھے کہ تاریخ کا کلاس ہے سو کر گزاریں گے، لیکن خیالوں کے بالکل برعکس وہ شخص بجائے تاریخ کو بتانے کے تاریخ کو دکھانے لگا، کہانی بتانے لگا، پھر کیا۔ ساعتوں کا کلاس کم پڑھنے لگے اور اگلے ہفتے کا انتظار کرنے لگے،
شک تو ہوا کہ یہ شخص عام تو نہیں، ہو ناں ہو لفظوں کو خیالی منظر میں ٹرانسفر کرنے والا جادوگر ہے،
پھر عقدہ کھلتے چلے گئے کسی دن آپ ہی کی زبانی اس بات کا اعتراف ہوا کے وہ ایک افسانہ نگار ہے، پھر کیا ہم نے ایک افسانہ پڑھنے کا عاجزانہ درخواست کی اس فقیر منش نے قبول بھی کی، لیکن جس دن افسانہ پڑھا جا رہا تھا، طبعیت کے ناسازی کے باعث میں شریک نہ ہوسکا، اب اسے حادثہ ہی کہا جائے گا
چلو بہت ہو گئی قربت کے قصے کتاب پر بات کرتے ہیں یہ کتاب ”بے تاب بیتی“ ڈاکٹر محمد عابد عباسی ”کے پہلے افسانوں کا مجموعہ ہے جو“ پیکاک ”پبلشر کے جانب سے پبلش ہوا، قیمت 400 ہے (میں نے سندھ لٹریچر فیسٹول سے کسی دوست کے ہاتھوں 50 % رعایت پر منگوایا تھا) کل 8 افسانے ہیں
حرف ناشر میں قمر آفتاب ابڑو نے منصف کا تعارف ایک درس و تدریس کے شعبہ سے استاد کی حیثیت سے کی ہے، اور پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب شاید کچھ کہانیوں کو بہتر سمجھانے کے لئے اپنے ماضی کو اس کتاب کا حصہ بنایا ہے، چونکہ کتاب کا نام ”بے تاب بیتی“ ہے تو آپ کو اس کتاب میں جاہ بہ جاہ منصف کے آپ بیتی افسانوی رنگوں سے مل کر دکھائی دیں گے،
میں ایک عام قاری ہوں۔ نہ تو میں تنقید نگار ہوں ناں تخلیق کار جو دوسرے تخلیق کار کے تخلیق کا نقص تلاش کرتا پھروں، لیکن ایک قاری نے کیا دیکھا کیا پڑھا یہ ضروری بیان کر سکتا ہوں،
اس کتاب میں اب تک جو افسانہ میں نے پڑھے ہیں ان پر میرا تبصرہ :
1-
افسانہ مورتی:
ایک نومولود پرندہ جس کی والدین انہیں کھانے دلانے کے لئے انسانی آبادی کے طرف جاتے ہیں اور پھر مار دیے جاتے ہیں، افسانہ کے منظر کشی قاری کو مجبور کر دیتا ہے وہ روزمرہ کاموں کو چھوڑ کر پہلے افسانہ مکمل کرے، تجسس اور حقیقت کے درمیان نومولود پرندہ اپنا رزق تلاش کرنے وہی جاتا ہے جہاں ان کے بڑے مارے گئے ان کے مردہ جسم بھی دیکھتا ہے، اور بہت سارے مردہ جسم انسانی جسم بھی، یہاں پر پھر افسانہ نگار اپنے کمال دیکھا کر قاری کو اپنے طرف کھینچ لیتا ہے، جنگ کے منظر کشی، بے مقصد عقائد بئی شاہکار افسانہ ہے
2-
چپل نمبر گیارہ :
مرد کے دل میں اگر عورت کے لیے محبت ہوتی ہے تو ان کے دکھوں کے لیے ایک خانہ ضرور مختص ہوتا ہے،
یہ افسانہ منصف کے شاید شاہکار افسانوں میں نہ ہو لیکن بہترین سبق اور مرد کے عکاسی کا سند ہو سکتا ہے، اس پورے کہانی کو ایک نوجوان عورت کے زبانی بیان کی گئی ہے، گھبرو لمبا مرد ایک معصوم عورت اور ان کے درمیان تعلق پر مبنی اس افسانہ کو ”رومانوی کہانی“ کے خانہ میں رکھا جانا چاہیے
3-
بریانی کے پلیٹ چالیس روپے ؛
یہ ”بے تاب بیتی“ کا تیسرا افسانہ ہے، چونکہ میں ایک عام قاری ہوں کوئی تنقید نگار نہیں۔ اس میں کے کراچی آدھے سے زیادہ منظر دکھائے گئے ہیں مسائل سے روشناس کیا گیا ہے، بہر حال افسانہ پڑھتے وقت بہت دفعہ قاری کو یہ افسانہ کم وسعت اللہ خاں کا کالم زیادہ محسوس ہوتا ہے لیکن قاری منظر کشی سے بھر پور مزہ لے کر افسانہ کو اختتام کر لیتا ہے
4-
اسے کتا مت کہو
(Don ’t call him dog)
یہ افسانہ دراصل ایک سے زیادہ موضوع پر مشتمل ہے یہ افسانہ نگار کا کمال ہے کہ افسانہ کے نام کے اردگرد موضوع اتنے یکجا کیے، مشرقی اور مغربی تہذیب کے بناوٹ و رہن سہن، انسانی تنہائی، کیا بلاء کا افسانہ ہے،
5-
تخلیق :
کمرہ عدالت کا منظر، کوئی عام سے مدعا نہیں کہ کسی نے کسی زمین ہڑپ لی، یا شوہر نے عورت کو نان شبینہ کا محتاج رکھا، نئی بئی، یہ افسانہ نگار تخلیق کار ہے افسانہ کے کرداروں کو مصور کا روپ دیکھ عدالت بھیجا، وہ بھی شاگرد اور استاد ایک تخلیق کے چوری کے الزام میں پھر کہانیاں ہی کہانیاں، کرداروں کو آزاد کرنے کا حق دینا تخلیق کار کا اخلاقی ذمہ داری ہے جس میں وہ بھر پور کامیاب رہا ہے، پچھلے ایک دو افسانوں میں تخلیق کار کرداروں کے بجائے خود بولنے لگتا ہے جس کے وجہ سے کہیں کہیں پڑھنے کوفت محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا،
اس افسانہ میں قاری کو منظر کشی، الگ نوعیت کا کیس اور دلچسپ کہانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا،
- ڈاکٹر عابد عباسی کی “بے تاب بیتی” اور ایک بے تاب قاری - 13/09/2023
- ایتل عدنان، دس لاکھ پرندے اور بیروت: ایک تبصرہ - 08/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).